قومی اسمبلی میں حلف برداری کے روز سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کی اسلام آباد میں ہی العزیزیہ اور فلیگ شپ ریفرنسز میں احتساب عدالت میں پہلی پیشی تھی ان نئے ریفرنسز میں نوازشریف کی یہ پہلی پیشی اس وقت آخری پیشی ثابت ہوئی جب انہیں خطرناک دہشت گردوں کی طرح بکتر بندگاڑی میں احتساب عدالت میں لایا گیا اور ان کے لیے احتساب عدالت کے باہر مسلم لیگی رہنماؤں کی تعداد نہ ہونے کے برابرتھی کیونکہ نواز شریف کے نام پر 60سے زائد ایم این اے اس وقت قومی اسمبلیوں کی راہ داریوں میں خوش گپیو ں میں مصروف تھے ،صرف ایک اقلیتی رہنما کھیئل داس کوہستانی اسمبلی کے باہر نوازشریف اور مریم نواز کی تصویر لیکر خود بے بسی کی تصویر بناہوادکھائی دیا ،شہباز شریف نے اس بار بھی اپنا کوئی کردار ادا نہیں کیا تھا۔
جیل میں بند نوازشریف کے پیغامات کو مسلسل نظراندازکرنے کا سلسلہ جاری رہانوازشریف کا خیال تھا کہ احتساب عدالت کے باہر اس کے ہزاروں کھڑے لیگی رہنما اور کارکنان ان کو بکتر بندگاڑی میں لانے کے خلاف بھرپور انداز میں آواز بلند کرینگے،حالانکہ قومی اسمبلی کا اجلاس ابھی لیٹ تھا شہباز شریف چاہتے تھے پوری پارلیمانی پارٹی کو لیکرصبح سویرے احتساب عدالت کے باہر پہنچ جاتے اور حلف اٹھانا نوازشریف کی واپسی تک موخر کردیا جاتاکیونکہ آئین میں بھی ایسی کوئی پابندی نہیں ہے کہ ارکان قومی اسمبلی ایک ساتھ حلف اٹھائیں جبکہ یہ نوازشریف کی مختصر پیشی تھی جو اسمبلی کے دس بجے کے اجلاس سے پہلے مکمل ہوچکی تھی مگر قدرت شاید نوازشریف کو یہ دکھانا چاہ رہی ہے کہ وہ جیل میں بیٹھ کر اپنے اور پرائے کی پہچان کرلیں کہ کون ایسے ہیں جو ان سے بغیر کسی لالچ کے محبت کرتے ہیں اور کون ایسا ہے جو ان سے اقتدار میں رہنے کے لیے چمٹا رہاہے ! ایسی ہی کچھ یادو ں کو میں آج اپنی پڑھنے والوں کے درمیان پیش کرنا چاہونگا۔اس میں شک کی گنجائش نہیں ہے کہ نوازشریف نے ممنون حسین کو بڑے بڑے لائق و فائق اور صاحب حیثیت افرادکو نظر انداز کرکے صدرپاکستان بنایا تھا اور آئینی اعتبار سے پاکستان کے سب سے بڑے عہدے پر فائز کردیا تھا۔
نتیجے کے طور پر نوازشریف کے اس فیصلے سے پارٹی میں اختلاف دیکھنے میں آیا اور غوث علی شاہ جیسے انتہائی وفادارآدمی نے پارٹی کو خیر آباد کہہ دیاصرف اس بنیادپر کہ وہ سمجھتے تھے کہ وہ ممنون حسین سے زیادہ اس عہدے کے حقدار ہیں ،حالیہ انتخابات2018کی شکست کے بعد نوازشریف نے اڈیالہ جیل سے اپنے دور کے لگائے گئے تینوں گورنرزاور صدرممنون حسین کو یہ پیغام پہنچایاکہ چونکہ انتخابات انتہائی غیر منصفانہ ہوئے ہیں لہذایہ تمام عہدیداران احتجاجاً مستعفی ہوتے ہوئے اپنا احتجاج ریکارڈ کروائیں تاکہ اس فیصلے سے ایک بھرپور آواز ملک بھر میں سنائی دے ،لیکن ہم نے دیکھا کہ نوازشریف کے اس پیغام پر صرف سندھ کے گورنرمحمد زبیر نے ہی استعفیٰ دیا جبکہ میرے باخبر زرائع کے مطابق صدر مملکت نے اپنے محسن نوازشریف کے فیصلے کو یہ کہہ کر نظرانداز کردیا کہ ابھی اس عہدے سے مستعفی ہونے کا مناسب وقت نہیں ہے۔
اب اگر ان تمام صاحبان نے وزیراعظم اور وزراء اعلیٰ کے حلف اٹھانے کے بعد استعفیٰ دیاتو اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوگااور نہ ہی اس سے ملکی سیاست پر کوئی اثر پڑیگا،نوازشریف کے پیغام کے جوابی وار کے بعد جب نوازشریف کی اچانک طبیعت خرابی کے باعث انہیں ہسپتال منتقل کیا گیا تو صدر ممنون حسین نے بھی نوازشریف سے ملاقات کی ٹھان لی لہذ تمام میڈیا نے بھی دکھایا کہ صدر صاحب کے قافلے کی روانگی کا پروٹوکول بھی لگ چکاہے مگر اس کے باوجود نوازشریف نے صدر صاحب کے آنے یا نہ آنے کا انتظار نہ کیا اورواپس اڈیالہ جیل روانہ ہوگئے یہاں بھی ہسپتال میں ایک چاہنے والے کے زریعے مجھے معلوم ہوا کہ نوازشریف نے صدرممنون حسین سے ملاقات کرنے سے قطعی طورپر انکار کردیا تھا۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اپنی اور پارٹی کی موجودہ حالت کے ذمہ دارکسی حد تک خود نوازشریف ہی ہیں ان کے من پسند اور گنتی کے چند نئے دوستوں نے انہیں اس نہج پر پہنچادیا کہ انہیں پیچھے مڑکر دیکھنے کا موقع ہی نہ مل سکا کہ ان پر کیا کچھ بیت چکا ہے۔
میں یقین سے کہہ سکتاہوں کہ جب کوئی بھی انسان کسی کڑے امتحان سے گزررہاہوتاہے تواسے ایسے موقع پر اپنے ان پرانے اور جانثار دوستوں ساتھیوں اور رشتے داروں کی یاد آتی ہے جو ان کے اچھے اور برے وقتوں میں ہمیشہ ساتھ کھڑے ہوتے ہیں۔ مگر وہ انسان اپنے برے وقت میں ان سچے دوستوں سے اس لیے محروم رہتا ہے کہ اس نے اپنے اچھے وقتوں میں ایسے لوگوں کو مکمل ہی نظراندازکیاہوتاہے اور بدلے میں ایسے فصلی بٹیروں کا ساتھ رہتا ہے جو گرگٹ کی طرح رنگ بدلنے والے اور انتہائی نقصان دہ ہوتے ہیں کوئی پوچھے کہ بھلا یہ طلال چودھری اور دانیال عزیز کون تھے ؟ کوئی پوچھے کہ نوازشریف نے قربانیاں دینے والے ساتھیوں کو نظر انداز کرکے مفتاح اسماعیل جیسے لوگوں کو کیوں بڑے بڑے منصب عطاکیے جو ملک میں موجود اندرونی و بیرونی چیلنجز کا خاتمہ کرنے کی بجائے نوازشریف کی حکومت کے خلاف الٹا مسائل کھڑاکرتے رہے ۔یہ سب باتیں اپنی جگہ مگر آج بھی وہ تمام پرانے ساتھی نوازشریف سے اتنی ہی محبت رکھتے ہیں جتنی کے وہ نوازشریف سے شروع دن سے کرتے چلے آئے تھے،جو ہمیشہ نوازشر یف کی ہر تکلیف میں ساتھ رہے جو جلاوطنی میں بھی اور جلاوطنی کے بعد نوازشریف کے ساتھ کھڑے رہے مگر نوازشریف نے اقتدار ملنے کے بعد اپنے ان تمام پرانے اورسمجھدار لوگوں کو پس پشت ڈالے رکھا ، میں یقین سے کہتا ہوں کہ نوازشریف آج جیل میں ان بے لوث ساتھیوں کو ضروریاد کرتے ہونگے۔
ایسے ہی وفادار ساتھیوں میں کراچی سے دوبار ایم این اے رہنے والے مرحوم میاں اعجاز شفیع کی بے پناہ قربانیوں کے باوجود اس کے بیٹے بلال اعجاز شفیع یا خاندان کے کسی فرد کو اپنے دور اقتدار میں کسی جگہ پر ایڈجسٹ نہیں کیاگیا2013کی کامیابی کے بعد پاکستان کے ایک بڑے روزنامے میں لگاایک بڑا اشتہار میری نظر سے گزراجو مرحوم اعجاز شفیع کی اہلیہ نے میاں نوازشریف کو اقتدار بنانے کی کامیابی پر مبارکباد کے لیے دیا تھاجس میں لکھا تھا کہ میاں صاحب آپ کو کامیابی مبارک ہومگر اس کامیابی کے موقع پرآپ میرے شوہر کی قربانیوں کو ضرور یاد رکھیے گا اور بلال اعجازشفیع جومرحوم اعجاز شفیع اور میرے فرزند ہیں انہیں بھی پاکستان کی خدمت کا موقع دینگے ، مجھے یہ اشتہار یقیناًدلخراش انداز میں چبھا تھامگر کیا کہیں نوازشریف کوکچھ یاد آنے کانام ہی نہیں لے رہاتھا اسی طرح 1994میں حیدرآباد کے ایک اورمسلم لیگی رہنما صاحبزادہ شبیر حسن انصاری کو نوازشریف کا ساتھ چھوڑنے کے لیے اس وقت کے کروڑوں روپوں کی آفرز ملی انہیں وفاقی وزارت دینے کا کہا گیا انہوں پلاٹوں سمیت بے شمار پیشکشیں ہوئی کہ وہ بس کسی نہ کسی طرح سے نوازشریف کا ساتھ چھوڑ دیں یہاں تک انہیں دو روز تک نامعلوم مقام پر منتقل کرواکر ہراساں کیا گیا مگر نوازشریف کا یہ ساتھی اپنے قدموں سے ایک قدم بھی پیچھے نہ ہٹا اس زمانے میں اسی صاحبزادہ شبیر انصاری نے اپنی اکلوتی گاڑی بیچ کرحیدرآباد میں ایک ایسے وقت میں جلسہ کروایا جب نوازشریف کانام لینا بھی لوگوں کے لیے مشکل بنادیا گیا تھا اور یہ ہی وہ عظیم الشان جلسہ تھا جو نوازشریف کی وطن واپسی کا سبب بھی بنا اس کے علاوہ الہی بخش سومرو وہ پاکستان کے عظیم سیاستدان تھے جو نوازشریف کو ہی اپنا کل سرمایہ سمجھتے تھے انہیں بھی بے پناہ عہدوں کی پیشکشوں کا لالچ دیاگیا مگر مجال ہے جو کوئی ایسے مسلم لیگیوں کا ضمیر خرید سکتا۔
اس کے ساتھ پیر صابر شاہ کی لازوال قربانیاں بھی تاریخ کا حصہ بنی رہی یہ وہ تمام لوگ تھے جو نوازشریف کے ہر کھٹن وقت میں ان کا بازو تھے ایک وقت تھا کہ 1999میں اس وقت کے آرمی چیف جنرل مشرف نے حکومت کا تختہ الٹ کر نوازشریف کو عمر قید کی سزاسنا کر جیل بھیج دیا تھا پھر دنیا نے دیکھا کہ نوازشریف کی وہ سزا ختم ہوئی اور وہ تیسر ی بار اس ملک کے وزیراعظم بھی بنے ،اس وقت طیارہ سازش کیس کے دوران نوازشریف کے ساتھ یہ ہی جانثار لوگ ہوا کرتے تھے تب پاکستان کی اعلیٰ عدالتوں میں موجود جسٹس تصدق حسین جیلانی کی سربراہی میں پانچ رکنی بینچ نے یہ فیصلہ دیا کہ نوازشریف نے طیارہ سازش کیس میں طاقت یا احکامات میں کسی بھی دوسرے زریعے کا استعمال نہیں کیااور اس کیس میں کوئی ایسے ثبوت پیش نہیں ہوئے کہ جس سے معلوم ہو کہ نوازشریف اس کیس میں ملوث تھے یہ وہ وقت تھا جب نوازشریف کو ایسے ہی وفادار لوگوں کا ساتھ میسر تھا مگر آج جس نوازشریف کو اپنے بیٹے سے تنخوا نہ لینے پر مجرم بنادیاگیاہے تو اس پرنوازشریف خود ہی بتادیں کہ اب ان کے ساتھ ایسے کون لوگ ہیں جن کی وجہ سے انہیں یہ دن دیکھنا پڑا ہے۔