آج پاکستان کی شناخت دہشت گردی سے جس انداز میں منسلک کی جارہی ہے اس نے نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر میں بسنے والے پاکستانیوں کو بھی ان ممالک میں ایک مشکوک کردار کے ساتھ رہنے پر مجبور کیا ہواہے،آج اس ملک کو ایک ایسے پلیٹ فارم کی ضرورت ہے جو دنیا بھر میں پاکستان کا امیج بہتر کرنے کے لیے اس کی حقیقی تصویر پیش کرسکے کہ پاکستان دہشت گرد ملک نہیں بلکہ ایک اعتدال پسند اور امن وآتشی کی ایک ایسی اسلامی ریاست ہے جس میں ہرمذہب کا شہر ی خود کو محفوظ تصور کرتا ہے۔اس کے لیے اس ملک میں ایک ایسے وزیر خارجہ کا ہونا بہت ضروری ہے جو دنیا بھر میں ہر لمحہ خارجہ پالیسی کے بنیادی رحجانات سے ہمیشہ باخبر رہتاہو۔کسی بھی ملک کا وزیر خارجہ ایسا نہیں ہوتا جو قومی مفادات کا اسیر نہ ہو یقینا اگر کوئی اس منصب کو زاتی مفادات کے لیے استعمال کرتاہے تووہ اپنے ملک کی نیک نامی کی بجائے اس کی بدنامی کا باعث بنتاہے اور اپنے ہر عمل سے ملکوں سے تعلقات میں بہتری کی بجائے الٹاخرابیوں کا باعث بنتا ہے۔
خارجہ پالیسی کاکام صرف یہ نہیں ہوتا کہ وہ صرف اپنے ملکوں کے ساتھ دنیا بھر کے ممالک کی دوستیاں ہی کرواتا پھرے بلکہ ایک کامیاب وزیر خارجہ ایسی قدرتی صلاحیتوں کامالک ہوتا ہے جو عالمی سیاست پر گہری نظر رکھتا ہے ،ہمیں یہ تو معلوم ہے کہ بھارت پاکستان سے دشمنی رکھتا ہے مگر ہمیں بھارت کن وجوہات پر دبائو میں رکھتا ہے یہ باتیں کوئی جاننے کی کوشش نہیں کرتا بس دوستی اور دشمنی کی تمنائوں پر ملک چلانے کا عمل جاری رہتا ہے میری نظر میں ایک کامیاب خارجہ پالیسی ان تمام حقائق کا کھوج لگانے کانام بھی ہے جو یہ جاننے کی کھوج لگاتاہے کہ آخر ہندوستان کس وجہ سے پاکستان پر دبائو کھتاہے اورکن اشاروں پر وہ اچھل کود کرتاہے مثال کے طور پر بھارت اگر امریکا یا روس کی دوستی پر یا ان کے بھرپور تعاون کی یقین دہانی پر اچھلتاہے تو وزیرخارجہ کا کام یہ ہے کہ وہ اندازہ کرے کہ روس اورامریکاکس طرح سے بھارت کی دوستی یا پشت پناہی سے پیچھے ہٹ سکتے ہیں اور یہ ممالک یہ سوچنے پر مجبور ہو کہ بھارت کی اس قسم کی مدد سے ان کے ملک کو کیا نقصانات ہوسکتے ہیں۔
کچھ مذہبی دوستوں کا ماننا ہے کہ امریکا اور روس سمیت بہت سے یہودی ممالک کا ایجنڈا ہی مسلم قوتوں کو کچلنا یا انہیں ختم کرنا ہے مگر حقیقت میں اب یہ سب کچھ اسقدر آسان کام نہیں رہاہے دنیا ایٹم بم کے بل بوتے پر اب زیادہ دیر چلنے والی نہیں ہے دنیا میں اگر رہنا ہے تو ایسی سوچوں کو ایک طرف رکھ کر خود کو مظبوط کرناہوگا ، بین لاالقوامی سیاست میں یہ ہی سب کچھ دیکھنے کو ملتا ہے اگر کوئی بھی ملک یہ ہی سوچ لیکر چلے کہ وہ مذہبی بنیاد پر فلاں فلاں ملکوں کے ساتھ نہیں چل سکتاتو وہ ملک یقینی طور پر تنہائی کا شکارہوجاتے ہیں اور پوری دنیا سے کٹ کر اور لگ تھلگ ہوجاتے ہیں اور اپنے لیے مختلف دوست ملک کی ہمدردیاں بھی ختم کردیتا ہے ۔جب کوئی سیاستدا ن اپوزیشن میں ہوتا ہے تو وہ خار جہ پالیسی کو اکھاڑے میں دیکھنا پسند کرتاہے مگر جب وہ ہی سیاستدان حکومت میں ہوتاہے تو اس کے الفاظ مفاہمتی رویوں میں تبدیل ہوجاتے ہیں وہ سارے مسائل کو بیٹھ کراور بات چیت کے زریعے ہی حل کرنے کو ترجیح دیتاہے کیونکہ یہ خارجہ پالیسی کے بنیادی اصول ہیں ،مگر کامیاب خارجہ پالیسی کے لیے ملکی نظریات اور اصولوں کو ساتھ لیکر چلنا پڑتا ہے یعنی دوسرے لفظوں میں خارجہ پالیسی کا اگر کوئی دوسرانام ہوتا تو وہ قومی مفاد ہوتا،اور ان ہی قومی مفادات کے پیش نظر ہمسایہ ممالک کے ساتھ ہونے والے جنگی ماحول کا خاتمہ کرتے ہوئے ان کے ساتھ دوستانہ تعلقات پیداکرنا ہوتے ہیں۔
ان تمام باتوں میں ایک کامیاب وزیر خارجہ کو کہیں جھکنا تو کہیں اپنے آپ کو جھکانا بھی پڑتا ہے یہ ہی وہ اداہے جو دنیا ممالک کو ساتھ لیکر چلنے کا فارمولہ ہے یعنی کسی کا بن کر یا کسی کو اپنا بناکر چلنا،ماضی میں ہونے والی خا رجہ پالیسی نے شاید پاکستان کو استحکام بخشنے کی بجائے انہیں نقصانات سے ہی دوچار کیا ہے میاں نوازشریف کے گزشتہ دور حکومت میں پاکستان کو خارجہ امور پر ناکامی سے اس لیے دوچار ہونا پڑا کہ میاں نوازشریف کو اپنے دور حکومت میں شاید کوئی پڑھا لکھا یااس قدر سمجھدار آدمی مل ہی نہیں سکا کہ جس کو وہ وزیر خارجہ کا منصب عنایت کرتے یہ ہی وجہ ہے کہ یہ عہد ہ نوازشریف کے دور حکومت میں لاوارث ہی رہا ،نوازحکومت میں خارجہ پالیسی کی ناکامی کی ایک اور وجہ قومی مفادات کی بجائے زاتی اور خاندانی مفادات کی حفاظت کرنا تھاشاید اسی وجہ سے نوازشریف نے اس منصب کو خود سے الگ نہ کیا تھااور پانچ سال تک پاکستان کی خودمختاری کے بڑے بڑے فیصلوں میں عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کا کاروبار عروج پر رہا،اس سے قبل بھی پاکستان میں بے شمار ایسے لوگوں کو خارجہ امور پر لاکر بٹھایا جاتارہاہے جو پاکستان کے وسیع تر مفادات کے بارے میں سوچنے سمجھنے کی صلاحیتوں سے بلکل ہی محروم تھے ۔مگر موجودہ وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمودقریشی سے میری جتنی بھی ملاقاتیں ہوئی ہیں اس میں میں نے ان کے اندر ایک باصلاحیت سیاستدان کو موجود پایاہے ،اس سے قبل پیپلزپارٹی کے دور حکومت میں مخدوم شاہ محمود قریشی نے عوا می مفادات کے پیش نظر وزارت خارجہ سے جس وجہ سے استعفیٰ دیا تھا اسے قوم نے ابھی تک بھلایا نہیں ہے انہوںنے امریکی سی آئی اے کے ایجنٹ ریمنڈ ڈیوس کی رہائی پر قومی مفاد میں اپنا استعفیٰ دیدیا تھا۔
مخدوم شاہ محمود قریشی ا س وقت پاکستان کے سرکاری اداروں اور حکمرانوں میں جنھوں نے ریمنڈ ڈیوس کے لیے پاکستان سے فرار ہونے کی راہیں ہموار کی تھی ان کا ساتھ دینے سے انکار کردیا تھااو خود کور اس گھنائونے کھیل سے الگ کرلیا تھا،اس وقت کے کچھ دانشور شخصیات نے مخدوم شاہ محمودقریشی کے اس فیصلے کو سخت تنقید کا نشانہ بھی بنایاتھا جن کا ماننا تھا کہ مخدوم صاحب کو استعفیٰ نہیں دینا چاہیے تھا مگر قدرت نے مخدوم شاہ محمودقریشی کو وقت گزرنے کے ساتھ سرخرو کیا ریمنڈ ڈیوس کی کتاب کو جن جن لوگوں نے پڑھا ہوگا وہ یقینا جان چکے ہونگے کہ مخدوم شاہ محمود قریشی کا فیصلہ بروقت اور درست اقدام تھا،آج مخدوم شاہ محمود قریشی کو اللہ نے ایک بار پھر سے اسی منصب پر لاکر بٹھادیا ہے شاید قدرت ان سے کچھ اور تاریخی کام لینا چاہتی ہے۔بھارت جیسے ممالک جن کی سیاسی فیکٹریاں صرف اور صرف پاکستان کو دنیا بھر میں نیچا دکھانے کے لیے کام کرتی ہیں ایسے معاملات سے نمٹنے کے لیے جذبات کی نہیں عقل ودانش کی ضرورت ہے لہذا ہندوستان سے جب بھی مزاکرات ہو دو ٹوک ہو اور ایسے ماحول میں گفت و شنید ہو جس میں کسی بھی حال میں پاکستانی حکومت کی کوئی کمزوری عیاں نہ ہوتی ہو،اس کے ساتھ جب پاکستان اپنے ہی ملک میں امن وآتشی کے فروغ میں دلچسپی لے رہا ہوگا تو اس کااثر صرف پاکستان میں ہی نہیں بلکہ دنیا بھر کے ممالک پر بھی پڑیگا۔
علاوہ ازیں وزارت خارجہ پاک چائنہ اکنامک کوریڈور میں مظبوط روابط میں اپنا مستحکم کرداراداکرسکتاہے اور اس طرح نہ صرف پاکستان کی علاقائی حیثیت بہتر ہوگی بلکہ دشمنوں کے ناپاک عزائم بھی خاک ہونگے،اس طرح افغانستان کا امن لانے سے پاکستان میں امن ہوگا۔علاقے میں افغانستان اور ہندوستان کے ساتھ مسائل کو کم کرنے میں کردار اداکرنے میں پاکستان کا اپنا فائدہ بھی ہے،میری نظر میں ایک ایسی خارجہ پالیسی ہونی چاہیے جو دنیا بھرمیں تعلقات کی مظبوطی کے ساتھ ملک کی اقتصادی صورتحال کو بھی بہتر بنانے میں کارآمدہو،اور بین الاقوامی سطح پر پاکستان کا امیج بہتر کرنے اور گرین پاسپپورٹ کی عزت کروانے میں اپنا کرداراداکرتی ہو،اسی طرح کشمیر کا مسئلہ گفتگو شنید سے حل ہونا چاہیے کیونکہ اگر پاکستان کی ترجیحی اگر کشمیر ہے تو ہندوستان کی ترجیح ہندوستان میں پھیلی علاقائی دہشت گردی ہے جس میں وہ پوری دنیا کو کھلے عام بتاتا ہے کہ ہندوستان میں ہونے والی دہشت گردی کا ذمہ دار پاکستان ہے ،درحقیقت ایسا ہرگز نہیں ہے مگر ان تمام باتوں کی یقین دہانی اور دنیا بھر میں پھیلی پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی کا خاتمہ بھی بہترین خارجہ پالیسی کی وجہ سے ہی ممکن ہے اور اب نئے وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی پر یہ بھاری ذمہ داری آن پڑی ہے کہ وہ پاکستان کی بکھری خارجہ پالیسی کو سمیٹیں۔