خود آگہی

khud Agahi

khud Agahi

تحریر : شاہ بانو میر

ایک بات بتاؤں آپ کو ؟
جب میں کبھی بڑی بڑی گاڑیوں سے تفاخر سے گردن اکڑائے لوگوں کو باہر نکلتے دیکھتا ہوں یا مونچھوں کو بل دیتے ، پگڑی کے پیچ ٹھیک سے جماتے کسی وڈیرے
یا
چوہدری کو دیکھتا ہوں ۔۔۔ یا کسی کو اپنے نام کے ساتھ فخر سے الحاج، علامہ، ڈاکٹر ، پروفیسر ، یا دیگر القابات لگائے دیکھتا ہوں

تو سوچتا ہوں کیوں نہ میں بھی کسی بات پر فخر کروں۔

آخر کچھ تو ہو جس پر میں بھی گردن اکڑا کر چلوں۔۔۔۔ لیکن پتہ نہیں کیا ماجرا ہے میں جب حسب و نسب پہ فخر کرنے کا سوچتا ہوں تو نوح کے بیٹے کا ڈوبنا یاد آجاتا ہے۔

اگر میں مال و اسباب پہ نازاں ہونے کا سوچوں تو قارون کا زمین میں غرق ہونا یاد آجاتا ہے۔
اگر میں علم و فن و عبادات پہ فخر کرنے کا سوچوں تو ابلیس کا دھتکارا جانا یاد آجاتا ہے۔۔۔۔
ایسے میں کانوں میں ایک آواز گونجتی ہے۔

‘پس ہم نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا، پھر نطفہ سے۔۔۔۔۔
اور
اس آواز کے ساتھ ہی میری سب سوچیں سلب ہو جاتی ہیں۔ سب کچھ بےمایا و بے وقعت لگنے لگتا ہے۔ دماغ سے غرور و تکبر کاخیال ہوا ہو جاتا ہے اور شدت سے اپنی کم مائیگی کا احساس ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ پھر سوچتا ہوں میرا رب کتنا کریم ہے کہ
جس نے مجھے میری اوقات سے بڑھ کر نوازا،
علم و شعور عطا کیا،
میرے عیبوں کی پردہ پوشی کی،
مجھے وہ بھی عطا کیا جس سے میں واقف بھی نہ تھا۔
یہ خیال آتے ہے میں شرمندہ ہو جاتا ہوں اور بس اتنا ہی کہہ پاتا ہوں میرے مالک تیرا بندہ بڑا کمزور ہے میں اپنے گناہوں پر شرمندہ ہوں پلیز مجھے معاف کردے میرے پالنے والے..!!

Shah Bano Mir

Shah Bano Mir

تحریر : شاہ بانو میر