عمران خان کو اقتدار چاہیئے

Imran Khan

Imran Khan

تحریر : اکرم باجوە ویانا

عمران خان اپنے حامی اور مخالفین کی نظر میں اگر ھم عمران خان کو تحریک انصاف کے ووٹرز اور سپورٹرز کی نظر میں کریڈٹ دینا چاہیں ۔ تو اس کا احاطہ کرنا زیادہ مشکل نہیں۔ بقول عمران خان کے کسی بھی فالوور کے عمران خان کی مندرجہ ذیل کامیابیاں اور حصولیات ھیں۔

1۔ عمران خان اپنی بائیس سال کی جدوجہد کے بعد آج ملک کے وزیراعظم بن گئے ھیں۔

2۔ وہ عمران خان جو 2002 کے انتخابات میں بمشکل اپنی سیٹ بچا پائے تھے۔ آج پارلیمان میں اکثریتی پارٹی کے لیڈر ھیں ۔

3۔ کے پی کے کی تاریخ ھے۔ وہ ایک حکمران پارٹی کو دوبارہ الیکشن نہیں جتواتے ۔ لیکن تحریک انصاف دوسری بار وھاں سے نہ صرف جیتی ھے۔ بلکہ زیادہ اکثریت سے جیتی ھے۔
4۔ تحریک انصاف پنجاب سے مسلم لیگ ن کی طویل حکمرانی ختم کرکے پہلی بار اپنی حکومت بنانے میں کامیاب ھو گئ ھے۔

5۔ 2013 کا الیکشن ھارنے کے بعد عمران خان نے کہا تھا۔ نواز شریف میں تمہیں آرام سے حکومت کرنے نہیں دوں گا۔ میں تمہیں رلاوں گا۔ اور پانچ سال عمران خان نے مسلم لیگ ن کو آرام سے حکومت کرنے نہیں دی۔ دھرنوں، احتجاجوں، جلسوں، جلوسوں اور پریس کانفرنسوں اور ٹاک شوز پر شور شرابوں کا سلسلہ جاری رھا۔

6۔ عمران خان نے مسلسل یہ بیانیہ جاری رکھا کہ نواز شریف چور اور ڈاکو ھیں ۔ اور آج اگرچہ نیب کورٹ نے نواز شریف کو کرپشن الزامات سے بری کر دیا ھے۔ لیکن پھر بھی عمران خان کے فالوورز کی اکثریت نواز شریف کو چور اور ڈاکو سمجھتی ھے۔

7۔ عمران خان نے کہا تھا۔ نواز شریف میں تمہیں اڈیالہ جیل پہنچاوں گا۔ اور آج نواز شریف نہ صرف مریم سمیت اڈیالہ جیل میں ھیں ۔ تا حیات نااھل ھیں ۔ پارٹی صدارت سے ھٹاے جا چکے ھیں ۔ بلکہ عمران خان ان کی جگہ ملک کے وزیراعظم ھیں ۔ کسی بھی کہانی میں انجام اھم ھوتا ھے۔ اور فی الحال انجام یہی ھے۔ اس پر مسلم لیگ ن کے حامیوں کا کہنا ھے۔ اصل لڑائی اسٹیبلشمنٹ اور نوازشریف کے درمیان ھے۔ اس میں عمران خان کو وقتی فائدہ ھوا ھے۔ ابھی فلم باقی ھے۔ اور انجام ابھی آنا ھے۔

8۔ تحریک انصاف کے حامی تحریک انصاف کی اسٹیبلشمنٹ سے وابستگی پر شرمندگی محسوس نہیں کرتے۔ ان کا کہنا ھے۔ ذولفقار علی بھٹو اور نوازشریف بھی اسٹیبلشمنٹ کے سہارے اقتدار میں آے تھے۔ اگر وہ گناہ نہیں تھا ۔ تو آج عمران خان کا یہ قدم کیسے گناہ ھو سکتا ھے۔ پاکستان میں اقتدار اسٹیبلشمنٹ کی مدد سے ھی مل سکتا ھے۔ اور عمران خان اس میں کامیاب ھو گئے ھیں ۔ تحریک انصاف کے حامی ایمانداری سے یہ بھی سمجھتے ھیں ۔ عمران خان نے حالیہ انتخابات میں اپنی مقبولیت کی بنیاد پر اکثریتی ووٹ حاصل کیا ھے۔

9۔ اگر پیپلزپارٹی اور ن لیگ نے اسٹیبلشمنٹ کی مدد سے اقتدار حاصل کرکے اسٹیبلشمنٹ کے حوالے سے کوئ تیکھا سبق حاصل کر لیا ھے۔ اور یہ اینٹی اسٹیبلشمنٹ پارٹیاں بن گئ ھیں ۔ تو پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن یہ کیوں چاھتی ھیں ۔ کہ تحریک انصاف اقتدار حاصل کیے بغیر یہ سبق سیکھ لے۔ تحریک انصاف کے حامیوں کے بقول عمران خان پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن کی غلطیوں سے سبق سیکھے گا اور اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مل کر چلے گا۔

10۔ مسلم لیگ ن کے اس الزام پر کہ عمران خان اسٹیبلشمنٹ کی کٹھ پتلی ھے۔ جسے اسٹیبلشمنٹ کی نوازشریف دشمنی میں کامیابی دلائی گئ ھے۔ تحریک انصاف کے حامیوں کا موقف یہ ھے۔ یہ عمران خان کی سیاسی کامیابی ھے۔ کہ اس نے اسٹیبلشمنٹ اور نوازشریف کی دشمنی کو اپنے حق میں کیش کروایا ھے اور خود کو ایک کامیاب متبادل کے طور پر منوایا ھے۔ بلکل ویسے جیسے اسی کی دھائی میں نوازشریف نے خود کو پیپلزپارٹی کے متبادل کے طور پر خود کو پیش کیا تھا۔

11۔ مسلم لیگ ن کے حامی کہتے ہیں ۔ عمران خان اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ چل نہیں پائیں گے ۔ پاکستان کی تاریخ یہی کہتی ھے۔ وہ اسٹیبلشمنٹ کے مالی مطالبات، پالیسی اختیارات اور وزیراعظم کے ساتھ اسٹیبلشمنٹ کے توھین آمیز رویے کو زیادہ دیر برداشت نہیں کر پائیں گے۔ مسلم لیگ کے حامیوں کا خیال ھے۔ تحریک انصاف کی حکومت جنرل مشرف اور وزیراعظم شوکت عزیز کا تسلسل ھے۔ لیکن عمران خان شوکت عزیز نہیں ھیں ۔ تحریک انصاف کے حامیوں کو امید ھے۔ عمران خان پہلے وزیراعظم ھیں جو اسٹیبلشمنٹ سے اپنے اختیارات لینے میں کامیاب ھو جائیں گے اور پانچ سال بھی پورے کریں گے۔ مسلم لیگ کے حامی اس پر زیر لب مسکراتے ھیں ۔ اور کہتے ہیں ۔ عمران خان ایک مقدمے کی مار ھوں گے۔ اگر انہوں نے اختیارات مانگے۔ تحریک انصاف متبادل وزرائے اعظم سے بھری پڑی ھے۔

12۔ چند غیر جانبدار دانشوروں کا خیال ھے۔ نوازشریف کی ووٹ کو عزت دو تحریک اور اس کے ڈٹ جانے کی وجہ سے اسٹیبلشمنٹ کمزور ھو گئ ھے۔ اور اس کا فائدہ عمران خان کو پہنچے گا۔ اسٹیبلشمنٹ اتنی جلدی عمران خان پر ھاتھ نہیں ڈالے گی۔ شائد کچھ اختیارات بھی دے دے۔ عزت بھی کر لے۔ اگر عمران خان پر ھاتھ ڈالا تو اسٹیبلشمنٹ مزید کمزور ھو سکتی ھے۔
13۔ کچھ مخالف دانشوروں کا خیال ھے۔ اسٹیبلشمنٹ اپنے اختیارات اور اپنے مالی مطالبات پر کبھی سمجھوتہ نہیں کرتی۔ اس چکر میں ملک ٹوٹ گیا۔ منتخب وزرائے اعظم بے توقیر کیے گئے۔ قتل کیے گئے۔ پھانسی لگاے گئے۔ جیل ڈالے گئے۔ جلاوطن کیے گئے۔ اور پھر حالیہ انتخابات میں اسٹیبلشمنٹ اور اداروں کا جو کردار رھا جس طرح یہ عریاں ھوے۔ وہ اس لیے نہیں تھا کہ وہ اپنے اختیارات اور مالی مطالبات چھوڑنے کے لیے تیار تھے۔ چناچہ ایسا سوچنا بھی احمقوں کی جنت میں رھنے کے برابر ھے۔

14۔ مسلم لیگ ن کے حامی عمران خان پر الزام لگاتے ھیں ۔ انہوں نے اپنے اونچے آدرشوں کو چھوڑ دیا۔ اور جن کے خلاف جدوجہد کرتے رھے۔ حکومت سازی کے لیے ان سے ھاتھ ملا لیا۔ جیسے آزاد امیدوار، پرویز الہی اور متحدہ ۔ انہوں نے یہ بھی کہا تھا وہ مخلوط حکومت نہیں بنائیں گے۔ لیکن اٹھ پارٹیوں کے ساتھ اتحاد کر لیا۔ تحریک انصاف کے حامی کہتے ھیں ۔ حکومت میں آنے کے لیے ایسی عملی سیاست ضروری تھی۔ اور ھم نے اپنے خوابوں اور امیدوں کو پورا کرنے کے لیے، اپنے منشور پر عمل کرنے کے لیے اس عملی سیاست پر مجبور ھوے ھیں ۔ مسلم لیگ ن کے حامیوں کا کہنا ھے۔ یہ مجبوری آگے بھی چلے گی اور منشور کی ناکامی کی شکل میں قیمت ادا کرنا ھو گی۔ جس کی مثال ابھی سے پرویز الہی کے خلاف کرپشن کا مقدمہ واپس لے کر کی گئ ھے۔

قاتل متحدہ کو فیور دینا ھو گی۔ گورنر ہاوسز اور وزیراعظم ہاوس کو لائبریریوں میں منتقل کرنے اور وزیراعظم ہاوس میں نہ رھنے کے نعرے ترک کرنا ھوں گے۔ اور لوٹی ھوئ رقم کی واپسی سے ھاتھ دھونا ھوں گے۔ جیسے دوبارہ گنتی کے وعدے سے پیچھے ھٹ گئے۔

15۔ آئی ایم ایف اور دوسرے ڈونرز سے ان کی شرائط پر قرضے لینا ھوں گے۔ حالانکہ تحریک انصاف قرضوں کو لے کر نواز حکومت کے خلاف پروپیگنڈا کرتی رھی ھے۔ تحریک انصاف کے حامیوں کا موقف یہ ہے کہ خزانہ خالی ھے۔ اس پر مسلم لیگ ن کے حامی کہتے ھیں جب ن لیگ حکومت آئ تھی۔ تب خزانے میں صرف چھ ارب ڈالر تھا۔ ملک دیوالیہ ھونے کے قریب تھا ۔ جب نوازشریف بر طرف ھوے تب خزانے میں 23 ارب ڈالر تھا۔ اکانامی گروتھ ریٹ تقریبا ڈبل یعنی چھ فیصد ھو چکا تھا۔ سٹاک مارکیٹ انڈیکس اٹھارا ھزار سے 53 ھزار پر جا چکا تھا۔ پاکستان آئ ایم ایف سے جان چھڑوا چکا تھا۔ بے بہا غیر ملکی سرمایہ کاری پاکستان آ رھی تھی۔ دھشت گردی تقریبا ختم ھو چکی تھی۔ پاکستان آزاد خارجہ پالیسی پر عمل کر رھا تھا۔ تحریک انصاف حکومت اس سے آگے چلنے کی بجائے واپس آئ ایم ایف اور سعودی عرب کی طرف چل پڑی ھے۔

ھمارا موقف یہ ھے۔ تحریک انصاف کی حکومت کو وقت دیا جائے ۔ تاکہ وہ بھی کچھ سبق سیکھ سکے۔ ھمارا موقف یہ بھی ھے۔ اگر کل کلاں عمران خان کا اسٹیبلشمنٹ سے پھڈا پڑتا ھے۔ تو مسلم لیگ ن عمران خان کے ساتھ کھڑی ھو جائے اور اس کے ساتھ مل کر پارلیمانی و جمہوری اصلاحات لاے جیسے پیپلزپارٹی کے ساتھ مل کر اٹھارویں ترمیم پاس کی گئ۔ اگرچے تحریک انصاف کا پچھلے پانچ سال کا ٹریک ریکارڈ بلکل جمہوریت دشمن رھا۔ لیکن ستم ظریفی دیکھئے آج وھی عمران خان اور تحریک انصاف اپوزیشن سے جمہوریت کے نام پر تعاون کی درخواستیں کر رھی ھے۔ اگر تحریک انصاف حکومت عوام کی بھلائی کے لیے کام کرتی ھے۔ تو اس کی تعریف کی جاے لیکن اگر تحریک انصاف حکومت ناکام رھتی ھے۔ تو پھر ھمیں کچھ کرنے کی ضرورت نہیں ۔ عوام خود ھی پکڑ لے گی۔ ھاں لیکن ھم عمران خان کے وعدے اور خواب اور امیدیں ضرور یاد کرواتے رھیں گے۔ چاھے اس میں تحریک انصاف کے ھمارے دوستوں کے منہ کا ذائقہ بے شک کڑوا ھوتا رھے۔

AKRAM BAJWA

AKRAM BAJWA

تحریر : اکرم باجوە ویانا