14 اگست اور ہماری ذمے داریاں

Pakistan 14 August

Pakistan 14 August

تحریر : امداداللہ خان نعمانی، کراچی

بہاروں کا نشیمن ہے عنا دل چہچہاتی ہیں
مسرت آفریں منظر میں دلکش گیت گاتی ہیں
جوان و پیر و زن بچے سبھی مست مسرت ہیں
ادائے دلربائی کا حسین مناظر دکھاتی ہیں

چند دن قبل جشن آزادی کی تیاریوں کے حسین مناظر آنکھوں کو طراوت اور دل کو فرحت بخش پیغامات ستا رہے تھے لیکن آج کے دن وطن عزیز کے پرچم کو فضاوں میں لہلہا کر آزادی و نصرت کی نوید سنائی جارہی ہے۔ جھنڈیاں جھک جھک کر قوم کے سپوتوں کو سلام تہنیت ادا کر رہی ہیں۔ قوم کے نونہال آزاد خیالی کے عالم میں تالیاں بجاکر رقص معصومانہ پیش کر رہے ہیں۔ قوم کی بیٹیاں بھی خوشی و مسرت کے اس موقع پر کسی سے کم نہیں ہیں وہ بھی خوشی کا اظہار والہانہ انداز میں کر رہی ہیں، ہر طرف جوش وجذبہ دکھائی دیتا ہے۔ قوم کے دلوں میں ولولے پیدا ہورہے ہیں ہر شخص کا دل خوشیوں سے لبریز ہے۔ ماضی کے بیتے لمحات یاد کیے جارہے ہیں۔ آزادی کی کہانی دہرائی جارہی ہے اور ایسے کیوں نا ہو یہی آزادی ہی تو خدا کی سب سے بڑی نعمت ہے جو صدیوں کی غلامی کے بعد ہمیں نصیب ہوئی ہے۔

خوشیوں کے اس مسرت موقع پر میں آپ کو غموں کی اس وادی میں لے جانا چاہتاہوں جسے برصغیر پاک وہند میں پاکستان سے قبل ”ہندوستان“ کے نام سے موصوم کیا جاتا تھا اگر ہم ماضی میں چلے جائیں تو اپنے وہ شہیدوں کی یاد تازہ کرتی ہے۔ یہی بادیں ہمیں ایک نیا حوصلہ دیتی ہیں۔ ہمارے اندر نئے جوش و ولولے پیدا کرتی ہیں اور ہمیں نئے جہاں کی پاداش کی جہد مسلسل کا درس دیتی ہے۔

آج سے کچھ عرصہ قبل اس پاک وطن ریاست پر انگریز سامراج قابض تھا۔ انگریز سامراج نے اپنی حکومت بنا رکھی تھی کو اور مسلم اور ہندوو ¿ں کو غلام تصور کیا جاتا تھا جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا قانون لاگو تھا۔ ہنود تو خیر ہنود لیکن مسلمان تو انگریزکا غلام نہیں ہوسکتا تھا۔ انگریز مسلمانوں کو اپنا سب سے بڑا دشمن سمجھتا تھا۔ انہیں ذلیل ورسوا کرنے کا کوئی موقع بھی اپنے ہاتھ سے جانے نہیں دیتا تھا اور اس کے ساتھ ساتھ ہندو خوشامدی بھی انگریز کے دل میں مسلم دشمنی کے جذبات کو طیش لگارہی تھی جس کا نتیجہ یہ تھا کہ ہر طرف نہتے مسلمانوں کو ورغلا کر تلواروں اور نیزوں کے نیچے پرویا جاتا تھا اور اسی طرح مسلمان ان دوپاٹ کے پستے رہے۔

ہمارے اباو ¿اجداد نے یہ سوچ کر قربانیاں دیں ان دو مختلف قوموں کے سامنے اعلان بغاوت بلند کرکے ان سے آزادی حاصل کی کہ وطن گہوارہ ہے۔ وطن دھرتی ماتا ہے۔ وطن گود ہے مادر وطن کی۔ وطن ایک گھر ہے اور گھر سے محبت ہر انسان کا ایک فطری امر ہے۔ اس ارض وطن کو حاصل کرنے کے لیے لاکھوں قربانیاں دی جاچکی ہیں۔ والدین نے اپنی اولادوں کے جلتے لاشے دیکھے اولاد کی آنکھوں کے سامنے ان کے والدین کو ذبح کیا گیا کئی سہاگ اجڑے اور ان گنت بچے یتیم اور لاوارث ہوگئے۔ ان عظیم قربانیوں کے بعد ہی ہماری فطرت سے تمام عالم واقف ہوگئی کہ ہم ایک زندہ و جاوید قوم ہے۔ کس قدر دلیر اورجفاکش و باہمت لوگ ہیں اور یہی زندہ اقوام کی سب سے بڑی نشانی ہوتی ہے کہ وہ اپنے شہداءکی قربانیوں کو سامنے رکھ کر رونے اور ہمت ہارنے اور اپنے خیالات و جذبات کو پست کرنے کے بجائے اپنی قومی دن کو جوش و جذبے ولولے اور شباب آن بان شان وشوکت اور تزک و احتشام کے ساتھ مناتی ہے۔

ہماری شان و شوکت سبز ہلالی پرچم ہے۔ جو آج اس عظیم دن سڑکوں،مکانوں،عمارتوں،گاڑیوں الغرض یہ ہر جگہ لہراتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں۔آج ہم آزادی کا جشن منارہے ہیں اور یہ ہمارا حق ہے یہ حق ہم سے کوئی چھین نہیں سکتا۔۔۔اس قوم کے فرد واحد کا فرض ہے کہ وطن عزیز کو درپیش مسائل کے حل اور اس کی حفاظت کے لیے تن من دھن کی بازی دینے سے اب دریغ نہ کرے اگر کوئی اس کی طرف میلی آنکھ سے دیکھے تو ان کو اینٹ کا جواب پتھر سے دیں کیونکہ یہ وطن یہ ملک ہم سب کا ہے اور ہم ہی اس کے پاسبان و محافظ ہیں۔

تحریر : امداداللہ خان نعمانی، کراچی