امریکی پابندیوں کا ممکنہ جواب، ایرانی سائبر حملے

Cyber Attack

Cyber Attack

امریکا (جیوڈیسک) بعض ماہرین کا خیال ہے کہ امریکی پابندیوں کے جواب میں ایران سائبر اٹیک کر سکتا ہے۔ امریکا میں ایسے ممکنہ حملوں کے خدشات رواں برس مئی سے بڑھنا شروع ہوئے ہیں۔

سائبر سکیورٹی اور خفیہ اداروں کے ماہرین نے اندازہ لگایا ہے کہ ایران پر عائد کی جانے والی امریکی پابندیوں کا ایران صرف ایک صورت میں جواب دے سکتا ہے اور وہ سائبر حملے ہیں۔ یہ بھی اہم ہے کہ آیا ایرانی کمپیوٹر ماہرین اور ہیکرز اس قدر مہارت حاصل کر چکے ہیں کہ اُن کی مہارت اور چابکدستی امریکی اداروں کی سکیورٹی کے لیے خطرہ بن سکتی ہے۔

بعض ماہرین کا خیال ہے کہ رواں برس مئی میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایرانی جوہری ڈیل سے علیحدگی اختیار کرنے کا اعلان کیا تھا اور تب سے امریکی اداروں میں ایرانی سائبر حملوں کے خدشات بڑھنا شروع ہوئے ہیں اور اس مناسبت سے ڈیٹا کے تحفظ کے لیے حفاظتی اقدامات کا سلسلہ شروع ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ اگلے دنوں میں ایرانی سائبر اٹیک میں شدت پیدا ہو سکتی ہے۔

ایک امریکی ادارے ریکارڈڈ فیوچر (Recorded Future) میں اسٹریٹیجک خطرات کے خلاف اقدامات کرنے والے خاتون ماہر پریسیلا موریچی کا کہنا ہے کہ بظاہر ایسے کسی خطرے کا امکان تو ابھی تک تو موجود نہیں ہے لیکن انٹرنیٹ پر ایرانی سرگرمیوں میں اضافہ ضرور نوٹ کیا گیا ہے۔ موریچی کے خیال میں یہ اضافہ حالیہ ہفتوں میں بڑھا ہے۔

ریکارڈڈ فیوچر سائبر تھریٹ کے معاملات سے وابستہ ہے۔ یہ کمپیوٹر تنظیم ریکارڈڈ فیوچر امریکی ریاست میساچوسٹس میں قائم ہے اور اسی نے رواں برس مئی میں ایرانی سائبر حملوں کے خطرے سے آگاہی دی تھی۔ اس ادارے نے کہا تھا کہ ایرانی جوہری ڈیل سے علیحدگی کے بعد ایرانی حکومت اگلے دو سے چار مہینے میں امریکی اداروں پر سائبرحملوں کا سلسلہ شروع کر سکتی ہے۔

امریکا کے خفیہ اداروں کا بھی اتفاق ہے کہ ایران امریکی اداروں پر سائبر حملے شروع کرنے والا ایک بڑا ملک بن سکتا ہے۔ امریکی اداروں کو چین، شمالی کوریا اور روس کی جانب سے بھی سائبر حملوں کے خطرات لاحق ہیں۔ ان ممالک کے حملوں کی تفصیلات ابھی تک سامنے نہیں لائی گئی ہیں۔

امریکا نے سن 2012 اور سن 2014 میں بھی چند سائبر حملوں کا ذمہ دار ایران کو ٹھہرایا تھا۔ ان حملوں میں امریکی بینکوں کو نشانہ بنایا گیا تھا۔ ان سائبر حملوں کا نشانہ بننے والے بینکوں کو لاکھوں ڈالر کا نقصان برداشت کرنا پڑا تھا۔