کراچی (جیوڈیسک) ایف آئی اے نے منی لانڈرنگ کیس میں تحقیقات کیلئے آصف زرداری اور فریال تالپور کو ایک بار پھر طلب کر لیا۔
کراچی کی بینکنگ عدالت نے 17 اگست کو منی لانڈرنگ کیس کی سماعت کے دوران ایف آئی اے کی استدعا منظور کرتے ہوئے سابق صدر آصف زرداری سمیت دیگر مفرور ملزمان کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کیے تھے جب کہ عدالت نے تمام ملزمان کو 4 ستمبر تک گرفتار کرنے کا حکم دیا۔
عدالت کی جانب سے ناقابل ضمانت وارنٹ جاری ہونے کے بعد آصف زرداری نے اسلام آباد ہائیکورٹ سے حفاظتی ضمانت حاصل کرلی جب کہ ان کی ہمشیرہ فریال تالپور نے پہلے ہی حفاظت ضمانت حاصل کرلی ہے۔
سپریم کورٹ نے جعلی بینک اکاؤنٹس سے منی لانڈرنگ کے کیس میں تمام ملزمان کو ایف آئی اے کے سامنے پیش ہونے کا حکم دے رکھا ہے۔
وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) نے منی لانڈرنگ کیس میں تحقیقات کے لیے آصف زرداری اور فریال تالپور کو ایک بار پھر طلب کرلیا جس کے لیے انہیں نوٹسز بھی جاری کردیئے گئے ہیں۔
ایف آئی اے نے دونوں رہنماؤں کو 27 اگست کو ایف آئی اے ہیڈ کوارٹر اسلام آباد طلب کیا ہے۔
ایف آئی اے کی جانب سے آصف زرداری اور فریال تالپور کو چوتھی بار طلب کیا گیا ہے، اس سے قبل بھی طلب کیے جانے کے باوجود دونوں شخصیات ایف آئی اے کی جے آئی ٹی کے روبرو پیش نہیں ہوئیں۔
واضح رہےکہ منی لانڈرنگ کیس میں سابق صدر آصف زرداری کے قریبی ساتھی نجی بینک کے سربراہ حسین لوائی اور اومنی گروپ کے سربراہ انور مجید کو ایف آئی اے گرفتار کرچکی ہے جن سے تحقیقات جاری ہیں۔
ایف آئی اے حکام نے جیو نیوز کو بتایا کہ منی لانڈنگ کیس 2015 میں پہلی دفعہ اسٹیٹ بینک کی جانب سے اٹھایا گیا، اسٹیٹ بینک کی جانب سے ایف آئی اے کو مشکوک ترسیلات کی رپورٹ یعنی ایس ٹی آرز بھیجی گئیں۔
حکام کے دعوے کے مطابق جعلی اکاؤنٹس بینک منیجرز نے انتظامیہ اور انتظامیہ نے اومنی گروپ کے کہنے پر کھولے اور یہ تمام اکاؤنٹس 2013 سے 2015 کے دوران 6 سے 10 مہینوں کے لیے کھولے گئے جن کے ذریعے منی لانڈرنگ کی گئی اور دستیاب دستاویزات کے مطابق منی لانڈرنگ کی رقم 35ارب روپے ہے۔
مشکوک ترسیلات کی رپورٹ پر ڈائریکٹر ایف آئی اے سندھ کے حکم پر انکوائری ہوئی اور مارچ 2015 میں چار بینک اکاؤنٹس مشکوک ترسیلات میں ملوث پائے گئے۔
ایف آئی اے حکام کے دعوے کے مطابق تمام بینک اکاؤنٹس اومنی گروپ کے پائے گئے، انکوائری میں مقدمہ درج کرنے کی سفارش ہوئی تاہم مبینہ طور پر دباؤ کے باعث اس وقت کوئی مقدمہ نہ ہوا بلکہ انکوائری بھی روک دی گئی۔
دسمبر 2017 میں ایک بار پھر اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے ایس ٹی آرز بھیجی گئیں، اس رپورٹ میں مشکوک ترسیلات جن اکاؤنٹس سے ہوئی ان کی تعداد 29 تھی جس میں سے سمٹ بینک کے 16، سندھ بینک کے 8 اور یو بی ایل کے 5 اکاؤنٹس ہیں۔
ان 29 اکاؤنٹس میں 2015 میں بھیجی گئی ایس ٹی آرز والے چار اکاؤنٹس بھی شامل تھے۔ 21 جنوری 2018 کو ایک بار پھر انکوائری کا آغاز کیا گیا۔
تحقیقات میں ابتداء میں صرف بینک ملازمین سے پوچھ گچھ کی گئی، انکوائری کے بعد زین ملک، اسلم مسعود، عارف خان، حسین لوائی، ناصر لوتھا، طحٰہ رضا، انور مجید، اے جی مجید سمیت دیگر کو نوٹس جاری کیے گئے جبکہ ان کا نام اسٹاپ لسٹ میں بھی ڈالا گیا۔
ایف آئی اے حکام کے مطابق تمام بینکوں سے ریکارڈ طلب کیے گئے لیکن انہیں ریکارڈ نہیں دیا گیا، سمٹ بینک نے صرف ایک اکاؤنٹ اے ون انٹرنیشنل کا ریکارڈ فراہم کیا جس پر مقدمہ درج کیا گیا۔
حکام نے مزید بتایا کہ اسٹیٹ بینک کی جانب سے سمٹ بنک کو ایکوٹی جمع کروانے کا نوٹس دیا گیا، سمٹ بینک کے چیئرمین ناصر لوتھا کے اکاؤنٹس میں 7 ارب روپے بھیجے گئے، یہ رقم اے ون انٹرنیشنل کے اکاؤنٹ سے ناصر لوتھا کے اکاونٹ میں بھیجی گئی تھی۔
ناصر لوتھا نے یہ رقم ایکوٹی کے طور پر اسٹیٹ بینک میں جمع کروائی، ان 29 اکاؤنٹس میں 2 سے 3 کمپنیاں اور کچھ شخصیات رقم جمع کرواتی رہیں۔
حکام نے بتایا کہ تحقیقات کے بعد ایسا لگتا ہے کہ جو رقم جمع کروائی گئی وہ ناجائز ذرائع سے حاصل کی گئی، ان تمام تحقیقات کے بعد جعلی اکاؤنٹس اور منی لانڈرنگ کا مقدمہ درج کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔
اومنی گروپ کے مالک انور مجید اور سمٹ بینک انتظامیہ پر جعلی اکاؤنٹس اور منی لاڈرنگ کا مقدمہ کیا گیا جبکہ دیگر افراد کو منی لانڈرنگ کی دفعات کے تحت اسی مقدمے میں شامل کیا گیا۔