اسلام آباد (جیوڈیسک) پاکستان میں قومی احتساب بیورو (نیب) نے سپریم کورٹ میں کہا ہے کہ سابق صدر آصف زرداری کے خلاف سوئس کیسز دوبارہ نہیں کھل سکتے۔
نیب کا کہنا ہے کہ این آر او سے نقصان کے تعین کے بعد عدالت جو حکم دے گی اس پر عمل کریں گے۔
نیب نے این آر او کیس سے متعلق اپنا جواب سپریم کورٹ میں جواب جمع کرا دیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ آصف علی زرداری کے خلاف سوئس مقدمات کو دوبارہ نہیں کھولا جا سکتا۔
سپریم کورٹ میں جمع کرائے گئے جواب میں کہا گیا ہے کہ حکومت پاکستان نے سوئس مقدمات میں قانونی میعاد کے دوران اپیل دائر نہیں کی۔ حکومت پاکستان کی سوئس کیسز میں اپیل زائد المیعاد تھی۔
نیب کی جانب سے سپریم کورٹ میں جمع کرائے گئے جواب میں کہا گیا ہے کہ آصف علی زرداری کے خلاف کچھ کیسز نیب عدالت میں ابھی زیر التوا ہیں۔
نیب کے جواب میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ انکوائری میں سابق اٹارنی جنرل ملک قیوم کے خلاف اختیارات کا ناجائز استعمال ثابت نہیں ہوا اور ملک قیوم کے خلاف انکوائری ستمبر 2012 میں بند کر دی تھی۔
سپریم کورٹ میں جمع کرائے گئے نیب کے جواب میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ این آر او قانون کے اجرا سے نقصان کی تفصيل دستیاب نہیں۔ این آر او سے نقصان کے تعین کے بعد عدالت جو حکم دے گی اس پر عمل کریں گے۔
این آر او کو اس کے اجرا کے تقریباً دو سال بعد 16 دسمبر 2009 کو سپریم کورٹ کے 17 رکنی بینچ نے کالعدم قرار دیا تھا۔
جولائی 2012 میں عدالت عظمیٰ کے فیصلے کے بعد آصف علی زرداری سمیت این آر او سے مستفید ہونے والے 8 ہزار 500 افراد کے خلاف بد عنوانی کے مقدمات دوبارہ کھول دیے گئے تھے۔
ان مقدمات کے کھلنے سے پاکستان پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم براہ راست متاثر ہوئی تھیں کیونکہ پیپلز پارٹی کےخلاف نیب کرپشن کے پرانے کیسز اور ایم کیو ایم راہنماؤں کے خلاف تشدد اور قتل وغارت کے قائم مقدمات دوبارہ کھل گئے تھے۔
گزشتہ سماعت پر سپریم کورٹ نے سابق صدر پرویز مشرف اور سابق صدر آصف علی زرداری کے ملک اور بیرون ملک اثاثوں کی تفصیلات طلب کی تھیں اور چیف جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس دئیے تھے کہ جو بڑے یہ سمجھتے ہیں وہ پکڑے نہیں جائیں گے، انہیں ڈھونڈ نکالیں گے، تقریباً ایک ہزار لوگ ہیں ان سے تفصیلات لیں گے۔