ایشیاء و یورپ دونوں اطراف پر واقع ملک ترکی جس کا داروالحکومت استنبول یورپ میں واقع ہے، ترکی چونکہ طویل عرصے تک مسلمان ملک ہونے کے باوجود اسلام مخالف رہا اور غیروں کی نقش قدم پر چلتا رہا ، گزشتہ چند سالوں سے ترکی کی قیادت ایسے لوگوں کے ہاتھوں میں آگئی ہے جو کہ اسلام پسند بھی ہیںاور ڈھنکے کی چوٹ پر اسلام و مسلمانوں کی تحفظ کی بات بھی کرتے ہیں۔ دنیا بھر میں جہاں مسلمانوں کے ساتھ ظلم و ستم ہو ان کی داد درسی کے لیے ضرور جاتے ہیں۔ اس کے ساتھ انہوں نے ترکی کی معیشت کو مضبوط کرنے اسے داخلی و خارجی طور پر مستحکم کرنے اوترکی کی عوام کو متحد، بیدار اور غیور بنانے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی۔ ترکی جس کا ماضی یہ رہا ہے کہ اس نے بڑے عرصے تک عالم اسلام کی قیادت کی ہے اور حالیہ تناظر میں اگر معاملہ یوں ہی چلتا رہا تو 2023 ء کے بعد جب وہ ذلیل معاہدہ ختم ہو گا تو پھر ترکی کو لمبی اڑان بھرنے اور اسی منصب پر واپس آنے سے روک پانا تقریبا ًناممکن ہو گا، یہی وہ چیزہے جو مغربی ممالک اور خاص کر امریکہ کو ایک آنکھ نہیں بھا رہی ہے۔
حالیہ ترک انتخابات میں ایک اسلام پسند شخص کی جیت اور ترکی میں پہلی بارصدارتی نظام نافذ ہونے کے بعد ترکی کے خلاف امریکا کھل کر سامنے آگیا ہے۔ جس کے بعد امریکا ترکی معیشت پر کھل کر حملہ زن ہوگیا ہے، امریکا کی جانب سے ترک کرنسی”لیرا ”پرمسلسل حملے جاری ہیں۔ترکی کے معیشت کا گلا گھونٹنے کی دھمکی دیکر امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے ایک بار پھر یہ باور کرادیا ہے کہ عالم اسلام میں اس کا تازہ ترین نشانہ ترکی ہی ہے اور وہ اس کے خلاف محاذ آرائی کے در کو کھولنے کی کوشش کررہا ہے۔ اس سے قبل ایک ایک کرکے وہ متعدد اسلامیممالک کو نشانہ بنا چکا ہے اور اس وقت بھی کئی اسلامی ممالک اس کے نشانہ پر ہیں۔ لیکن اس وقت ان ممالک کے برخلاف ترکی کا معاملہ کافی اہمیت کا حامل ہے۔ در اصل جب سے ترکی نے اسلام کی سمت قدم بڑھانا شروع کیا اسی وقت سے وہ بین الاقوامی سطح پر سپر پاور طاقت کی آنکھوں میں کھٹکنے لگا تھاحالانکہ وہ اس کا اتحادی اور ناٹو کا اہم حصہ بھی ہے۔ ترکی کے اس بدلتے ہوئے رخ کو روکنے اور اس کو اس کے پرانے رخ کی طرف واپس لے جانے کی ایک نہیں بار بار کوششیں ہوتی رہی ہیں لیکن اس کے موجودہ صدررجب طیب اردغان کے وہاں کی سیاست پر نمودار ہونے کے بعد سے سپر پاور اور اس کی ہم خیال طاقتوں کو تسلسل کے ساتھ ناکامی اور پسپائی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
ظاہر سی بات ہے کہ اس صورت حال پر سپرپاور کا آگ بھگولہ ہوجانا اور اندر ہی اندر دہکتے رہنا ایک فطری عمل ہوگا۔ اب ایک معاملہ کو بہانہ بنا کر وہ اپنا اصل چہرہ سامنے لارہا ہے۔ معاملہ بھی آج کا نہیں ہے بلکہ اکتوبر 2016ء میں دہشت گردانہ سرگرمیوں اور ترکی کے خلاف جاسوسی سے اس کا تعلق ہے۔ظاہراً امریکا و ترکی کے درمیان معاشی جنگ کا سبب ترکی میں گرفتار امریکی نژاد پادری اینڈریوبرنسن ہے، جنہیں کو ترکی میں ہونے والی ناکام فوجی بغاوت میں ملوث ہونے پر دہشت گردی اور غداری کے مقدمات کا سامنا ہے۔
ترکی صدارتی ترجمان نے کہا کہ ترکی امریکا سے معاشی جنگ نہیں چاہتا،لیکن اگر امریکا یک طرفہ اقدامات کرے گا تو ترکی جواب دے گا۔ان کا مزید کہنا تھا کہ امریکی پابندیوں سے ترکی کی معیشت کو زیادہ نقصان نہیں پہنچایا جاسکتا۔دوسری جانب ترکی کے حلیف ممالک نے ترکی کو معاشی چینلجز سے نمٹنے کے لیے بھرپورمالی اورسفارتی مدد کا یقین دلایا ہے۔قطر کے بادشاہ امیرتمیم نے اپنے حالیہ دورہ ترکی کے موقع پر رجب طیب اردوغان کے ساتھ ملاقات کے بعد اعلان کیا کہ قطر ترکی کومعاشی مشکلات سے نکالنے کے لیے ہنگامی طور پر 15ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرے گا۔قطری میڈیا کے مطابق قطر کی ترکی میں سرمایہ کاری 55ارب ڈالر تک ہے۔جب کہ دونوں ملکوں کے درمیان گزشتہ سال ڈھائی بلین ڈالرسے زائد کی تجارت بھی ہوئی۔ قطر اور کویت کے علاوہ دیگر ممالک نے بھی ترکی کی معیشت کو سہارا دینے کا عزم ظاہر کیا،جن میں جرمنی کی انجیلامرکل نے کہا ترکی کی معیشت کی مضبوطی ہمارے لیے بہت ضروری ہے۔ادھر روس نے بھی ترکی پر امریکی معاشی حملوں کے حوالے سے ترکی کو مکمل تعاون کی یقین دہانی کروائی ہے۔
بین الاقوامی تعلقات کے ماہرین کے مطابق ترکی اورامریکا کے درمیان جاری حالیہ تنائو کی ظاہراً ترکی میں گرفتارا مریکی پادری ہیں،لیکن درحقیت ترکی کا خطے میں بڑھتاہوا اثر و رسوخ اور ترکی کے علاقائی ممالک سے بڑھتے تعلقات دونوں ملکوں کے درمیان تنائو کی اصل وجہ ہیں۔چنانچہ ترکی کا روس سے”ایس 400 میزائل ڈیفنس سسٹم کی خریداری، امریکا کا 2016ء کی ناکام فوجی بغاوت کے مبینہ ماسٹر مائنڈ فتح اللہ گولن کی حوالگی سے انکار،شام میں ترک مخالف کرد باغیوں کی امریکی حمایت سمیت دیگر بہت سارے اہم ایشوز ہیں جن کی وجہ سے دونوں ملکوں کے تعلقات میں تنائوبڑھ رہاہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ کی حکومت کی جانب سے ترکی کے علاوہ چین اوروطن عزیز پاکستان پر بھی معاشی حملے کیے جارہے ہیں۔جواب میں چین اورپاکستان نے بھی امریکا کو ترکی کی زبان میں جواب دیاہے۔سوال یہ ہے کہ امریکا کی موجودہ حکومت کے جارحانہ رویوں سے ترکی،پاکستان،چین اور دیگر ممالک کو نقصان پہنچایاجارہاہے یاپھر امریکا اپنے جارحانہ رویوں کی وجہ سے خود اپنے پائوں پر کلہاڑی ماررہاہے؟
خطے کی حالیہ صورت حال کا جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ خطے کا اہم ملک روس ان دنوں اپنے ماضی شکست کو بھلا کر پاکستان سمیت دیگر علاقائی ممالک کے ساتھ تعلقات مضبوط کررہاہے۔ روس جس کی سب سے بڑی خواہش گرم پانی ہے اس کے لیے چالیس سال قبل افغانستان پر حملہ زن بھی ہوا تھا ،وہ افغانستان کے راستے پاکستان کے صوبے بلوچستان سے ہوتے ہوئے گرم پانی یعنی پاکستانی سمندری حدود پر قابض ہونا چاہتا تھا اب یہ خواہش پاک چین مشترکہ منصوبے سی پیک میں پورا ہوتا نظر آرہاہے اسی خواہش کی تکمیل کے لیے کہ سی پیک میں شامل ہوکر تجارتی تعلقات کو بھی مضبوط کیا جائے پاکستان کے ساتھ بھر پور تعاون کررہاہے پاک فوج کے ساتھ مشترکہ جنگی مشقیں اور دیگر امور اسی کا حصہ ہیں۔ ادھرروس افغانستان میں بھی اپنا اعتماد بحال کرنے کی کوشش کررہاہے۔ظاہر ہے روس کے ابھرنے سے خطے میں جہاں امریکا کا اثرورسوخ ختم ہوگا وہیں امریکی مفادات کو بھی زبردست دھچکا لگے گا،جو امریکا کو کسی صورت برداشت نہیں۔اس لیے امریکا آئے روز خطے کے ممالک کو اپنے ماتحت رکھنے کے لیے نئے ہتھکنڈے آزما رہاہے ۔لیکن شاید امریکاکو معلوم نہیں کہ اب دنیا کے ممالک برابری کی سطح پر تعلقات چاہتے ہیں،کچھ لو اور کچھ دو کے فلسفے پر ممالک عمل پیرا ہیں۔یہی وجہ ہے کہ اب پاکستان سمیت دنیا کے کئی ممالک امریکی دبائوسے نکلتے جارہے ہیں۔
مستقبل میں اگے جاکر جلد ہی امریکااپنی طاقت کھو دیگا اور امریکی ظلم و جبر سے دنیا کو نجات مل جایگی ، مگر کیا اس کے بعد جو دوسرا ملک سپر پائور بن کر ابھرے گا کیا وہ بھی مسلمانوں اور مسلم ممالک پر یوں ہی اوچھے ہتھکنڈے آزمایگا؟ظاہراً امریکا کے بعد چین ہی اس کرسی پر بیٹھے گا کیوں کہ چین ایک مضبوط معیشت ہے اور اب دنیا پر وہی راج کرے گا جس کی معیشت مضبوط ہوگی ،دنیا کے پاس اس وقت بھی چینی مصنوعات کا کوئی توڑ نہیں ہے،آنے والے دنوں میں چین کاعالمی معیشت پر غلبہ اس قدر ہوجائے گا کہ شاید ہی کوئی ملک چین کا مقابلہ کر سکے۔ معیشت کی مضبوطی کا انحصار داخلی سلامتی، مضبوط اور مساوی خارجہ پالیسی پر ہوتاہے۔ تر کی اور پاکستان دونوں اسے ممالک ہے جن کے پڑوس میں جنگ کی آگ گزشتہ کئی سالوں سے لگی ہے دونوں ہی اپنی پڑوسی ممالک کے لاکھوں پناہ گزین سمائے ہوئے ہیں ۔ اس کے ساتھ دہشت گردی جیسے فتنے سے بھی نبر آزمہ ہے۔ مگر اللہ تعالیٰ پر توکل ہی ان ممالک کو اس معاملات سے نجات دھلا سکتی ہیں۔ اگر یہ معاملات نہ ہوتے تو کسی کو کیا مجال کے ان سے سپر پائور کی کرسی اپنے قبضے میں لے سکے۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ یااللہ مسلمانوں کی غیبی مدد فرما(آمین)