بھارت حقوق انسانی کمشن کی ایک رپورٹ کے مطابق کنٹرول لائن پر بغیر نشان کی 3 ہزار 844 قبریں موجود ہیں۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ بھارتی فوج نے قتل و غارت کو چھپانے کیلئے بندوق اٹھا رکھی ہے۔ مقبوضہ وادی سے اب تک 8 ہزار افراد لاپتہ ہو چکے ہیں۔ ملنے والی نعشیں زیادہ تر عام شہریوں کی ہیں۔ الجزیرہ کی ایک رپورٹ کے مطابق کشمیر میں انسانی حقوق کی تنظیم ایسوسی ایشن آف پیرنٹس ڈی اپیرڈپرسنس (اے پی ڈی پی) کا کہنا ہے کہ لائن آف کنٹرول پر بغیر نشان کی 3 ہزار 844 قبریں موجود ہیں۔ اے پی ڈی پی کے رہنما خرم پرویز نے بتایا کہ ہم ان قبروں پر ایک خودمختار کمشن کا قیام چاہتے ہیں ہم نے 53 کیسز پر تحقیقات کیں جن کی لاشوں کو نامعلوم قبروں سے نکالا گیا تھا۔ جس میں ہمیں معلوم ہوا کہ 49 لاشیں شہریوں کی ہیں جبکہ ایک لاش مسلح تنظیم کے رکن کی تھیں باقی تین لاشیں نامعلوم ہیں۔بھارتی انسانی حقوق کمشن کیجانب سے 2080 اجتماعی بے نام و نشان قبروں کی دریافت عالمی ضمیر کو جھنجھوڑنے کے لئے کافی ہے۔
جبکہ بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں وحشت و درندگی کو چھپانے کیلئے حقوق انسانی تنظیموں کی وادی میں داخلے پر پابندی عائد کر رکھی ہے اور اس پابندی کے خاتمے کیلئے پاکستان کی جانب سے ایک بھرپور سفارتی مہم کی ضرورت ہے۔ کیونکہ یہ تنظیمیں مقبوضہ وادی میں صورتحال کا جائزہ لیکر مجوزہ عالمی کمشن کی معاونت کریں تو قابل اعتبار رپورٹ سامنے آ سکتی ہے۔
اس وقت ہندوستانی درندہ صفت سات لاکھ فوج کشمیریوںکی آواز دبانے کیلئے ہر حربہ استعمال کر رہی ہے۔ یہاں چادر اور چار دیواری کا تحفظ عنقا ہے۔ آزادی کیلئے سرگرم نوجوانوں کو اغوا کے بعد بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنا کر زندگی بھر کیلئے معذور کر دیا جاتا ہے۔ جس کی بدترین مثال علاقے میں اسرائیلی ساختہ مہلک ہتھیار پیلٹ گن کا استعمال ہے۔ اس ”پیلٹ گن” کے ذریعے سینکڑوں کشمیریوں کو اندھا بنایا جا چکا ہے جو تشدد کے دوران ہلاک ہو جاتے ہیں ان بے گناہ نوجوانوں کو ان بے نام اجتماعی قبروں میں دفن کر دیا جاتا ہے۔ نہ جانے کتنے موت کے کنویں بھارتی فوج نے کھود رکھے ہیں جہاں اپنی آزادی کی جنگ لڑنے والے کشمیریوں کو ابدی نیند سلا دیا جاتا ہے۔
مقامی حقوق انسانی تنظیم فورم وائس آف وکٹمز کے مطابق شمالی اور وسطی کشمیر میں 55 مقامات پر بے نام قبروں کے نشانات ملے ہیں اور ان میں 4000 ہزار سے زیادہ عدم شناخت شدہ نعشیں مدفون ہیں۔ جموں و کشمیر وائس آف وکٹمز نے کہا کہ آرمڈ فورسز سپیشل پاور ایکٹ (افسپا) جیسے کالے قانون کی موجودگی میں زیرحراستی اموات اور گمشدگیوں کی شفاف تحقیقات نامکمل ہیں۔
انٹرنیشنل پیپلز ٹربیونل آف ہیومن رائٹس اینڈ جسٹس نامی مقامی ادارے کی ایک رپورٹ میں بھی بتایا گیا ہے کہ کشمیر سے آٹھ ہزار گمشدہ افراد کے لواحقین کو خدشہ ہے کہ ان کے اقرباء کو جعلی پولیس مقابلوں میں قتل کیا گیا۔ مذکورہ تنظیم کی رپورٹ کے ابتدائیہ میں لکھا ہے کشمیر میں بھارتی فوج اور نیم فوجی عملہ فرضی جھڑپوں، حراستی تشدد اور خفیہ قتل کی کارروائیوں میں ملوث ہیں جس کے نتیجے میں آٹھ ہزار سے زائد لوگ لاپتہ ہیں اور ایک لاکھ ہلاکتیں ہوئی ہیں، واضح رہے گزشتہ بیس سال کے دوران وکلاء اور انسانی حقوق کارکنوں نے گمشدہ افراد کی بازیابی کیلئے مختلف عدالتوں میں ڈیڑھ ہزار رٹ درخواستیں دائر کر رکھی ہیں۔
بھارتی فورسز کے ہاتھوں تشدد کا شکار ہونیوالے کشمیری مسلسل خوف اور صدمے کی زندگی گزار رہے ہیں۔ لاپتہ کشمیریوں کے عزیز رشتہ دار آج تک نہ ختم ہونے والے دکھ و تکلیف میں مبتلا ہیں۔ پرویز احمد کو بھارتی فوج نے آٹھ سال قبل حراست میں لیا تھا اور کشمیر کے ایک ہسپتال میں ان کا علاج آج تک جاری ہے۔ آج بھی وہ جب بھارتی درندہ صفت فورسز کے تفتیشی طریقہ کار کے بارے میں بتاتے ہیں تو ان کے چہرے پر دکھ اور قرب کے آثار نمایاں ہوتے ہیں۔ پرویز احمد ابھی تک راتوں کو ڈر کر اٹھ جاتے ہیں۔ ان کا نفسیاتی علاج جاری ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ”مجھے ہر وقت فکر لگی رہتی ہے کہ وہ دوبارہ آئیں گے اور مجھے اٹھا کر لے جائیں گے” مقامی کشمیری خاتون رحما بیگم کا بیٹا چودہ سال قبل لاپتہ ہو گیا تھا گمشدگی کے بعد وہ مسلسل تین برس تک فجر کے بعد اٹھتے ہی قریبی جنگل میں اسے ڈھونڈنے نکل جایا کرتی تھی کہ شاید انہیں اپنے بیٹے کا کوئی سراغ مل جائے لیکن آخر کار انہیں قبول کرنا پڑا کہ وہ اپنے بیٹے کو کبھی دیکھ نہیں پائے گی۔ رحماء بیگم کا کہنا ہے کہ ”ہر کوئی مجھے کہتا تھا کہ اس طرح تم پاگل ہو جائو گی، شاید یہ پاگل پن ہی تھا” ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں گرفتار کئے جانے والے آٹھ ہزار کشمیری مستقل طور پر لاپتہ ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ بھارتی فوج لاپتہ افراد کی لاشیں دریائوں میں پھینک دیتی ہے یا پھر بے نام قبروں میں دفن کر دیتی ہے۔
مقبوضہ کشمیر میں اجتماعی قبروں کا انکشاف سب سے پہلے اس وقت ہوا جب 70 سالہ گورکن عطا محمد نے جولائی 2009ء میں نیو دہلی سے آنیوالی چند این جی اوزکے نمائندوں کے سامنے اقرار کیا کہ اس نے سینکڑوں کشمیریوں کی لاشوں کو ٹھکانے لگانے کیلئے بھارتی فوج کی مدد کی تھی۔ نئی دہلی سے آئے وفد میں انسانی حقوق کی تنظیم IPTHR کے نمائندوں کے علاوہ صحافی بھی شامل تھے۔ عطا محمد نے کہا کہ اور بھی بہت سے گورکن ہیں جو کشمیریوں کی لاشوں کو دفنانے کیلئے بھارتی فوج کی مدد کرتے رہتے ہیں اوریہ سلسلہ اب بھی جاری ہیں، عطا محمد خاموشی سے اس وفد کو مقبوضہ کشمیر میں اس ویران مقام پر لے گیا جہاں وہ کشمیریوں کی لاشیں اجتماعی قبروں میں دفناتا رہا تھا۔
انسانی حقوق کی تنظیم انٹرنیشنل ٹربیونل برائے انسانی حقوق نے فوری طور پر گورکن عطا محمد کی نشاندہی کی ہوئی جگہ پر کھدائی کا اہتمام کیا اور بہت سے انسانی ڈھانچے باہرنکالنے میں کامیاب ہو گئے جس کے بعد ساری اطلاع نیو دہلی میں اپنے مرکز میں دی گئی ،جہاں سے مزید نفری بلوانے کے بعد کھدائی کا یہ کام تین ماہ تک جاری رکھا گیا۔ 7 اکتوبر 2009ء کو IPTHR کی بھارت میں کنوینئر انگتا چیٹرجی نے نیودہلی میں پریس کانفرنس کے دوران انکشاف کیا کہ ان کی تنظیم بے شمار اجتماعی قبروں سے 2600گلی سڑی لاشیں اور ڈھانچے نکال چکی ہے۔یہ انکشاف دہلا دینے والا تھا۔ بھارت سرکار جو اس ساری صورتحال سے آگاہ تھی وہ میڈیا کو بھارت کی سلامتی کے نام پر پہلے ہی راضی کر چکی تھی کہ اول تو چند کو دبا دیا جائے گا اور اگر کہیں خبر باہر آ گئی تو اجتماعی قبروں کا الزام کشمیری مجاہدین پر لگا دیا جائے گا کہ وہ مخالفین کو مارکر اجتماعی قبروں میں دفن کرتے رہے۔ بھارتی میڈیا نے جب وعدہ کرکے خبر جاری کرنے سے گریز کیا IPTHR والوں نے ساری تفصیل انٹرنیٹ پر جاری کر دی جہاں سے یہ خبر پوری دنیا میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی۔
عالمی حقوق انسانی کی تنظیموں کے دبائو پر بھارت تحقیقاتی کمشن بنانے پر راضی ہو گیا تاکہ خبر کو مزید پھیلنے سے روکا جا سکے۔ IPTHR کے نمائندوں نے تحقیقاتی کمشن کے ساتھ مل کر گمنام قبروں کی تلاش کرکے کام کو آگے بڑھایا جو اتنا آسان نہیں تھا۔ اول تو بعض علاقوں میں انہیں جانے کی اجازت ہی نہیں تھی، کچھ علاقوں میں بھارتی فوج کے خوف سے مقامی آبادی ان کیساتھ تعاون کرنے سے انکار کر دیتی تھی تو کبھی موسم آڑے آ جاتا۔ ابھی تلاش کا کام جاری تھا کہ اگست 2011ء میں بھارت سرکار نے گمنام قبروں کے حوالے سے ایک رپورٹ جاری کر دی کہ گزشتہ چند برسوں میں بھارتی سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں کل 2730 نعشوں کو گمنام قبروں میں دفن کیا گیا جو تمام دہشت گرد تھے۔ یہ سب مختلف مواقع پر سکیورٹی اداروں کیساتھ مقابلے میں مارے گئے تاہم ان سے صرف 674 کی بطور شہری شناخت ہوئی باقی تمام دہشتگرد پاکستان سے آئے تھے۔ بھارت سرکار کی خودساختہ رپورٹ میں کشمیری مجاہدین کو دہشت گرد ثابت کرتے ہوئے کہا گیا کہ ان کشمیریوں کی لاشوں کو کوئی بھی وصول کرنے نہیں آیا۔ جب وصولی کیلئے کوئی سامنے آنے کو تیار نہیں ہواتو انہیں اسلامی طریقے کے مطابق آخری رسومات ادا کرکے مسلمان گورکنوںکے ذریعے اجتماعی قبروں میں دفن کردیا گیا۔
انٹرنیشنل پیپلز ٹربیونل برائے انسانی حقوق کی تنظیم نے بھارتی رپورٹ کو دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش کومسترد کر دیا اور ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کو بتایا کہ مقبوضہ کشمیر میں بے گناہ کشمیریوں کو اغوا یا بلاوجہ گرفتار کرنے کے بعد مختلف پرتشدد طریقوں سے قتل کرنے کے بعد گمنام قبروں میں دفن کرنے کا سلسلہ 1997ء سے جاری ہے اور یہ تعداد پچاس ہزار سے کہیں زیادہ ہو سکتی ہے۔ حقوق انسانی کنوینئر کے مطابق اب تک ملنے والی نعشوں میں اکثریت کو قریب سے سر میں گولی مار کر قتل کیا گیا تھا۔
کشمیر کے نواحی علاقے فتح گڑھ جو ایک پہاڑی پر واقع ہے۔ یہاں بھی چند بے نام قبروں کے نشانات ملتے ہیں۔ جونہی گائوں کے افراد ان کی نشاندہی کرتے ہیں یا باہر سے کوئی فرد انکے بارے میں ان سے پوچھتا ہے تو مقامی پولیس سے تعلق رکھنے والے خفیہ شعبہ کے اہلکار وہاں فوراً پہنچ جاتے ہیں اور انہیں ایسا کرنے سے روک دیتے ہیں یا انہیں ڈراتے دھمکاتے ہیں۔ یہاں پر مقیم مقامی بزرگ کا کہنا ہے کہ وہ گزشتہ کئی سالوں سے ان بے نام افراد کی لاشوں کو دفنا رہا ہے۔ مگر اب اس نے یہ کام ترک کر دیا ہے۔ کیونکہ مجھے مسلسل دھمکایا جاتا رہا اور اب ان لاشوں کو فوج کے قریبی کیمپوں میں دفنایا جاتا ہے جہاں کسی کو بھی جانے کی اجازت نہیں دی جاتی۔ لاپتہ افراد کے لواحقین کی تنظیم اے پی ڈی کے مطابق مقبوضہ کشمیر میں ایسی تقریباً دو ہزار خواتین ہیں جن کے شوہر بھارتی فوج کی حراست میں جانے کے بعد لاپتہ ہوگئے ہیں۔
واضح رہے کہ جولائی 2008ء کو یورپی پارلیمنٹ نے قرار داد منظور کر کے بھارت پر مقبوضہ کشمیر میں تمام اجتماعی قبروں کی آزاد تحقیقات کرانے پر زور دیا تھا۔ بھارتی حقوق انسانی کمیشن بے نام قبروں کی موجودگی کو تسلیم کرتے ہوئے متعدد بار تحقیقات کا مطالبہ کر چکاہے۔ کمیشن نے کہا کہ حکومت قبرکشائی کر کے ان میں موجود لاشوں کے ڈی این اے ٹیسٹ کروائے اور پھر لاپتہ افراد کے اہل خانہ سے ان کا موازنہ کرے۔تاہم بھارتی جارحیت کا ایک خوفناک پہلو یہ ہے بھارتی فورسز اپنی کارروائیوں کے دوران کشمیریوں کو شہید کرنے کے بعد بسااوقات ان کی نعشیں ورثاء کے سپرد کرنا بھی گوارا نہیں کرتے اور انہیں تجہیز و تکفین کے بغیر دفنا دیا جاتا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں بڑے پیمانے پر افراد لاپتہ ہو جاتے ہیں اور کئی دہائیوں تک ان کا پتہ نہیں چلتا۔ مقبوضہ کشمیردنیا میں واحد ریاست ہے جہاں کے چپے چپے کو فوج نے اپنا ٹھکانہ بنا رکھا ہے۔ہر 17 افراد پر ایک بھارتی پیرا ملٹری یا ملٹری اہلکار موجود ہے جبکہ کنٹرول لائن 1972ء میں بنائی گئی تھی۔ بھارت نے کنٹرول لائن پر اسرائیل ٹیکنالوجی کی مدد سے مہلک اور خطرناک باڑ لگا رکھی ہے۔ الیکٹرک جنگلے ا ور موشن ڈیٹکٹر بھی نصب ہیں، جبکہ آٹھ ہزار افراد میں وہ کشمیری شامل ہیں جو بھارتی فوج کی حراست میں مارے جا چکے ہیں اور بغیر کسی اطلاع کے ا نہیں مار کر دفنا بھی دیا گیا ہے۔