اسلام آباد (جیوڈیسک) امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو اور پاکستانی وزیر اعظم عمران خان کی ٹیلی فونک گفتگو کے حوالے سے دونوں ممالک نے متضاد بیانات جاری کیے ہیں۔ پاکستان نے اس حوالے سے امریکی بیان کو حقائق کے منافی قرار دیتے ہوئے مسترد کیا ہے۔
امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو پانچ ستمبر کو پاکستان کے دورے کا ارادہ رکھتے ہیں تاہم ان کی آمد سے قبل ہی ان کی نومنتخب پاکستانی وزیر اعظم سے ہونے والی ٹیلی فونک گفتگو کے بارے میں دونوں ممالک کے متضاد بیانات تنازعے کا سبب بن گئے ہیں۔
جمعرات کے روز امریکی محکمہ خارجہ کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا تھا کہ امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے پاکستانی وزیر اعظم عمران خان سے ٹیلی فون پر ہونے والی گفتگو کے دوران یہ واضح کیا کہ اسلام آباد حکومت کو پاکستانی سرزمین پر فعال دہشت گرد گروہوں کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کرنا ہو گی۔
لیکن یہ بیان اس وقت دونوں ممالک کے مابین بظاہر ایک اور سفارتی تنازعے کا سبب بن گیا جب پاکستان نے اسے حقائق کے منافی قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا۔ پاکستانی وزارت خارجہ کے ترجمان ڈاکٹر محمد فیصل نے اس حوالے سے اپنی ٹوئیٹ میں لکھا، ’’وزیر اعظم عمران خان اور وزیر خارجہ پومپیو کی ٹیلی فون پر ہونے والی گفتگو کے بارے میں امریکی وزارت خارجہ کا جاری کردہ بیان غلط اور حقائق کے منافی ہے، پاکستان اس سے اختلاف کرتا ہے۔ اس گفتگو میں پاکستان میں فعال دہشتگردوں کا کوئی ذکر نہیں ہوا۔ اس کی فوری طور پر تصحیح کی جائے۔‘‘
سن 2010 سے 2015 تک کے پانچ برسوں کے دوران پاکستان کو سب سے زیادہ ترقیاتی امداد امریکا نے دی۔ ترقیاتی منصوبوں کے لیے ان پانچ برسوں میں امریکا نے پاکستان کو 3935 ملین ڈالر فراہم کیے۔
نیوز ایجنسی روئٹرز نے اس حوالے سے اسلام آباد میں امریکی سفارت خانے کا موقف جاننے کی کوشش کی، تاہم سفارت خانے نے کوئی جواب نہیں دیا۔
جمعرات تیئس اگست کے روز ہی امریکی وزارت خارجہ کی خاتون ترجمان ہیدر نوئرٹ کی پریس کانفرنس کے دوران امریکی صحافیوں نے پاکستانی موقف کے حوالے سے ان سے کئی سوالات پوچھے تو نوئرٹ کا کہنا تھا کہ امریکی دفتر خارجہ اپنے بیان پر قائم ہے۔ تاہم انہوں نے پاکستانی موقف پر تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا۔
دوسری جانب پاکستانی صحافی طلعت حسین سمیت کئی افراد نے مائکرو بلاگنگ ویب سائٹ ٹوئٹر پر اسلام آباد حکومت سے مطالبہ کیا کہ دونوں رہنماؤں کے مابین ہونے والی مکمل گفتگو تحریری صورت میں جاری کی جائے تاکہ سب کو معلوم ہو پائے کہ کس نے کیا بات کی تھی۔