اسلم ایک بزنس مین تھا وہ اپنے گھرانے کے ساتھ مطمئن زندگی گزار ہاتھااس کا ایک ہی بیٹا تھا جس کی بینائی کھیلتے ہوئے حادثے میں جاتی رہی یہ حادثہ پورے گھرانے کے لیے قیامت سے کم منظر نہیں تھا ڈاکٹر نے جب یہ بتایا کہ اب آپ کا بیٹا کبھی دیکھ نہیں سکے گااسلم اور اس کا گھرانہ کسی بھی قیمت پر یہ صدمہ برداشت نہیں کر پا رہے تھے اسلم نے ہمت نہ ہاری اور اپنی جدوجہد جاری رکھی اس نے مختلف ہسپتالوں اور ڈاکٹروں سے رابطے کیے یہاں تک کہ بیرون ملک بھی علاج ممکن نہیں تھا اب صرف ایک ہی حل باقی تھا اور وہ یہ کہ کوئی انسان اسلم کے بیٹے کو آنکھیں عطیہ کرے مگر مشکل یہ تھی کہ جیتے جی کسی بھی انسان کے لیے اپنے اعضاء کو عطیہ کرنا آسان نہیں۔اسلم نے فیصلہ کرلیا کہ وہ اپنے بیٹے کو آنکھیں عطیہ کرے گا اور پھر کامیاب آپریشن کے بعد اسلم کا بیٹا پہلے کی طرح دیکھ سکے گا مگر دوسری جانب اسلم کبھی نہیں دیکھ پائے گا لیکن اس کے باوجود اسلم مطمئن تھا اور سوچتا تھا کہ اپنے بیٹے کے توسط سے دیکھے گا۔
آخر کار اسلم کا کُل جہاں اس کا بیٹا ہی تو تھااور اپنے بیٹے سے بھی یہی قوی امُید رکھتا تھا وقت گزرتا گیا اسلم کمزور اور بوڑھا ہو رہا تھا جبکہ اس کا بیٹا جوان ہوگیا تھا اور اس کا رویہ انتہائی گستاخانہ تھا وہ بات بات پر بدتمیزی کرتا،ہر بات کی نافرمانی کرتا جو کہ اسلم کے لیے انتہائی تکلیف دہ ہوتا وہ دل ہی دل میں مایوس ہو چکا تھا اور زندگی کے ایام پورے کر رہا تھامگر اس کے دل میں نہ تو کوئی خوشی تھی اور نہ ہی سکون میسر تھااور کئی بار اپنے فیصلے پر غم کرتا کہ کاش میرا بیٹا میری قربانی کو سمجھ پاتا تو آج میری قدر کرتا؟ اب آتے ہیںقائدکے ویژن کی جانب قائداعظم محمد علی جناح جب پوری طاقت سے برصغیر پاک و ہند میں آزادی کی جنگ لڑ رہے تھے تو ان کی قیادت اور نیت پر کسی کو رتی برابر بھی شک نہیں تھا کیونکہ تمام قوم جانتی تھی کہ یہی وہ شحض ہے جو ہندوئوں اور انگریزوں کوبیک وقت مات دے سکتا ہے اور اسی طرح قائداعظم محمد علی جناح کو بھی اپنے لوگوں پر پورا یقین تھا کہ ہر موڑ پر میرا ساتھ دیں گے انہوں نے اپنے دو قومی نظریے کو پیش کرکے واضح کر دیاکہ ہندو ستان کی تقسیم کس حد تک لازم ہے اور آزادی کی تحریک کو اس قدر جنونی طریقے سے چلایاکہ انگریزوں کو مجبور کردیاکہ وہ پاکستان کے وجود کو تسلیم کریں اور انگریزوں نے جب ہندوستان کی تقسیم کے لیے ووٹنگ کی تو ووٹوں کی تعداد برابر ہو گئی تب مسیحی گھرانے کے ایک سپوت ایس پی سنگھا صاحب نے ہندوئوں کو للکار کر نعرہ لگایا”سینے پہ گولی کھائیں گے پاکستان بنائیں گے” او ریہ نعرہ سب سے پہلے سنگھا صاحب نے ہی لگایا تھا اور پھر اپنا فیصلہ کن ووٹ قائداعظم محمد علی جناح کے حق میں دے کر پاکستان کو دنیا کہ نقشے پرنمودار کر دیا۔
حالانکہ ہندوئوں کی جانب سے ایس پی سنگھا صاحب کو پاکستان کے حق میں ووٹ دینے سے پہلے بھی سنگین نتائج کی دھمکیاں مل رہی تھی مگر سنگھا صاحب نے اپنی جان کی پروا کیے بغیر پاکستان کے لیے ووٹ دیا11اگست1947کو قائداعظم محمد علی جناح نے اپنے خطاب میں واضح کردیاکہ ریاست پاکستان میں تمام شہریوں کو بلا امتیاز برابر کے حقوق حاصل ہوں گے اورتما م قوموں کو ہر طرح کی مذہبی آزادی حاصل ہوگی اور اس کا ثبوت محمد علی جناح نے اس طرح سے دیاکہ انہوں نے افواج پاکستان میں سر فرینک میسروی جوکہ ایک مسیحی تھا آرمی چیف مقرر کیا،اسی طرح جسٹس کارئیلنس کو چیف جسٹس آف پاکستان مقرر کیا اور پھر جوگیندرناتھ مدل جو کہ ایک ہندو تھا وزارت قانون کا قلم دان سونپایہ تھا قائداعظم کا ویژن جنہوں نے نہ صرف وعدے کیے بلکہ عملی طور پر پورے بھی کیے میری ذاتی رائے ہے کہ کاش بانی پاکستان اگر پانچ سال مزید حیات رہتے تو پاکستان دنیا بھر کے ٹاپ ٹین ممالک میں شامل ہوتاقائداعظم محمد علی جناح کے اس جہاں سے کوچ کرنے کے بعد کوئی مخلص لیڈر نہیں آیاجس نے پاکستانیوں کے بار ے میں سوچا ہو جب پاکستان معرض وجود میں آیا تو اس وقت اسمبلیوں میں اقلیتوں کی نمائندگی 25%فیصدتھی حالانکہ اس وقت اقلیتوں کی آبادی بھی کم تھی مگراب آبادی ذیادہ ہے اور نمائندگی 20% سے بھی کم ہو گئی ہے۔
اسی طرح پورے ملک میں تمام مذاہب کی عبادت گاہیں بھی محفوظ نہیں اس قدر فرقے واریاں بڑھ گئی ہیں ،ملازمتوں میں اقلیتوں کے لیے جو کوٹہ مقر ر ہے اس سے بھی کم نمائندگی دی جاتی ہے اس کے بر عکس اس سال سندھ میں خاکروب کی آسامی کے لیے اشتہار میں باقاعدہ یہ لکھا گیا کہ جو ملازمت حاصل کرے گا اس سے غیر مسلم ہونے کا حلف لیا جا ئے گا کیا یہی ایک پیشہ رہ گیا ہے غیر مسلموں کے لیے ؟سال 2017میں سندھ میں ایک خاکروب کو دوران ڈیوٹی ہارٹ اٹیک ہو گیا جب اس کو ہسپتال لے جایا گیا تو ڈاکٹر نے علاج کرنے سے انکار کر دیا، غیر مسلم اقوام کے مختلف علاقوں میں موجود قبرستانوں پر قبصے اور قبروں کی بے حرمتی کی جارہی ہے،سندھ میں زبردستی مذہب تبدیل کرنے کے لیے اکسایا جا رہا ہے اور تو اور پنجاب اسمبلی میں مئی2018 کے آخری سیشن میں عارف عباسی (MPA)نے اقلیتی (MPA) کو انتہائی گھٹیاالفاظ بولے اور گالی گلوچ کیا، قومی اسمبلی میں کرسچن میرج ایکٹ کو تبدیل کرنے کی کوشش کی گئی جس پر مسیحوں کے جذبات مجروح ہوئے اور یقینا قائداعظم محمدعلی جناح کی روح بالکل اسلم کی طرح اپنے بیٹے کے رویے کی وجہ سے رنجیدہ ہوئی ہو گی اور یقیناعلامہ محمد اقبال کا خواب بھی شرمندہ ہوا ہوگااور یقینا ایس پی سنگھا صاحب کا نعرہ لہولہو ہو گیا ہو گا۔
اب جبکہ پی ٹی آئی کی گورنمنٹ بننے جا رہی ہے تو میری التماس ہو گی کہ ایسی قانون سازی کی جائے جس سے لفظ اقلیت کا خاتمہ ہو جائے اس کی جگہ صرف پاکستانی شہری استعمال ہو کیونکہ ہم سب برابر کے پاکستانی ہیں غیر مسلموں نے بھی اس ملک کے حصول کے لیے برابرکی جدوجہد اور قربانیاں دی ہیں اور اسکی سلامتی کے لیے ہمہ وقت جان دینے کے لئے حاضر ہیں جیسے کہ ماضی کی جنگوں میں دے چکے ہیں اسی طرح پاکستان میں بسنے والی غیر قوموں کو حق دیا جائے کہ وہ خود اپنے نمائندوں کا چنائو کریں اور ایوانوں میں نمائندگی میں بھی اصافہ کیا جائے ،اور قائداعظم کے ویژن کو مد نظر رکھتے ہوئے اعلیٰ ریاستی عہدوں پر فائز کیا جائے،غیر مسلموں کی عبادت گاہوں ،املاک کو مکمل طور پر محفوظ بنایا جائے ملازمتوں میں کوٹے کو 100%یقینی بنایاجائے،غیر مسلموںکے تہواروں پر چھٹی اور بونس کی صورت میں سیلری دی جائے ،تبھی جا کے اقبال اور قائد کاصحیح معنوں میںپاکستان بن پائے گا اور قائداعظم محمدعلی جناح کے ویژن کو تقویت میسر ہو گی۔۔۔۔۔پاکستان زندہ آباد