میرا بیٹا

Shahan Ali

Shahan Ali

تحریر : شاہ بانو میر

جو انسان اللہ سبحانہ تعالیٰ کو پسند آجائے
اس کی زندگی کو یکسر تبدیل کر کے اسے عام زندگی سے ہٹا کر شعور کی دنیا میں داخل کرتے ہیں
یہ داخلہ آسان نہیں ہے
اللہ پاک انسان کو رشتوں کی آزمائش میں ڈالتے ہیں
خونی رشتے کتنے قیمتی ہوتے ہیں ان کے چھِن جانے کے بعد احساس ہوتا ہے
صدمہ جسم و جاں سے اترتا ہے اور روح میں مستقل براجمان ہو کر دکھ نئی آنیوالی زندگی پر اثر انداز ہوتا ہے
یوں کسی گھر میں سپیشل بچے عطائے رب کریم کی صورت پیدا ہوتے ہیں
سپیشل بچے اللہ پاک کی طرف سے آزمائش ہیں
دیکھنا یہ ہے کہ ہم کیسے پورے اترتے ہیں اس میں؟
الحمد للہ
اللہ پاک نے زندگی اور دنیا کی حقیقت سے آشکار کرنا تھا
دو جوان بھائیوں کی وفات کے بعد شاہان علی کی صورت پیارا سا شہزادہ دیا
بھائیوں کے جانے کے بعد دکھ کی دبیز تہہ ذہن سے روح تک تنی ہوئی تھی جس نے اس بچے کی نشو نما پر اثر ڈالا
سپیشل بچوں میں ایک اضافہ ہو گیا
الحمد للہ
شاہان علی ماشاءاللہ آج 13 سال کا ہوگیا ہے
پورے گھر کی جان ہے اس معصوم بچے میں
والدین کے علاوہ بہنیں بھائی سب اپنے بچے کی طرح اس کی دیکھ بھال کرتے ہیں
حال ہی میں ایک ایسوسی ایشن کی جانب سے ایک خاتون آئیں
کہ
اس کی فائل نجانے کیوں نیچے کی نیچے ہی رہ گئی ہے اب ہم اسے آگے بڑہائیں گے
جب اس نے اس کے بارے میں سوالات کئے
تو
اسکا چہرہ متغیر ہورہا تھا
سوالات ختم ہوئے تو وہ اس کا جائزہ لے رہی تھی
ہنستا مسکراتا شاہان علی
کبھی میرے پاس کبھی بہن کے پاس اور کبھی اسی خاتون کے پاس بیٹھ کر اپنی خوشی کا احساس دلا رہا تھا
اس خاتون نے کہا
میری عمر گزر گئی ایسے بچوں کے کوائف اکٹھے کرنے میں
حیرت انگیز بات دیکھ رہی ہوں
کہ
یہ بچہ اتنا مسکرا رہا ہے
پاس بیٹھ رہا ہے
میرے ہاتھ پر ھاتھ رکھ کر خوشی کا اظہار کر رہا ہے
آخر آپ نے اسے کیسے بڑا کیا جو یہ اتنا پازیٹو ہے؟
الحمد للہ
سب کیلئے ذہن ہمیشہ مثبت رہا ہے
اسی لئے بچے مثبت عمل کے ساتھ اس کی دیکھ بھال کرتے ہیں
یہ بچہ سب کی آنکھ کا تارہ ہے
صبح سے رات گئے تک
گھر میں صرف شاہان شاہان ہوتا ہے
اسے نہلا دیا اسے کھلا دیا اسے پلا دیا
ہر روز ایک دن گزر جاتا ہے
روٹین مشکل ہے
مگر
اس بات پر اللہ کا جتنا شکر ادا کروں کم ہے
کہ
اللہ پاک نے بچے سعادت مند با ادب احساس کرنے والے دیے ہیں
اسی لئے اس کا رویہ پازیٹو ہے
اس خاتون نے جواب میں کہا
آپ اس کو مارتے نہیں اس لئے یہ بھی مارنا نہیں جانتا
ورنہ ایسے بچے مار دھاڑ کرتے ہیں
اسے کہا کہ
ہم تو اس بات پر ہی اللہ کا شکر ادا کرتے رہتے ہیں
کہ
یہ چلتا پھرتا ہے گو کہ بول نہیں سکتا
ان سپیشل بچوں کو بھی دیکھا ہے
جن کی مائیں جھولتے گردن لٹکائے بچوں کو چمچ سے کھانا کھلانے میں نڈھال ہو جاتی ہیں
بد نصیبی ایسے گھروں میں یہ ہوتی ہے کہ
ایسے بچے صرف ماں باپ کی ذمہ داری بن جاتے ہیں
ترسی ہوئی نگاہ سے اپنے ارد گرد باقی نارمل بہن بھائیوں کو بھاگتے دوڑتے روزمرہ کے امور سر انجام دیتے دیکھتے ہیں
کتنی حسرتیں کتنے لاڈ کتنے ناز نخرے ان کےا ندر کروٹیں لیتے ہیں جن کا اظہار یہ بول کر نہیں کر سکتا
اسی لئے انہیں عام بچے سے زیادہ پیار کی توجہ کی ضرورت ہے
ان کی بے زبانی پر پیار کا محبت کا مرہم نہ ہر وقت نہ رکھا جائے تو
اندر کا لاوہ آتش فشان بن کر پھٹتا ہے
نتیجہ
بچہ کبھی ماں کو بیدردی سے مارتا ہے اور کبھی بہن بھائیوں پر ہاتھ اٹھاتا ہے
عمل کے اس رد عمل کے طور پر ماں عموما روتی ہے اور خود کو بچاتی ہے
جبکہ بہن بھائی اینٹ کا جواب پتھر سے دیتے ہوئے ذرا نہیں ہچکچاتے
ماں اولاد کی بے بسی پر پہلے ہی اندر سے ٹوٹی ہوتی ہے
ایسے میں متحارب گروہ بندی اس کی بے بسی میں مزید اضافہ کرتی ہے
ان کی اشتعال انگیزی دراصل ہماری مسلسل لا پرواہی بے توجہی ہے
وہ بول سکتے نہیں
ایسے میں ہمارا نظر انداز کرنا ان کی تکلیف بے بسی کو غصے کی طرف موڑتا ہے
اور
پھر بے بسی جنون بن کر سب کو متاثر کرتی ہے بجائے اس کے ہم اس بنیاد کو سمجھ کر اسے حل کریں
بالعموم
گھر والے مزید تلخ ہو کر ان سے جانوروں سے بھی گیا گزرا سلوک کر کے انہیں بھوکا پیاسا رکھتے ہیں
زنجیروں سے باندھ کر دھوپ میں بٹھا دیتے ہیں
یہ ظالمانہ رویے اللہ کے قہر کو دعوت دیتے ہیں
حکیم لقمان کا کہنا تھا “” 300 سال کی حکمت کے بعد مجھ پر یہ راز منکشف ہوا ہے کہ
ہر مرض کی دوا پیار ہے
اور
اگر افاقہ نہ ہو تو دوا کی مقدار میں اضافہ کر دو “”
سمجھنے کی بات یہ ہے کہ
ان بچوں کو ہمارے رویے سمجھ آتے ہیں
وہ جانتے ہیں کہ وہ معاشرے سے پیچھے ہیں
ان کی ذہن ناتواں ہوتے ہیں مگر محسوس سب کرتے ہیں
ان خوفزدہ بچوں کو ہر وقت کسی کا سھارا چاہیے ہوتا ہے
اگر
آپ انہیں اپنی محبت سے منفی سے مثبت رویہ اپنانے پر مجبور کر سکتے ہیں
انہیں اہمیت دیں محبت دیں آتے جاتے کسی ننھے منے بچے کی طرح چمکارتے ہوئے لاڈ کریں
ان کو دیکھ کر یا ان کے قریب سے گزر کر
مسکرائیں آواز دے کر انہیں ان کی موجودگی کا احساس دلائیں
ان کے کندھے پر ہاتھ رکھیں
گال تھپتھپائیں
سر پے دھیرے سے ہاتھ پھیریں
انہیں ساتھ لگا کر گرمجوشی سے بتائیں
کہ
ہم انہیں پیار کرتے ہیں انہیں محسوس کرتے ہیں
ان کے نام سے پکاریں
بار بار نام لیں
ان کے اندر ہر پکار پر ایک مثبت تحریک اٹھتی ہے
مثبت رد عمل سامنے آتا ہے
ان کا ڈانوا ڈول اعتماد پھر سے با اعتماد ہوتا ہے
کہ
گھر والے مجھے اہمیت دے رہے ہیں
ان کی چھوٹی سی محدود دنیا آپ سب ہی تو ہیں
چہرے پر ناگواری کی بجائے خوشی سے ان کی روٹین کے کام کریں
انہیں روزانہ پیار سے ضروریات سے فارغ کروا کے نہلائیں
ان کو اچھا سا تیار کر کے میچنگ شوز کے ساتھ باہر لے کر جائیں
فیملی کے درمیان بیٹھ کر ان کی خوشی اور چہرے کی مسکراہٹ انمول ہے
پاکستان میں بد نصیبی سے معاشی حالات کی خرابی ہمارے ترش رویووں سے ظاہر ہوتی ہے
ایسے میں اگر کسی گھر میں یہ بچے ہیں تو
انکی نفسیات کو ان کی طبیعت کی پیاس کو سمجھ کر تشنگی بجھانے کی بجائے انہیں مارا پیٹا جاتا ہے
اور
تمام حالات کی بھڑاس ہم ان معصوموں پر نکال کر کرتے ہیں
کہیں غربت اور سادگی ہے تو اللہ بچائے ان جعلی پیروں سے
ایسے بچوں کو ظالمانہ انداز میں مارا جاتا ہے کہ جن ہے اور وہ بھاگ جائے گا
حالانکہ
جس گھر میں بھی ایسے بچے ہیں
ان کو آپ کی محبت آپ کا پیار آپکی توجہ چاہیے
یقین کیجیۓ
یہ آپ جیسے نہیں ہیں لیکن انسان ہیں
اور
انسان بھی ایسے ہیں
جن کے ایک ایک پل کا حساب آپ نے دینا ہے
ایسے بچے جس گھر میں ہوتے ہیں وہاں اللہ کی بے شمار رحمتیں برکتیں نازل ہوتی ہیں
سپیشل بچے سپیشل رحمت ہیں ماں کیلیۓ ایسے بچے کی تکلیف اسے دعاؤں پر لاتی ہے
اور
راتوں کو جاگ جاگ کر مانگی ہوئی یہی دعائیں رنگ لاتی ہیں
اور
ماں کو دنیا سے دین تک پہنچانے کا باعث بنتی ہیں
اس پر ان کا شکرگزار ہونا چاہیے کہ یہ وسیلہ بنتے ہیں
قرب الہیٰ کا
آئیے انہیں وہ پیار دیں وہ توجہ دیں
جو
یہ ٹھیک ہوتے تو لاڈ کر کے لڑ کے پیار سے ہم سے حاصل کرتے
ان کی خاموش تمناؤں کو محبت کی زباں دے کر انکی زندگی کو اعتماد دیں
اور
اپنے رب کے ہاں خود انعام پائیں

Shah Bano Mir

Shah Bano Mir

تحریر : شاہ بانو میر