پاکستان کے نئے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اپنے عہدے کا حلف اٹھاتے ہی پہلی پریس بریفنگ میں خارجہ پالیسی کا ازسر نو جائزہ لینے اور سفارتی مشنز کی بلاجواز اکھاڑ پچھاڑ نہ کرنے کا عندیہ دیا ہے۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی حکمراں جماعت میں ایک اہم مقام رکھتے ہیں ۔ پاکستان مسلم لیگ سے پاکستان پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف میں آنے والے شاہ محمود قریشی پاکستان پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں بھی وزیر خارجہ رہ چکے ہیں اور انہیں پاکستان کو درپیش خارجی معاملات پر مشکلات کا ادارک ہے۔ پاکستان کے لئے سب سے بڑا مسئلہ اس وقت امریکی انتظامیہ بنی ہوئی ہے او ر نئی حکومت کو بھی امریکی انتظامیہ نے اپنے پیغام میں سابقہ رویوں کو ہی دوہرایا ہے۔
امریکی اعلیٰ عہدے دار نے امریکی پالیسی کے عنوان سے صحافیوں کے سوالات کے جوابات دیتے ہوئے ایک مرتبہ پھر پاکستان پر الزام لگایا ہے کہ دہشت گرد گروپ پاکستان کی سر زمین میں موجود ہیں ۔ امریکا نے زور دیتے ہوئے یہ بھی کہا ہے کہ وہ دہشت گردوں کے خلاف کاروائی کرے یا افغانستان دھکیلے۔ اپنی گفتگو میں امریکی محکمہ خارجہ کی اعلیٰ عہدیدار کا کہنا تھا کہ امریکہ پاکستان کی نئی حکومت کے ساتھ مل کر کام کرنے کا خواہاں ہے اور امریکی حکومت ”پاکستان کی سرحدوں کے دونوں جانب امن کی اہمیت سے متعلق وزیرِ اعظم عمران خان کے بیان کا خیرمقدم کرتی ہے۔”افغانستان اور خطے میں سکیورٹی کی صورتِ حال سے متعلق ایک سوال پر ایلس ویلز کا کہنا تھا کہ افغانستان کی صورتِ حال میں بہتری کے لیے پاکستان کا کردار بہت بنیادی ہے۔انہوں نے کہا کہ امریکہ پاکستان پر زور دیتا آیا ہے کہ وہ یا تو (افغان)طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے کے لیے سخت اقدامات کرے یا پھر انہیں اپنی سرزمین سے بے دخل کرکے واپس افغانستان جانے پر مجبور کرے۔ امریکی عہدے دار نے ایک مرتبہ پر خطے میں بھارت کے کردار کو بڑھانے کی ضرورت پر زور دیا ہے ۔ پاکستانی حکام ان الزامات کی تردید کرتے آئے ہیں اور ان کا موقف ہے کہ گزشتہ چند برسوں کے دوران سرحدی علاقوں میں پاکستانی فوج کی کارروائیوں کے بعد ایسے تمام مبینہ ٹھکانے ختم کیے جاچکے ہیں۔لیکن امریکا پاکستان کے موقف پر اپنی ضد اور ڈومور کو ترجیح دیتے ہوئے پاکستان پر دبائو بڑھانے کی ہر سطح پر کوشش کررہا ہے۔ امریکی وزیرِ خارجہ مائیک پومپیو ستمبر کے پہلے ہفتے میں پاکستان کا دورہ کرنے کی اطلاعات بھی سامنے آئی ہیں گو کہ ابھی تک حتمی تاریخ کا سرکاری سطح پر اعلان نہیں کیا گیا تاہم مغربی ابلاغ کے مطابق امریکی وزیر خارجہ کا متوقع دورہ5ستمبر کو متوقع ہے۔ پاکستان کی سیکریٹری خارجہ تہمینہ جنجوعہ کے مطابق دورے کی تفصیلات طے کی جا رہی ہیں۔
وزیر اعظم پاکستان عمران خان کے لئے امریکا کی جانب سے جارحانہ بیانات اور اہم عہدے دار کی متوقع آمد نہایت اہمیت کی حامل تصور کی جا رہی ہے۔ دیکھنا یہ ہوگا کہ نومنتخب وزیر اعظم ماضی کے حکمرانوں کی طرح امریکا کے ڈومور کا جواب کس انداز میں دیتے ہیں۔ تاہم اپنی دو تقاریر میں عمران خان نے امریکا کے ساتھ تعلقات کی نوعیت کو برابری کی سطح پر قائم رکھنے کا عندیہ دیا تھا ۔ لیکن گذشتہ حکومتوں کے بھی اس قسم بیانات سامنے آتے رہے ہیں۔ نئی حکومت کے لئے امریکی انتظامیہ کا رویہ کس قدر معاوندانہ ہوتا ہے اس کا اندازہ تو امریکی عہدے داروں کے بیانات سے ہورہا ہے کہ امریکا پاکستان کو درپیش معاشی دشواریوں کی آڑ میں دبائو بڑھا کر ماضی کی طرح مطالبات کو منوانے کی کوشش کرسکتا ہے۔ نئی حکومت سے اس بات کی توقع تو نہیں کی جاسکتی کہ وہ امریکا کے ساتھ اپنے تعلقات کو خراب کرنے کے لئے سرد و سخت عمل کا مظاہرہ کرے گی کیونکہ پاکستانی معیشت بہرحال اس وقت امریکی مالیاتی اداروں کے چنگل میں ہیں اور کسی بھی معاشی کمزور حکومت کے لئے اس وقت سخت اقدامات لینا نہایت دشوار گذار فیصلہ ہوگا۔
وزیر اعظم پاکستان نے پُرخار وادی میں قدم رکھ دیا ہے اور اب ان کے وزیر خارجہ کا امتحان ہے کہ وہ امریکا کو کس طرح مطمئن کرپاتے ہیں کہ پاکستان میں دہشت گردوں کے ٹھکانے موجود نہیں ہیں۔ سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف اور عسکری قیادت تو کئی بار امریکا کو باور کراچکے ہیں کہ پاکستان میں دہشت گردوں کی پناہ گاہوں کا قلع قمع کیا جاچکا ہے لیکن افغانستان میں پاکستان کی بقا و سلامتی کے دشمن بہرحال موجود ہیں۔ جن کے خلاف امریکا اور افغانستان کی دوہری حکومت قابل ذکر کوئی کردار ادا نہیں کررہی۔ عام انتخابات میں افغانستان کی سرزمین میں موجود دہشت گرد تنظیموں نے پاکستانیوں کا بڑا جانی نقصان کیا تھا ۔ لیکن اس کے باوجود پاکستان کے خلاف امریکا اور افغانستان کی ہرزہ سرائی میں کمی واقع نہیں ہو رہی۔ کابل میں حالیہ دھماکوں کا الزام کابل حکومت نے ایک مرتبہ پھر پاکستان پر عائد کرتے ہوئے اعتماد کی فضا کو نقصان پہنچایا ہے۔ کابل حکومت افغان طالبان کی بڑھتی قوت سے سخت خوف زدہ ہوچکی ہے ۔
افغان طالبان جب چاہتے ہیں کسی بھی شہر میں بڑا حملہ کرکے افغان سیکورٹی فورسز کو شدید نقصان پہنچاتے ہیں۔اور حملے کے بعد اپنی قوت کا مظاہرہ کرکے واپس اپنی محفوظ پناہ گاہوں میں بھی چلے جاتے ہیں۔ یہ عمل کابل حکومت اور امریکی انتظامیہ کے لئے دنیا بھر میں سبکی کا باعث بنا ہوا ہے ۔ افغانستان کا دارالحکومت کا صدراتی محل بھی اب مزاحمت کاروں کے حملوں سے محفوظ نہیں رہا ہے۔ افغانستان کی 99ویں یوم آزادی کی تقریبات اور صدارتی محل میں صدر اشرف غنی کی تقریر کے دوران مسلح راکٹ حملوں سے دنیا بھر یہ پیغام ایک مرتبہ پھر گیا کہ کابل دوہری حکومت کی عمل داری مکمل طور پر کمزور ہوچکی ہے۔ امریکی انتظامیہ بھی افغانستان کی موجودہ صورتحال سے سخت نالاں ہوچکی ہے اور مغربی ذرائع ابلاغ سے موصولہ خبروں کے مطابق ایک بار پھر یہ اطلاعات سامنے آرہی ہیں کہ افغانستان کی جنگ سے امریکی فوجیوں کی جگہ پرائیوٹ سیکورٹی ادارے کو ٹھیکہ دے دیا جائے۔ کرائے کے یہ فوج عراق میں بلیک واٹر کے نام سے استعمال ہوچکے ہیں لیکن انسانی حقوق کی سخت خلاف ورزیوں کی وجہ سے بلیک واٹر کو سفاک و بدترین قاتلوں کی دہشت گرد تنظیم قرار دیا گیا۔
مغربی ذرائع ابلاغ سے موصولہ اطلاعات کے مطابق ایرک پرنس نے بلیک واٹر کمپنی بیچ کر ایک نئی سیکیورٹی کمپنی قائم کر لی۔اور اب وہ اس کے لیے افغانستان کا کنٹریکٹ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ ارب پتی امریکی کاروباری شخصیت ایرک پرنس نے افغانستان میں امریکہ کی جنگ پرائیویٹ کمپنی کو دینے کی تجویز پیش کی ہے جس پر اطلاعات کے مطابق ٹرمپ انتظامیہ دلچسپی لے رہی ہے جب کہ کئی عہدے دار اس تجویز کو گمراہ کن قرار دے رہے ہیں۔ ایرک پرنس افغانستان کی جنگ ٹھیکے پر حاصل کرنے کے لئے باقاعدہ میڈیا مہم چلا رہا ہے ۔ ایرک پرنس افغانستان کی جنگ میں 45ارب ڈالر سالانہ امریکی اخراجات کی جگہ 10ارب ڈالر اور 90 پرائیوٹ طیاروں کے ساتھ کام کرنے کی تجویز امریکا کو دے رہا ہے ۔ ایرک پرنس گزشتہ ایک برس سے اپنے منصوبے پر امریکی انتظامیہ کو قائل کرنے کی کوشش کررہا ہے اور مغربی ذرائع ابلاغ کے مطابق امریکی صدر ٹرمپ نے امریکی فوجیوں کی ناکامی اور بھاری اخراجات کی لاحاصل جنگ سے باہر نکلنے کے لئے ایرک پرنس کی تجویز پر غور کرنا شروع کردیا ہے۔
نئی افغان حکمت عملی کا ایک سال مکمل ہونے اور مطلوبہ نتائج حاصل کرنے میں ناکامی کی وجہ سے ایرک پرنس کو امید ہے کہ اس بار ان کا منصوبہ توجہ حاصل کرنے میں کامیاب رہے گا۔این بی سی نیوز نے پچھلے ہفتے اپنی ایک رپورٹ میں بتایا تھا کہ صدر ٹرمپ پرنس کی نئی ویڈیو سے متاثر دکھائی دیتے ہیں اور نیوی سیل کے سابق عہدے دار کے منصوبے میں دلچسپی لے رہے ہیں کیونکہ انہیں افغانستان میں امریکی حکمت عملی ناکام ہوتی ہوئی نظر آ رہی ہے۔ اطلاعات کے مطابق اگر پرنس افغان جنگ کا ٹھیکہ حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو ہزاروں امریکی فوجی اپنے گھروں کو واپس چلے جائیں گے اور ان کی جگہ نسبتاً کم تعداد میں پرائیویٹ سیکیورٹی اہل کار لے لیں گے جنہیں 90 طیاروں پر مشتمل ایک پرائیویٹ ایئر فورس کی مدد حاصل ہو گی۔پرنس کا کہنا ہے کہ ان کی پرائیویٹ سیکیورٹی کمپنی امریکہ کی افغانستان حکمت عملی کو آگے بڑھائے گی اور پرنس کے بقول ان کی کمپنی افغانستان میں امریکہ کے ایک وائسرائے کے طور پر کام کرے گی۔
پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی امریکا کے ساتھ تعلقات کی سرد مہری کو کس طرح کم کرسکتے ہیں اس کا باقاعدہ لائحہ عمل سامنے نہیں آیا ہے۔ نئی حکومت کی جانب سے مستقبل کی پالیسیوں کے حوالے بڑے دعوے تو سامنے آرہے ہیں لیکن زمینی حقائق کے مطابق لائحہ عمل کا ایسا کوئی منصوبہ بہرحال نہیں آسکا ہے جس کے بعد یہ رائے قائم کی جاسکے کہ پاک ۔ امریکا تعلقات میں تنائو کم ہوسکتا ہے۔ نومنتخب وزیر اعظم کی جانب سے یہ اعلان بھی سامنے آچکا ہے کہ وہ تین مہینے دوران کسی بیرون ملک دورے پر بھی نہیں جائیں گے۔ گو کہ وزیر اعظم کا حلف اٹھانے سے قبل عمران خان کو بھارت ، افغانستان ، ایران او ر پھر چین سمیت دیگر ممالک سے دورے کی دعوت مل چکی ہے۔ اقوام متحدہ کے آئندہ ماہ اجلاس میں بھی پاکستانی وفد کی قیادت وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی ہی کریں گے ۔ اقوام متحدہ میں پاکستانی مندوب ملیحہ لودھی نومنتخب وزیر اعظم سے بنی گالہ میں ملاقات کرچکی تھی جس میں انہوں نے اقوام متحدہ کے اجلاس کے حوالے سے بریفنگ بھی دی تھی۔ تاہم اس وقت پاکستان جن مسائل کا شکار ہے اس سے باہر نکلنے کے لئے پاکستان کی نئی حکومت کو ابتدا ہی میں بڑے سفارتی چیلنج کا سامنا کرنا پڑگیا ہے۔
افغانستان میں تیزی سے تبدیل ہوتی صورتحال اور کابل دوہری حکومت کی عسکری کمزوریوں اور پاکستان پر الزام تراشیوں کی روش پاکستان کی نئی حکومت کے لئے ایک بڑے چیلنج کا درجہ رکھتی ہے۔ شاہ محمود قریشی نو آموز وزیر خارجہ نہیں ہیں ۔ پاک ۔ امریکا تعلقات کے علاوہ پڑوسی ممالک کے ساتھ تعلقات کے مد و جزر کو اچھی طرح جانتے ہیں اور انہیں اُن مشکلات کا بھی ادارک ہے کہ اُن کے لئے ان مشکلات کو انفرادی حیثیت میں دور کرنا ممکن نہیں ہے۔ پاکستان کی عسکری قیادت اور ان پالیسیوں کو لیکر چلنا سول حکومت کے لئے بھی ایک امتحان ہے کہ خارجہ پالیسی کے معاملات میں ماضی میں جو مشکلات درپیش رہی ہیں ا ب سول ، ملٹری تعلقات احسن انداز میں آگے بڑھ سکیں ۔ عموماََ یہی ہوتا رہا ہے کہ امریکی عہدے دار سول حکومت سے علیحدہ اور عسکری قیادت سے جداگانہ ملاقاتیں کرکے یہ تاثر دیتی رہی ہے کہ پاکستان کی سول و ملٹری قیادت ایک صفحے پر نہیں ہیں۔ سابق حکومت میں ایک مرتبہ ایسا عمل ضرور ہوا جب سول و ملٹری قیادت نے ایک ساتھ بیٹھ کر امریکی اہم عہدے دار سے ملاقات کی اور پاکستانی موقف پر دونوں سول ملٹری قیادت نے یکجا ہوکر ایک مثبت پیغام دیا ۔ چونکہ عمران خان تبدیلی کا نعرہ لیکر آئے ہیں اور امریکا کے ساتھ ماضی کی غلطیوں کا ازالہ کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں تو ان کے لئے یہ امتحان بھی ہے کہ کیا امریکی انتظامیہ کے کسی عہدے دار کا سرخ کارپیٹ پر استقبال ان کا ہم منصب ہی کرے گا ۔ اور کیا امریکا کے کسی عہدے دار کے ساتھ پاکستانی ہم منصب ہی ملاقات و مذاکرات کرے گا۔
وزیر اعظم پاکستان عمران خان اپنے سیاسی جلسوں میں کئی بار ایسی مناظر چلا چکے ہیں کہ امریکا ، ماضی میں پاکستانی صدر کا کس طرح استقبال کیا کرتے تھے بقول عمران خان اب پاکستان کی یہ حالت ہوگئی ہے کہ منتخب وزیر اعظم کے ” کپڑے” تک اتار لئے جاتے ہیں۔ سفارتی معیار و اقدارکے مطابق ضرورت اس بات کی ہوتی ہے کہ کسی بھی ملک کا ہم منصب اپنے ہم منصب سے ہی ملاقات و گفت و شنید کرے۔ اگر امریکی وزیر خارجہ مائیک پاکستان آتے ہیں تو کیا پاکستانی قوم اس بات کی توقع نومنتخب وزیر اعظم سے کرسکتی ہے کہ امریکی وزیر خارجہ اپنے منصب پاکستانی وزیر خارجہ سے ہی ملاقات و مذاکرات کریں ۔ سول و ملٹری قیادتوں سے جداگانہ ملاقاتوں کی روش کا خاتمہ ہو اور برابری کی سطح پر پاک۔ امریکا تعلقات کی بنیاد رکھنے کی کوشش کی جائے۔ بظاہر یہ ایک مشکل عمل ہے لیکن یہ ناممکن نہیں ہے کیونکہ پاکستان اپنی جغرافیائی اہمیت اور اصولی موقف کی وجہ سے امریکی انتظامیہ کے اہم عہدے دار کے ساتھ برابری کی سطح پر گفت و شنید کرچکا ہے۔
امریکا ، پاکستان پر جتنا دبائو بڑھانا چاہتا تھا وہ بڑھا چکا ، امریکا کو پاکستان کی جتنی امداد کم کرنا تھی وہ اُس نے کم کردی ، بھارت کی چاپلوسی کے تمام ریکارڈ امریکا توڑ چکا ہے۔ افغانستان کے دشنام طرازیوں کی پشت پناہی میں کسی قسم کی کسر نہیں چھوڑتا ۔ تو پھر اس کے بعد امریکا کا پاکستان پر دبائو بڑھانے کے لئے کیا کردار رہ جاتا ہے۔ مذہبی عدم برداشت کی واچ لسٹ میں پاکستان کو شامل کراچکا ہے ۔ پاکستان پر دبائو بڑھانے کے لئے ایف ٹی ایف کی گرے لسٹ میں نام دوبارہ داخل کرچکا ہے ۔ بلیک لسٹ میں پاکستان کا نام ڈلوانے کی ہر سعی کرچکا ہے۔ سی پیک منصوبے پر امریکی عزائم ڈھکے چھپے نہیں ہیں ۔ دیا میر میں پانی کی قلت کو دور کرنے کے لئے ڈیم بنانے کی اشد ضرورت ہے ، لیکن مالیاتی اداروں کو امریکا ڈکیٹیشن دے چکا ہے کہ دیا میر اور بھاشا ڈیم پر پاکستان کی مالی امداد نہ کی جائے ، یہاں تک کہ ابھی پاکستان نے اپنے قرضوں کی ادائیگی کے لئے آئی ایم ایف میں بیل آئوٹ پروگرام کی کوئی درخواست بھی نہیں دی تھی کہ مالیاتی ادارے کو امریکا نے براہ راست ڈکٹیشن دے کر پاکستان کو بیل آئوٹ فنڈ دینے سے منع کردیا ۔ امریکا نے پاکستان کے فوجیوں کی تربیتی پروگرا م کو بھی ختم کردیا اور حالیہ بجٹ میںمختص فنڈز میں بھی انتہائی کمی کردی ۔
پاکستان کو اپنی مربوط اور دور رس خارجہ پالیسی بنانے کے لئے جہاں عسکری قیادت کی تجاویز کی ضرورت ہوگی وہاں پارلیمنٹ کو بھی اعتماد میں لیکر ایک ایسی پالیسی منظور کرانے ہوگی جس کے بعدکسی بھی عالمی قوت کے دبائو کو برداشت کرنے اور اسے جواب دینے کے لئے وزارت خارجہ کو پریشانی کا سامنا نہیں ہوگا ۔پاکستان وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا یہ کہنا دلچسپ ہے کہ یہ تو وہی جگہ ہے گذرے تھے ہم جہاں سے ۔ لیکن اب حالات و واقعات و عالمی سیاسی منظر نامہ مکمل طور پر بدل چکا ہے۔ اس بات کا ادارک بھی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کو ہوگا کہ لفاظی سے پاکستان کے مسائل کو ختم یا کم نہیں کیا جاسکتا ۔اس کے لئے پارلیمان کو اعتماد میں لے کر جرات اور خود اعتماد ی کا مظاہرہ کرنا ہوگا ۔ کیونکہ اس وقت پاکستان جس نازک دور سے گذر رہا ہے اس کی درستگی کے لئے کافی وقت ، قوت و وسائل درکار ہونگے۔
افغانستان میں کابل دوہری حکومت ایک مرتبہ پھر افغان طالبان کو مشروط مذاکرات کی پیش کش کرچکی ہے جس کا پاکستان نے بھی خیر مقدم کیا ہے ۔ کابل حکومت نے عید الفطر کی طرح افغان طالبان سے تین مہینے کی جنگ بندی کی بھی اپیل کی ہے جیسے افغان طالبان مسترد کرچکا ہے کیونکہ عید الفطر میں سیز فائر سے غلط فائدہ اٹھا کر افغان طالبا ن کے اجتماع کو جانی نقصان اور غلط پروپیگنڈا کیا گیا تھا ۔ اس وقت افغان طالبان کی مسلح مزاحمت پوری قوت کے ساتھ کابل حکومت اور امریکی اتحادیوں کے لئے درد سر بنی ہوئی ہے۔ پاکستان میں اس وقت نئی حکومت آئی ہے۔ اس لئے امریکا و کابل حکومت کے ساتھ افغان طالبان کو مذاکرات کے میز پر لانے کے لئے حقیقی معنوں میں وقت درکار ہوگا ۔ چین ، ایران اور روس کے ساتھ پاکستان کی سہ فریقی کانفرنسوں کے بعد افغان طالبان کا امریکا کے ساتھ براہ راست مذاکرات کے اصولی موقف کو بھی دیکھنا پاکستان کے لئے اہمیت کا حامل ہے۔
پاکستان کے نو منتخب وزیر اعظم عمران خان بھی جنگ کے بجائے مذاکرات کے حامی ہیں ۔ لیکن اس کے لئے دشوار راستوں کو ہموار کرنے کے لئے امریکا اور نیٹو اتحادیوں کو اپنے موقف میں بھی لچک پیدا کرنا ہوگی ۔ خاص طور پر افغان طالبان اور سعودی حکومت کے درمیان تعلقات میں جو دوریاں پیدا ہوئی ہیں ۔ اس نے افغانستان کے مسئلے کو مزید گھمبیر بنادیا ہے۔متحدہ عرب امارات اور سعودی حکومت ماضی کے بجائے اس بار امریکی مفادات کو ترجیح دے رہے ہیں جس پر افغان طالبان کے امیرنے عید الاضحی میں دیئے گئے پیغام میں اپنی ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے سعودی عرب کو اپنا پرانا موقف اپنانے کی ضرورت پر زور دیا ہے کہ جس طرح سعودی حکمرانوں نے روس کی جنگ میں افغان طالبان کی اس لئے مدد کی تھی کیونکہ سوویت یونین جارح تھا ، اسی طرح امریکا بھی ایک ایک جارح مملکت ہے جس نے افغانستان میں بزور طاقت قبضہ کرنے کی کوشش کی ہے جو 17برسوں میں بھی کامیاب نہیں ہوسکے ۔
زمینی حقائق پاکستان کے لئے بڑے دشوار گذار ہیں ۔ کیونکہ ایک جانب پاکستان نے لاکھوں افغان مہاجرین کو مملکت میں پناہ دی ہوئی ہے ۔ جیسے کابل حکومت واپس لینے میں لیل وحجت کررہی ہے تو دوسری جانب پاکستان سوویت یونین کی جنگ کے مضمرات سے باہر نہیں نکل سکا اور افغان، سوویت یونین جنگ کے مسلح گروپوں نے پاکستان میں محفوظ پناہ گائیں بنا لی تھی اگر پاکستان افغان طالبان کے خلاف امریکی و سعودی پالیسی پر مصر رہتا ہے اور اس جنگ کا حصہ بنتا ہے جس کا مطالبہ امریکا کررہا ہے تو ایسی جنگ کا متحمل پاکستان نہیں ہوسکتا ۔ پاکستان کے نومنتخب وزیر اعظم عمران خان اور وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی مملکت خارجہ پالیسی کب بناتے ہیں ۔ اور اس خارجہ پالیسی پر عمل پیرا بھہ رہ پاتے ہیں یہ آنے والا وقت بتائے گا ۔ تاہم نئی حکومت سازی کے اس موقع پر امریکی منفی بیانات اور ڈومور کے مطالبے غیر مناسب ہیں۔