اسلام آباد (جیوڈیسک) پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان ملک کے 22ویں وزیراعظم منتخب ہو گئے ہیں۔
وزیراعظم کے انتخاب کے لیے قومی اسمبلی کا اجلاس جاری ہے جہاں نئے قائد ایوان چننے کے لیے رائے شماری ہوئی جس میں عمران خان کو 176 ووٹ لیے۔
اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کی زیرصدارت اجلاس جاری ہے، اسپیکر نے اراکین کو قائد ایوان کے انتخاب کے طریقہ کار سے متعلق آگاہ کیا اور اراکین کو ہدایت کہ جو اراکین عمران خان کے حق میں ووٹ ڈالنا چاہتے ہیں تو اسپیکر کے دائیں جانب لابی اے میں جائیں اور جو شہبازشریف کو ووٹ ڈالنا چاہتے ہیں وہ اسپیکر کے بائیں جانب لابی بی میں چلے جائیں جس کے بعد اراکین اپنی اپنی لابی میں چلے گئے۔
اس موقع پر پیپلزپارٹی کے اراکین نے انتخابی عمل میں حصہ نہیں لیا اور وہ اپنی نشستوں پر ہی بیٹھے رہے جب کہ جماعت اسلامی کے رکن مولانا عبدالاکبر چترالی بھی اپنی نشست سے نہیں اٹھے۔
(ن) لیگ کی جانب سے پیپلزپارٹی کو منانے کی ایک اور کوشش کی گئی، شہبازشریف خود چیئرمین پی پی بلاول بھٹو کی نشست پر گئے اور ان سے ملاقات کی، اس موقع پر جاوید مرتضیٰ عباسی سمیت دیگر رہنما بھی ان کے ہمراہ تھے تاہم شہبازشریف کی کوشش ناکام ہوئی۔
لیگی اراکین نے بلاول بھٹو زرداری سے شہبازشریف کے حق میں ووٹ دینے کی درخواست کی جس پر چیئرمین پی پی نے معذرت کرلی۔
وزارت عظمیٰ کے دو امیدوار عمران خان اور شہباز شریف سمیت چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری اور شیخ رشید سمیت دیگر اراکین اسمبلی ہال میں موجود ہیں۔
چیئرمین تحریک انصاف عمران خان اجلاس میں شرکت کے لیے ایوان میں پہنچنے پر مہمان گیلری میں موجود افراد نے کھڑے ہوکر تالیاں بجائیں جب کہ اس موقع پر پی ٹی آئی ارکان نے نعرے بازی کی۔
وزارتِ عظمیٰ کے دوسرے امیدوار شہبازشریف بازو پر سیاہ پٹی باندھے ایوان میں پہنچے تو انہوں نے سب سے مصافحہ کرنا شروع کیا، اس موقع پر چیئرمین تحریک انصاف عمران خان اپنی نشست سے کھڑے ہوئے اور آگے بڑھ کر شہباز شریف سے مصافحہ کیا۔
وزیراعظم کے انتخاب کی کارروائی دیکھنے کے لیے مہمانوں کی بڑی تعداد گیلری میں آگئی جس میں پی ٹی آئی کے کارکنان کی بڑی تعداد شامل ہے، مہمانوں کی گیلری رش کے باعث بند کردی گئی۔
مہمانوں کی بڑی تعداد پریس گیلری میں گھس گئی جنہیں صحافیوں نے روکنے کی کوشش کی تو دھکم پیل ہوئی، صحافیوں کے ساتھ ہاتھا پائی میں توڑ پھوڑ بھی ہوئی۔
قومی اسمبلی کا اجلاس شروع ہوا تو مسلم لیگ ن کے رہنما اور سابق ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی مرتضی جاوید عباسی نے اپنی نشست پر کھڑے ہوئے اور نکتہ اعتراض پر کہا کہ آج پہلے ہی دن ایوان کا تقدس پامال ہوا۔
مرتضی جاوید عباسی نے کہا کہ ابھی تو وزیراعظم نے حلف اٹھایا بھی نہیں، لوگ گیلریوں میں کھڑے ہیں انہیں پہلے باہر نکالیں۔
بعد ازاں خورشید شاہ نے بھی نکتہ اعتراض پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ایسی صورتحال گیلریوں میں کبھی نہیں دیکھی۔
سابق اپوزیشن لیڈر قومی اسمبلی نے کہا کہ اہم شخصیات یہاں موجود ہیں، خدانخواستہ کوئی حادثہ رونما ہو سکتا ہے، یہاں پہلے بھی حادثہ رونما ہو چکا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ گیلریوں میں کھڑے افراد کو نکالا جائے۔
اس سے قبل شہبازشریف کی اسمبلی آمد کے موقع پر صحافی نے ان سے سوال کیا کہ کیا آپ سنچری مکمل کر لیں گے؟ اس پر (ن) لیگ کے صدر نے کہا کہ جب میچ فکس ہو پھر سنچری کیسے بنائی جا سکتی ہے؟
خورشید شاہ اور ایاز صادق ایک ہی گاڑی میں پارلیمنٹ ہاوس پہنچے جس پر صحافی نے سوال کیا کہ آج (ن) لیگ اور پیپلزپارٹی ایک ہی گاڑی میں ہیں، اس پر ایاز صادق نے کہا کہ شاہ صاحب سے 2002 کا رشتہ ہے، نا چھٹنے والا رشتہ ہے، سیاست اپنی جگہ اور یہ رشتے اپنی جگہ ہیں۔
عمران خان کی پارلیمنٹ ہاؤس آمد کے موقع پر صحافیوں نے ان سے سوالات کیے اور ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ میچ ابھی ختم نہیں ہوا، میچ جاری ہے، خواب ابھی پورا نہیں ہوا، ایک مرحلہ پورا ہوا۔
وزیراعلیٰ پنجاب کے سوال پر چیئرمین پی ٹی آئی نے بتایا کہ پارلیمانی پارٹی کے اجلاس کے بعد وزیراعلیٰ پنجاب کے نام کا اعلان کردیا جائے گا۔
تحریک انصاف کے رہنما فواد چوہدری نے دعویٰ کیا ہے کہ عمران خان پہلے ہی راؤنڈ میں کامیاب ہو جائیں گے اور وہ 180 کے لگ بھگ ووٹ لیں گے۔
اس بار خفیہ رائے شماری کے بجائے ڈویژن کے ذریعے ووٹ دیے جارہے ہیں۔
بظاہر عمران خان کے وزیراعظم بننے کے لیے میدان صاف ہوگیا ہے کیوں کہ پیپلز پارٹی نے مسلم لیگ (ن) کا ساتھ دینے سے انکار کر دیا ہے۔
چیئرمین پاکستان پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری قومی اسمبلی میں پہنچے تو میڈیا نمائندوں کے سوال و کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہاکہ پیپلزپارٹی انتخابی عمل کا حصہ نہیں بنے گی اور انتخابی عمل میں حصہ نہ لینا ہمارا جمہوری حق ہے۔
سابق صدر مملکت اور پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری قومی اسمبلی کے اجلاس میں شرکت نہیں کر رہے۔
واضح رہے کہ پیپلز پارٹی نے ملکی سیاسی تاریخ میں پہلی بار وزیراعظم کے الیکشن سے علیحدہ رہنے کا فیصلہ کیا ہے۔
قومی اسمبلی میں قائد ایوان کے چناؤ کے لیے جیت عددی برتری رکھنے والی جماعت کی ہی ہوگی، ایوان زیریں میں موجودہ پارٹی پوزیشن کو دیکھا جائے تو 152 نشستیں پاکستان تحریک انصاف کے پاس ہیں جبکہ سابقہ حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) کی ایوان میں 81 نشستیں ہیں۔
پاکستان پیپلز پارٹی کی 54 نشستیں، متحدہ مجلس عمل 15 ، متحدہ قومی مومنٹ 7 ، بلوچستان عوامی پارٹی 5، بی این پی مینگل 4، پاکستان مسلم لیگ (ق) 3، گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس (جی ڈی اے) 3، عوامی مسلم لیگ، جمہوری وطن پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی کی ایک ایک نشست ہے جبکہ 4 نشستیں آزاد امیدواروں کے پاس ہیں۔
پاکستان تحریک انصاف کی سپورٹ کو دیکھا جائے تو اس کے پاس 152 نشستیں ہیں اور اسے متحدہ قومی مووومنٹ کے 7، پاکستان مسلم لیگ (ق) کے 3، بلوچستان عوامی پارٹی کے 5، بی این پی مینگل کے 4، جی ڈی اے کے 3، عوامی مسلم لیگ اور جمہوری وطن پارٹی کے ایک ایک ممبر کی حمایت حاصل ہے، جس سے ان کی ایوان میں عددی قوت 176 بنتی ہے۔
چار آزاد امیدواروں کا جھکاؤ بھی پاکستان تحریک انصاف کی جانب ہوسکتا ہے، اگر ایسا ہوا تو پی ٹی آئی وزارت عظمیٰ کے لیے 180 ارکان کی حمایت حاصل کرسکتی ہے۔
ہم خیال جماعتوں کو دیکھا جائے تو پاکستان مسلم لیگ (ن) کے پاس 81 نشستیں ہیں جبکہ انہیں متحدہ مجلس عمل کے 15 اور عوامی نیشنل پارٹی کے 1 ممبر کی سپورٹ حاصل ہے، اس طرح اپوزیشن کی عددی قوت 97 بنتی ہے جبکہ 4 آزاد امیدواروں کس سے ہاتھ ملائیں گے یہ واضح نہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے 54 ارکان ہیں تاہم پی پی پی نے انتخابی عمل میں حصہ نہ لینے کا فیصلہ کیا ہے۔
وزیراعظم کی نشست کے حصول کے لیے قومی اسمبلی میں کسی بھی امیدوار کو آئین کےآرٹیکل 91 کی شق 4 کے تحت ایوان کے مجموعی ارکان کی سادہ اکثریت درکار ہوتی ہے۔
342 کے ایوان میں 2 نشستوں پر انتخابات ملتوی ہوئے جبکہ 6 نشستیں پی ٹی آئی، 2 نشستیں ق لیگ اور 1 نشست ن لیگ کے حمزہ شہباز کی جانب سے ایک سے زائد نشستوں پر کامیابی کے باعث خالی ہوئیں۔
اسی طرح ایک نشست این اے 215 پر پاکستان پیپلز پارٹی کے امیدوار کی کامیابی کا نوٹیفیکیشن عدالت عظمیٰ کی جانب سے جاری کرنے کا حکم دیا گیا مگر اب تک ایسا نہ ہوسکا، یوں ایوان 330 ارکان کا ہوگا۔
وزیراعظم کے چناؤ کے روز اگر 330 ممبران موجود ہوتے ہیں تو اس حساب سے جیت کے لیے 166 ممبران کی حمیات درکار ہوگی، یعنی پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کو وزیراعظم منتخب ہونے میں کوئی مشکل پیشں نہیں آئے گی اور اپوزیشن کے مقابلے میں ان کی پوزیشن مضبوط ہے۔
قائد ایوان کے 2013 کے انتخابات کو دیکھا جائے تو اُس وقت میاں نواز شریف نے دو تہائی سے زائد یعنی 244 ووٹ حاصل کیے تھے جبکہ مخدوم امین فہیم نے 42 ووٹ اور جاوید ہاشمی نے 31 ووٹ حاصل کیے تھے۔
نوازشریف کی نااہلی کے بعد پاکستان مسلم لیگ (ن) کے شاہد خاقان عباسی 339 ووٹوں میں سے 221 ووٹ حاصل کر کے وزارت عظمیٰ کے منصب پر فائز ہوئے تھے۔