اسلام آباد (جیوڈیسک) پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ پاکستان و امریکہ کے تعلقات ماضی جیسے نہیں رہے؛ اور ان کے بقول، ’’انہیں اسی سطح پر واپس لانے کے لیے اسلام آباد اور واشنگٹن کو افغانستان کے تناظر میں ایک دوسرے کی ضروریات اور تقاضوں کو سمجھنا ہو گا‘‘۔
وزیر خارجہ نے مزید کہا کہ “اگر امریکہ کے ساتھ تعلقات کو وسعت دینا چاہتے ہیں، ان کو سمجھنے کی بھی ضرورت ہے اور افغانستان کے تناظر میں ان کی ضروریات ہیں جن کو سمجھنا ہوگا اور جو ہمارے تقاضے ہیں وہ ہمیں سمجھانے ہوں گے۔”
اُنہوں نے یہ بات جمعے کے روز ایک اخباری کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کی۔ اِس سے قبل، وزیر اعظم عمران خان نے جمعے کو وزارت خارجہ کا دورہ کیا جہاں اُنھیں سیکرٹری خارجہ تہمینہ جنوعہ اور دیگر اعلٰی حکام نے خارجہ پالیسی سے متعلق تفصیلی بریفنگ دی۔
پاک امریکہ تعلقات کا ذکر کرتے ہوئے وزیر خارجہ نے کہا کہ “دو طرفہ تعلقات کی اہمیت سے کوئی غافل نہیں ہے۔ ہمارے طویل عرصے تک تعلقات رہے ہیں ان میں اتار چڑھاؤ بھی رہا ہے۔ لیکن، یہ اہم دو طرفہ تعلقات ہیں۔”
انہوں نے مزید کہا کہ جمعے کو وزرات خارجہ کی بریفنگ کے دورن وزیر اعظم عمران خان کو آگاہ کیا گیا کہ “امریکہ کے ساتھ تعلقات واپس اس سطح پر لانے کے لیے افغانستان اور وہاں پر جو ان (واشنگٹن) کی ضروریات ہیں، ان کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ آپ جانتے ہیں کہ وہاں ان کی موجودگی بھی اور وہاں ان کی بے پناہ ضرورت ہے۔”
انہوں نے امریکہ کے وزیر خارجہ مائیک پومپیو کی پانچ ستمر کو اسلام آباد میں متوقع آمد کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ “میں یہ سمجھتا ہوں کہ عمران خان کی نئی حکومت کےآغاز سے امریکہ کا فوری رابطہ مفید ثابت ہو سکتا ہے اور میں ان کا منتظر ہوں اور جب (مائیک پومپیو) آئیں گے تو ان کی ساتھ مزید بات چیت ہوگی۔”
مائیک پومپیو اور وزیر اعظم عمران خان کے درمیان ہونے والی فون کال سے وضاحت کرتے ہوئے شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ’’امریکی محکمہٴ خارجہ نے ٹیلی فون کال پر جو بیان جاری کیا گیا ہے، وہ حقیقت کے برعکس ہے‘‘۔
انہوں نے کہا کہ اس فون کال کے بارے میں “جو تاثر آیا ہے اور جو وہ ذکر کر رہے ہیں کہ انہوں (مائیک پومپیو ) نے پاکستان میں سرگرم دہشت گردوں کا تذکرہ کیا یہ حقیقت کے برعکس ہے‘‘۔
شاہ محمود قریشی نے کہا کہ امریکہ کے وزیر خارجہ اور وزیر اعظم پاکستان کے درمیان جو گفتگو ہوئی، وہ، ان کے بقول، ’’آپ جان کر حیران ہوں گے کہ وہ بہت اچھی ہوئی‘‘۔
اُنہوں نے کہا کہ “مائیک پومپیو نے وزیر اعظم عمران کو ناصرف مبارک باد دی اور کہا کہ وہ پاکستان کی نئی حکومت سے ایک تعمیری بات چیت چاہتے ہیں اور تعمیری باہمی تعلقات کے خواہاں ہیں۔”
شاہ محمود نے کہا کہ ’’جہاں جہاں اسلام آباد اور واشنگٹن کے تعلقات مشترک ہوں گے، ان کے تناظر میں پیش رفت کی جائے گی‘‘۔
پاک بھارت مذاکرات کو ’’اہم‘‘ قرار دیتے ہوئے، پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ ’’امن ہماری ضرورت ہے‘‘۔
جمعے کے روز اخباری کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے، اُنھوں نے کہا کہ ’’امریکہ اور پاکستان کے دو طرفہ تعلقات اہم ہیں۔ ہماری طویل دو طرفہ پارٹنرشپ ہے، جس میں اتار چڑھاؤ آتا رہا ہے‘‘۔
شاہ محمود قریشی نے کہا کہ امریکہ کے ساتھ تعلقات کو وسعت دینے کے لیے ’’ہمیں اُن کی ضروریات کو سمجھنا ہوگا اور ہمارے تقاضے اُنہیں سمجھانے ہوں گے‘‘۔
اُنھوں نے کہا کہ ’’وقت بدل گیا ہے اور دنیا ’بائی پولر‘ ہوگئی ہے‘‘؛ اور یوں لگتا ہے کہ ’’پاکستان اب مغرب کا محبوب نہیں رہا‘‘۔
پانچ ستمبر کو امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو کا دورہٴ پاکستان متوقع ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ ’’چین اور پاکستان کی دوستی مثالی ہے، 8 اور 9 ستمبر کو چینی وزیر خارجہ پاکستان آئیں گے‘‘۔
’سارک‘ کا ذکر کرتے ہوئے، شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ’’میری نظر میں، یہ ایک اہم فورم ہے؛ جسے ہم خطے میں امن کے لیے ضروری سمجھتے ہیں؛ جسے فعال کیا جانا ضروری ہے‘‘۔
پاک بھارت تعلقات کا ذکر کرتے ہوئے، اُنھوں نے کہا کہ ’’کشمیر ایک ’کور ایشو‘ ہے۔ مگر اور بھی ایشوز ہیں، جیسا کہ پانی کا مسئلہ، جو پہلے دور میں منموہن سے بھی کہا (کہ اسے حل ہونا ہے)۔ ہمارا خطہ پانی کی قلت کی طرف بڑھ رہا ہے اور اس پر بات کرنی چاہئے‘‘۔
اُنھوں کہا کہ مسائل کو بات چیت سے حل کرنے کی ضرورت ہے؛ جس کے لیے عملی اقدام لازم ہیں۔