مولانا فضل الرحمن نے یوم آزادی نہ منانے کا اعلان کیا ہے، میاں نواز شریف نے شیخ مجیب الرحمن بننے کا اعلان کیا تھا ان کی بیٹی نے حسینہ واجد بننے کا مولانا کے بزرگوں نے اعلان کیا تھا کہ اللہ کا شکر ہے وہ پاکستان بنانے کے گناہ میں شریک نہیں تھے تو پھر اس میں نیا کیا ہے؟
نیا صرف یہ ہے کہ پہلی بار مراعات چھن گئی ہیں گاڑیاں بنگلے،پروٹوکول یہ سب چھنا تو پتہ چلا یہ پاکستان کے کتنے وفادار تھے جس نواز شریف کے جھنڈے تلے یہ سارے پاکستان مخالف جمع ہو رہے ہیں ذرا انکی پاکستان کے لیے خدمات کا جائزہ لیتے ہیں جس ایٹم بم کا کریڈٹ لیتے نہیں تھکتے،بقول ڈاکٹر قدیر خان جو انہوں نے جاوید چودھری کے پروگرام میں انکشاف کیاتھا کہ نواز شریف انڈین دھماکوں کا جواب دینے کی اجازت نہیں دے رہا تھا تب میں نے ان کو ایک دھمکی آمیز خط لکھا کہ اگر آپ نے دھماکے نہیں کیے تو قوم آپکو کبھی معاف نہیں کرے گی سارے سائینسدان پریس کانفرنس کے ذریعے عوام کو بتا دینگے ہمارے پاس بم کب سے تیار پڑا ہے ہم نے آپ کو فیل نہیں کیا بلکہ آپ کے حکمران نے آپ کو فیل کر دیا ،ڈاکٹر قدیر کی اس دھمکی کے بعد نواز شریف کے پاس کوئی چارہ نہیں رہا تمام اپوزیشن جماعتوں کے علاوہ آرمی چیف جنرل جہانگیر کرامت نے بھی ایٹمی دھماکوں کے لیے دبائو ڈالا جس کا بدلہ نواز شریف نے دھماکوں کے فوراً بعد ان سے استعفی کی صورت میں لیا ،کشمیر کی چوٹیوں پر سے دونوں افواج سخت سردیوں میں نیچے اتر آتی ہیں ۔84میں انڈین افواج بظاہر گلیشیئر سے اترنے کے بعد نہایت خاموشی سے واپس چلی گئیں اور ان چوکیوں پر قبضہ کر لیا جو پاکستانی افواج نے خالی کی تھیں جواباً ایک طویل اور صبر آزما انتظار کے بعد 99میں پاک فوج نیچے اترنے کے بعد دوبارہ واپس گئی اور انڈیا کی خالی کی گئی تمام چوٹیوں پر قبضہ کر لیا اس قبضے کے نتیجے میں سیاچن اور لداخ میں موجود انڈیا کی بہت بڑی فوج محصور ہو گئی اور ان کے لیے جانے والی اکلوتی سپلائی لائن پاکستان کے نشانے پر آ گئی بھاری جانی و مالی نقصان اٹھانے کے باوجود انڈیا چوٹیوں کا قبضہ واپس لینے میں ناکام رہا اس دوران انڈیا اقوام متحدہ اور امریکہ کو پاکستان پر دبائو ڈالنے کے لیے مجبور کرتا رہا بالاآخر 4جولائی 1999کو نواز شریف نے صدر کلنٹن سے ملاقات کے فورا بعد پاک فوج کو کارگل کی چوٹیاں خالی کرنے کا حکم دے دیا نواز شریف کے اس فیصلے کے بعد پاکستان نہ صرف ایک جیتی ہوئی جنگ ہار گیا بلکہ دوران پسپائی پاک فوج کو پشت پر کیے گئے حملوں میں بہت زیادہ جانی نقصان اٹھانا پڑا۔
اگست 1999میں دو انڈین ائرکرافٹس نے پاکستانی فضائی حدود میں نیوی کا مسافر جہاز مار گرایا جس میں نیوی کے سولہ آفیسرز شہید ہو گئے نواز شریف نے اس معاملے کو یکسر نظرانداز کر دیا اپنے وزیر اعظم کی اس بے حسی نے نیوی پر بہت برا اثر ڈالا اور اس وقت کے نیوی ایڈ مرل عبدلعزیزمرزا نواز شریف کے خلاف ہو گئے ،اکتوبر 1999میں بھارتی صدر اندرکمار گجرال نے انکشاف کیا کہ نواز شریف نے مجھے کشمیری مجاہدین کی خفیہ سرگرمیوں کی رپورٹس دی ہیں ،12 اکتوبر 1999کو اس وقت کے آرمی چیف پرویز مشرف کے جہاز کو پاکستان میں اترنے کی اجازت نہیں دی اور حکم جاری کیا کراچی ائرپورٹ مذکورہ جہاز کے لیے سیل کر دیا جائے جہاز کے کیپٹن نے ری فیولنگ کے لیے نواب شاہ ائرپورٹ پر اترنے کی اجازت مانگی تو نواز شریف نے حکم جاری کیا یہ ری فیولنگ انڈیا میں کرائی جائے یوں پاکستان کے حاضر سروس چیف آف آرمی سٹاف کو انڈیا بھیجنے پر راضی ہو گئے۔
اس کے بعد کیا ہوا پوری قوم جانتی ہے ۔۔۔۔2008میں ممبئی حملوں کے فورا بعد نواز شریف نے کامران خان کو انٹر ویو دیتے ہوئے کہا کہ میں نے خود چیک کروایا ہے اجمل قصاب یہیں کا ہے ،آخر ایسا کرنے کی ضرورت کیوں پڑی ہمیں اپنا گھر صاف کرنے کی ضرورت ہے ،اپریل 2010میں پیپلزپارٹی کے ساتھ مل کر اٹھارویں آئینی ترمیم منظور کی جس نے پاکستان میں صوبائیت کو مزید بڑھاوا دیا اور مرکز کو کمزور کیا جس کے بعد انڈیا کے لیے پاکستان میں صوبائی قوم پرستی کو ابھارنا مزید آسان ہو گیا ،اگست 2011میں اپنا مشہور زمانہ بیان جاری فرمایا کہ ہماری زبان ،کلچر ایک ہے صرف سرحد کی لکیر درمیان میں آگئی ہے ورنہ بھارتی جس رب کو پوجتے ہیں ہم بھی اسی کو پوجتے ہیں اس بیان میں مزید فرمایا کہ واجپائی ٹھیک کہتے ہیں ہم نے انڈیا کی پیٹھ میں چھرا مارا ہے یہ سب جانتے ہیں ،بھارت نے تو کارگل کا انکوائری کمیشن بنا دیا تھا لیکن یہاں کیا کہیں کہ کون کارگل کی انکوائری نہیں ہونے دے رہے ہیں 2013کے انتخابات میں عمران خان کی بے پناہ مقبولیت کے باوجود نواز شریف حیران کن طور پر بھاری مارجن سے جیت گیا معید پیرزادہ نامی مشہور اینکر نے دعوی کیا کہ نواز شریف کو جتوانے کے پیچھے انڈیا اور انٹر نیشل اسٹیبلشمنٹ ہے اور آنے والے دنوں میں نواز شریف انڈیا اور انٹر نیشنل اسٹیبلشمنٹ کے مفادات پورے کرے گا۔
مئی 2014 میں نواز شریف گجرات میں ہزاروں مسلمانوں کے قاتل اور پاکستان دشمنی کے نعرے پر ووٹ لینے والے نریندر مودی کی تقریب حلف برداری میں شرکت کرنے کے لیے خصوصی طور پر دہلی پہنچا نریندر مودی نے حلف اٹھاتے ہی سارے کام چھوڑ کر پاکستان کے خلاف ساری دنیا میں جارحانہ سفارت کاری شروع کر دی جوابا نواز شریف نے پاکستان کا وزیر خارجہ نہ مقرر کرنے کا حیران کن فیصلہ کیا یوں نریندر مودی کے لیے میدان بالکل خالی چھوڑ دیا البتہ جاتے جاتے خواجہ آصف کو وزیر خارجہ مقرر کیا جس کا واحد کارنامہ یہ تھا کہ امریکہ جا کر بیان داغ دیا کہ حافظ سعید پاکستان سے باہر دہشت گردی کرتا رہا ہے اور ہمیں اپنا گھر صاف کرنے کی ضرورت ہے ،نواز شریف نے اپنے دورہ انڈیا کے دوران کشمیری حریت لیڈروں سے ملنے سے انکار کر دیا حالانکہ پاکستان کے سربراہان انڈیا دورے میں یہ ملاقاتیں ضرور کرتے ہیں کشمیر کمیٹی کا چیئر مین فضل الرحمن کو مقرر کیا جو 2002میں مسلہ کشمیر کو علاقائی تنازع اور مجاہدین کو دہشتگرد قرار دے چکا ہے نواز شریف کی آمد کے بعد انڈین فوج کا کشمیریوں پر ظلم کئی گنا بڑھ گیا اور کشمیریوں کو جانوروں کا شکار کرنے والی پیلٹ گنوں سے نشانہ بنایا گیا جواباً کشمیریوں کی تحریک آزادی عروج پر پہنچ گئی لیکن نواز شریف نے سوائے اقوام متحدہ میں ایک رسمی بیان جاری کرنے کے کشمیر کے لیے سفارتی محاذ پر ایک لفظ تک نہیں بولا ،2014 میں راحیل شریف نے نواز شریف کو ایک آڈیو سنوائی جس میں ایک انڈین جنرل ٹی ٹی پی کے امیر فضل اللہ کو ہدایات دے رہا تھا یہی آڈیو امریکی سفیر کو بھی سنوائی گئی تھی بلوچ فراریوں نے ہتھیار ڈال کر اعتراف کیا کہ انڈیا ان کو پاکستان میں دہشت گردی کرنے کے لیے سپورٹ کر رہا ہے اس طرح فاٹا اور کراچی میں پکڑے جانے والے دہشتگردوں نے بھی یہی بیانات دیے نواز شریف کو پاک فوج نے تمام شواہد پر مبنی ایک ڈوسیئربنا کر دیا تاکہ انڈیا کے خلاف اقوام متحدہ میں اپنا کیس جمع کروا سکیں لیکن نواز شریف اپنے وعدے سے مکر گیا اور وہ ڈوسیئر آج تک جمع نہیں کروایا جا سکا۔
جون 2014 میں مودی کی والدہ کے لیے ساڑھی اور آموں کا تحفہ بھیجا ،جنوری 2015 میں انڈین قومی سلامتی کے مشیر جو نریندر مودی کے بعد انڈیا کی سب سے طاقتور شخصیت ہے اجیت ڈوول نے بیان جاری کیا ہم پاکستان میں دہشتگردی کریں گے اس کے لیے دہشتگردوں کو دگنی رقم دیں گے اور کانٹے سے کانٹا نکالیں گے جون 2015 میں نریندر مودی نے بنگلہ دیش جا کر برملا اعتراف کیا کہ ہم نیبنگالیوں کے ساتھ مل کر پاکستان توڑا اسی سال نریندر مودی اور اجیت ڈوول نے پاکستان کو توڑ کر بلوچستان الگ کرنے کے بیانات بھی دیے اور کہا کہ بلوچستان ہمیں پکار رہا ہے لیکن نواز شریف مکمل طور پر خاموش رہا ،دسمبر 2015 میں نریندر مودی اجیت ڈوول کے ہمراہ اچانک نواز شریف کی نواسی کی شادی میں شرکت کے لیے ان کے گھر جاتی امرا رائے ونڈ پہنچ گئے سرخ قالین بچھا کر ان کا استقبال کیا گیا نواز شریف ان کو ریسیو کرنے اور چھوڑنے ائرپورٹ تک گئے ،مارچ 2016 میں پاک فوج نے ایرانی صدر کے دورہ پاکستان کے موقع پر انڈین جاسوس کلبھوشن یادیو کی گرفتاری ظاہر کی جو چاہ بہار سے آپریٹ کر رہا تھا نواز شریف نے ایرانی صدر کے ساتھ اس پر بات تک نہیں کی کلبھوشن یادیو نے اعتراف کیا کہ فاٹا سے لے کر کراچی تک پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی انڈیا کروا رہا ہے نواز شریف نے کلبھوشن کا معاملہ عالمی برادری کے سامنے اٹھانا تو درکنار اس کا نام تک لینا پسند نہ کیا نواز شریف آج بھی کلبھوشن کو دہشتگرد قرار دینے کے لیے تیار نہیں وہ اس کے لیے ،جاسوس، کا لفظ استعمال کرتا ہے یوں جاسوسی کی جدید تاریخ میں آئی ایس آئی کی اتنی بڑی کامیابی کو خاک میں ملا دیا۔
کلبھوشن کے معاملے میں انڈیا مئی 2017 میں عالمی عدالت پہنچا پاکستان کے پاس آپشن تھی کہ عالمی عدالت کی ثالثی ماننے سے انکار کر دیتا لیکن نواز شریف نے نہ صرف ثالثی قبول کر لی بلکہ پاکستان کی جانب سے وکیل تک نہ کیا پاک فوج کو عین آخری لمحات میں عجلت میں وکیل بھیجنا پڑا عالمی عدالت نے کلبھوشن کی سزا پر انڈیا کو پاکستان کے خلاف سٹے دے دیا ،ٹائمز آف انڈیا نے فروری 2016 میں انکشاف کیا کہ نواز شریف کی آمد کے بعد صرف تین سال کے عرصے میں پاکستان سے انڈیا 14ارب ڈاکی رقوم منتقل کی گئی ہیں ،کس کھاتے میں ؟ یہ آج تک واضح نہیں ہو سکا خیال رہے کہ نواز شریف کی آمد سے قبل پاکستان سے انڈیا کو کسی قسم کی رقوم نہیں بھیجی جاتی تھیں اپریل 2016 میں ایک انڈین دفاعی تجزیہ نگار نے ٹی وی پر آ کر برملا اعتراف کیا کہ ہم نے نواز شریف پر سرمایہ کاری کی ہے اور ہم اس کو ضرور بچائیں گے اس وقت نواز شریف پر پانامہ کا گھیرا تنگ ہو رہا تھا 2016 ستمبر میں طاہر القادری نے نواز شریف کی شوگر ملوں میں انڈین جاسوسوں کی موجودگی کا انکشاف کیا جس کے بعد ان جاسوسوں کی تصاویر اور ویزے سوشل میڈیا پر گردش کرنے لگے اکتوبر 2016میں ڈان اخبار سیرل المیڈا کے توسط سے مضمون چھپا جس میں پاکستان اور پاک فوج کو خطے میں دہشتگردی کا ذمہ دار قرار دیا گیا اور یہ کہ نواز شریف پاک فوج کو دہشت گردی سے روکنے کی کوشش کر رہا ہے خبر کے تانے بانے پرویز رشید سے ہوتے ہوئے مریم نواز اور نواز شریف تک جا رہے تھے۔
دونوں نے خبر کو من گھڑت قرار دیتے ہوئے پرویزرشید کو عہدے سے ہٹا دیا ،اپریل 2017 میں ٹی ٹی پی ترجمان احسان اللہ احسان نے خود کو پاک فوج کے حوالے کر دیا جس کے بعد اس کا ایک سنسنی خیز انٹر ویو کیا گیا اس انٹر ویو میں اس نے نہ صرف ٹی ٹی پی اور جماعت الحرار کی پشت پر انڈیا کی موجودگی کا پول کھولا بلکہ یہ بھی بتایا کہ بلوچ فراریوں کی طرح ٹی ٹی پی کے بہت سے لوگ ہتھیار ڈالنے کو تیار ہیں اگر ان کو واپسی کا راستہ دیا جائے سلیم صافی نے ٹی ٹی پی کے ترجمان احسان اللہ احسان کا ایک نسبتاً زیادہ تفصیلی انٹر ویو نشر کرنے کا اعلان کیا جس میں دہشت گردوں ،را،اور این ڈی ایس میں موجودہ تعلق کے حوالے سے مزید انکشافات کیے جانے تھے لیکن وہ انٹر ویو نشر ہونے سے قبل ہی اچانک انڈین بزنس ٹائیکون اور افغان معاملات کے حوالے سے خصوصی طور پر متحرک سجن جندال بغیر کسی ویزے کے پاکستان پہنچا اور مری میں نواز شریف سے چند گھنٹوں کی ایک خفیہ ملاقات کی ملاقات کی تفصیلات کبھی منظرعام پر نہیں آ سکیں لیکن اس ملاقات کے فوراً بعد نواز شریف کے حکم پر احسان اللہ احسان کا تفصیلی انٹر ویو نشر کرنے سے روک دیا گیا یوں دبائو میں آئے ہوئے انڈیا کو ریلیف مل گیا ،انڈیا کو پاکستانی ڈیموں پر ہمیشہ اعتراض رہا ہے نواز شریف نے پہلے زرداری کے ساتھ مل کر کالا باغ ڈیم کو ہمیشہ کے لیے دفن کرنے کا اعلان کیا۔
اس کے بعد دیا میر بھاشا ڈیم پر مکمل کام رکوا دیا پرویز مشرف کا نیلم جہلم ڈیم 2009 میں مکمل ہونا تھا اس پر کام سست کروا کر 2018 تک کھینچ لیا اور چند ماہ پہلے اسی ڈیم پر کھڑے ہو کر انڈیا سے بجلی خریدنے کا اعلان کیا کیونکہ انڈیا نے پاکستانی دریائوں کا پانی روک کر بیشمار ڈیم مکمل کر لیے ہیں ،پاک ایران ،چین گیس پائپ لائن پر بھی انڈیا کو شدید تحفظات لاحق تھے وہ منصوبہ بھی نواز شریف نے ہی معطل کروایا تھا۔
نواز شریف کا دعوی ہے کہ وہ انڈیا کے ساتھ تعلقات ٹھیک کر رہا ہے لیکن سچائی یہ ہے کہ سوائے انڈین الزامات کو تقویت دینے کے ایسی کوئی کوشش نہیں کی گئی پاکستان کے انڈیا کے ساتھ تعلقات کس حد تک ٹھیک ہو چکے ہیں اس کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ نواز شریف کے دور حکومت میں انڈیا نے ایل او سی پر جتنے حملے کیے ہیں اتنے پاکستان کی تاریخ میں کبھی نہیں کیے یہ حملے تب خاص طور پر بڑھ جاتے ہیں جب نواز شریف پر دبائو بڑھتا ہے تین مئی 2018 کو نواز شریف نے احتساب عدالت کی سیڑھیوں پر کھڑے ہو کر کہا ” میرے سینے میں بہت راز ہیں اس کے افشا ہونے سے پہلے سدھر جائو”چند دن پہلے نواز شریف نے ڈان نیوز سے اپنا انٹر ویو لینے کی فرمائش کی سیرل المیڈا کو خصوصی طور پر بلوا کر جو انٹر ویو دیا اس کا مندرجہ ذیل حصہ پوری دنیا کی توجہ کا مرکز بن گیا ،پاکستان میں دہشت گرد تنظیمیں متحرک ہیں آپ انہیں غیر ریاستی عناصر کہیں ،کیا ہمیں دس سال پہلے ان کو سرحد پار جا کر ممبئی میں انہیں ڈیڈھ سو افراد کو قتل کرنے کی اجازت دینی چاہیے تھی ؟
ہم ان کے خلاف مقدمات کیوں ختم نہیں کر پا رہے ؟ تین بار وزیر اعظم رہنے والے کو اتنا علم نہیں کہ انڈیا ثبوت اور شواہد فراہم کرنے کو تیار ہی نہیں اس لیے مقدمات ختم نہیں ہو پا رہے حالانکہ انڈین صحافیوں نے خود یہ بھانڈا پھوڑا کہ ممبئی حملے انڈیا نے پاکستان کو بدنام کرنے کے لیے خود کروائے تھے نواز شریف نے جو بیان دیا انڈیا عالمی برادری کے سامنے پاکستان کے خلاف بالکل یہی موقف پیش کر رہا ہے نواز شریف کے سپورٹرز نے کمزور دلیل دی کہ نواز شریف کے بیان کو توڑ مروڑ کر پیش کیا جا رہا ہے لیکن اگلے ہی دن نواز شریف نے اپنے بیان کی تصدیق کرتے ہوئے اعلان کیا کہ ان کا بیان بالکل صحیح شائع کیا گیا ہے جواباً پاک فوج نے وزیر اعظم کو قومی سلامتی کا اجلاس طلب کرنے کی تجویز دی جس کو قبول کر لیا گیا اس کانفرنس میں ریاست پاکستان نے متفقہ طور پر نواز شریف کا بیان مسترد کر دیا البتہ مریم اورنگ زیب نے اس کانفرنس کا بیانیہ پی ٹی وی پر نشر نہیں ہونے دیا اگلے دن وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے کمال ڈھٹائی کا مظاہرہ کرتے ہوئے دوبارہ فرمایا کہ نواز شریف کا بیان توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا ہے اس بیان کے بعد مریم نواز نے بیان جاری کیا کہ ڈان لیکس والی خبر بالکل درست تھی اور پرویز رشید کو سزا دینا غلط تھا یہ امر ملحوظ رہے کہ دونوں بار ڈان اخبار اور سیرل المیڈا صحافی استعمال ہوئے انڈیا نے پوری طاقت سے اقوام عالم کے سامنے اس بیان کا ڈھنڈورا پیٹا اور امکان تھا وہ اس بیان کو لے کر اقوام متحدہ میں جائے گا کیونکہ یہ بیان ایک ایسے خطرناک وقت میں دیا گیا جبکہ صرف چند دن بعد فیصلہ کیا جانا تھا۔
پاکستان کو دہشت گرد ممالک کی عالمی واچ لسٹ میں شامل کیا جائے یا نہیں یوں نواز شریف نے ان کا کام آسان کیا اس کے بعد پاکستان کو دہشت گرد ملکوں کی فہرست یعنی گرے لسٹ میں شامل کر لیا گیا اب پاکستانیوں کو ساری دنیا میں ویزوں ،رقوم کی منتقلی، اور بیرونی ممالک کے ساتھ تجارت میں شدید مشکلات کا سامنا ہے (یہ ہے پاکستان کا تین بار وزیراعظم بننے والا عظیم شخص ) اس وقت پاکستان کی ساری سرحدیں ایکٹو ہیں افغانستان اور انڈیا پاکستانی سرحدوں پرمسلسل حملے کر رہے ہیں ڈونلڈ ٹرمپ شمالی کوریا سے معاہدہ کر کے پوری توجہ پاکستان پر مرکوز کرنا چاہتا ہے پاکستان کی فوجی امداد بند ہے امریکہ میں پاکستانی سفیروں کی نقل و حمل پر پابندی لگ چکی ہے اور پاکستان میں ایسے گروہ متحرک کر دیے گئے ہیں جو پاکستان کو ظالم ریاست قرار دیتے ہوے کھل کر پاکستان کے خلاف اقوام متحدہ ،امریکہ انڈیا حتی کہ اسرائیل تک سے فوجی کاروائی کرنے کی درخواست کر رہے ہیں ان گروپوں میں اس وقت لبرلز کے جھنڈے تلے چلنے والی ”پشتین تحریک”ٹاپ پر ہے اس تحریک کے حوالے سے بھی نواز شریف کا کردار خاصا مشکوک ہے نواز شریف حکومت نے آئی ڈی پیز کو کسی طرح کی مدد فراہم نہیں کی نہ ان کی واپسی کے بعد تعمیر نو کا کوئی کام کیا سوائے اس کے جو پاک فوج اپنے بل بوتے پر کرتی رہی یوں ان کی بڑی تعداد ناراض ہو گئی نواز شریف کے اہم ترین اتحادی فضل الرحمن اور محمود اچکزئی دہشتگردوں کے خلاف آپریشن کو قبائل کے خلاف آپریشن قرار دیتے رہے پاک فوج نے فاٹا کے تمام مسائل کا حل فاٹا اصلاحات کی شکل میں پیش کیا جس کی نواز شریف کے دونوں اتحادیوں نے شدید مخالفت کی یوں فاٹا اصلاحات پر عمل نہیں کروایا گیا ،جب نقیب اللہ قتل ہوا تو تو نواز حکومت زرداری کے دست راست رائو انوار کی گرفتاری میں پس و پیش سے کام لیتی رہی نقیب اللہ کو لے کر پشتین تحریک اٹھی تو نواز حکومت نے ایک بار بھی ان سے بات چیت کرنے کی کوشش نہیں کی حالانکہ تحریک کی سرکردگی نواز شریف کا دست راست محمود اچکزئی کر رہا تھا الٹا نواز شریف کی بیٹی مریم نواز نے نا صرف اس تحریک کے نعرے ”یہ جو دہشت گردی ہے اس کے پیچھے وردی ہے ” کو سپورٹ کرنے کا اعلان کیا بلکہ اپنے تیس ہزار کارکن بھی ان کے جلسے میں بھیجنے کا وعدہ کیا مذکورہ تحریک کی قیادت پاکستان کا باغی لا سین اور لبرل طبقہ کر رہا ہے۔
جن پر مغرب خصوصی طور پر مہربان ہے اس لیے وہ دنیا بھر میں پاکستان کے خلاف جلسے کر رہے ہیں اور پاکستان کو ایک دہشتگرد ریاست کے طور پر پیش کر کے اقوام عالم سے کاروائی کا مطالبہ کر رہے ہیں اگر پاکستان کے خلاف عالمی دبائو بڑھتا ہے تو اس کا فوری فائدہ نواز شریف کو یہ ہوگا کہ اس کے دنیا بھر میں اربوں ڈالرز کے اثاثے محفوظ ہو جائیں گے اور نواز شریف دنیا کو بتائے گا اس کے خلاف کاروائی اس کی کرپشن کی وجہ سے نہیں بلکہ دہشتگردی کے خلاف موقف کی وجہ سے ،اگر پاکستان کے خلاف کوئی بہت بڑی فوجی کاروائی عمل میں لائی جاتی ہے تو یہ سونے پہ سہاگہ والی بات ہوگی اس ظالم انسان نے محض اپنی لوٹی ہوئی دولت بچانے کے لیے پوری ریاست کو دائو پر لگا دیا ہے اور بائیس کروڑ انسانوں کو مروانا چاہتا ہے میر جعفر میر صادق غدار تھے لیکن انہوں نے ایک چھوٹی سی ہاری ہوئی ریاست کے خلاف غداری کی تھی۔
جو اس خطے میں برطانیہ کے خلاف مسلمانوں کی دم توڑتی ہوئی آخری مزاحمت تھی لیکن نواز شریف جو غداری کر رہا ہے وہ عالم اسلام کے سب سے مضبوط قلعے میں نقب لگا رہا ہے یہ نقب صرف پاکستان میں بسنے والے بائیس کروڑ مسلمانوں کو ہی نہیں متاثر کرے گی بلکہ پاکستان کی ایٹمی قوت کی وجہ سے سعودی عرب،ترکی حتی کہ ایران تک کو جو تقویت ملتی ہے وہ بھی ختم ہو جائیگی اور پوری دنیا کے مسلمان ہل کر رہ جائیں گے نواز شریف مسلمانوں کی تاریخ کا سب سے بڑا غدار ہے ذرا سوچیئے کیا یہ کسی بھارتی ایجنٹ سے بڑھ کر نہیں ؟