اسلام آباد (جیوڈیسک) سپریم کورٹ نے قومی اسمبلی کے حلقے این اے 131 لاہور میں دوبارہ گنتی سے متعلق لاہور ہائیکورٹ کا حکم معطل کرتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان کی درخواست سماعت کے لیے منظور کرلی۔
یاد رہے کہ 25 جولائی کو ہونے والے عام انتخابات میں این اے 131 میں عمران خان نے مسلم لیگ (ن) کے رہنما خواجہ سعد رفیق کو 680 ووٹوں سے شکست دی تھی۔
عمران خان نے مجموعی طور پر 84313 ووٹ حاصل کیے تھے جب کہ ان کے مد مقابل امیدوار خواجہ سعد رفیق نے 83633 ووٹ حاصل کیے تھے۔
خواجہ سعد رفیق نے عمران خان کی کامیابی کو چیلنج کرتے ہوئے ریٹرننگ آفیسر (آر او) سے مسترد شدہ ووٹوں کی دوبارہ گنتی کی درخواست کی تھی جس میں عمران خان کی کامیابی برقرار رہی تھی تاہم ان کی کامیابی کا مارجن کم ہو کر 608 رہ گیا تھا۔
بعد ازاں سعد رفیق نے آر او سے پورا حلقہ کھولنے کی درخواست کی جسے مسترد کر دیا گیا، تاہم رہنما مسلم لیگ (ن) نے آر او کے فیصلے کو لاہور ہائی کورٹ کے الیکشن ٹریبونل میں چیلنج کر دیا تھا۔
لاہور ہائیکورٹ کے الیکشن ٹریبونل نے 4 اگست کو خواجہ سعد رفیق کی درخواست پر سماعت کی اور الیکشن کمیشن کو این اے 131 میں عمران خان کی کامیابی کا نوٹیفکیشن روکنے کے احکامات جاری کرتے ہوئے حلقے میں ووٹوں کی دوبارہ گنتی کا حکم دیا تھا۔
یہی وجہ ہے کہ گزشتہ روز الیکشن کمیشن نے سعد رفیق کی درخواست کی وجہ سے اس حلقے سے عمران خان کی کامیابی کا نوٹیفکیشن روک دیا، جس پر پی ٹی آئی چیئرمین نے اپنے وکیل بابر اعوان کے توسط سے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا۔
چیف جسٹس ثاقب نثار اور جسٹس اعجاز الاحسن پر مشتمل سپریم کورٹ کے بینچ نے آج اس درخواست پر مختصر سماعت کی اور پی ٹی آئی چیئرمین کی درخواست منظور کرتے ہوئے این اے 131 میں دوبارہ گنتی سے متعلق لاہور ہائیکورٹ کا فیصلہ معطل کردیا۔
سماعت کے دوران جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس دیئے کہ ‘این اے 131کا نتیجہ آگیا ہے، سیاسی تقاریر کا جائزہ سیاسی فورم پر لیں’۔
اس موقع پر جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ ‘حلقے کی نمائندگی کو کیسے روک سکتے ہیں؟رزلٹ مرتب ہوچکا ہے’۔
جس پر سعد رفیق کے وکیل نے جواب دیا کہ ‘آر او کے پاس دوبارہ گنتی کا اختیار ہے’۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ ‘یہ الیکشن کمیشن کا معاملہ ہے، ہائیکورٹ کیسے مداخلت کرسکتی ہے’۔
جس پر خواجہ سعد کے رفیق نے کہا کہ ‘عمران خان اگر 131کی نشست برقرار رکھیں گے تو پھر الیکشن ٹریبونل سے رجوع کیا جائے گا’۔