الیکشن کے بعد کا منظر نامہ سابقہ الیکشنز کے بعد کے منظر ناموں سےزیادہ مختلف نہیں ، اپوزیشن مسلسل دھاندلی کی رٹ لگائے ہوئے ہے اور حکومت حسب سابق اس الیکشن کو عوامی مینڈیٹ قرار دے رہی ہے، عوام ہمیشہ کی طرح گزشتہ حکومت کو کوستے ہوئے نئی حکومت سے امیدیں لگائے بیٹھی ہے مگر اس بار اگر کوئی چیز مختلف ہے تو وہ ہے تبدیلی، تبدیلی کا نعرہ لگا کر اقتدار میں آنے عمران خان صاحب جو کہ اب ہمارے وزیر اعظم بھی ہیں سے عوام نے بہت زیادہ توقعات باندھ رکھیں ہیں، یہ بات کافی حد تک درست ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو کے بعد اگر واقع کوئی قومی سطح کا سیاستدان بن کر ابھرا ہے تو وہ عمران خان ہی ہے شاید اسی لئے سوائے سندھ کے مرکز سمیت باقی تمام صوبوں میں پی ٹی آئی حکومت بنانے میں کامیاب ہوئی ہے ۔
لگتا ہے اس بار ہماری اسٹیبلشمنٹ نے بھی عوامی مزاج کے مد نظر الیکشنز میں کم سے کم مداخلت کی ہے اور اپنے اشاروں پر عوامی اشاروں کو ترجیح دی ہے جس کے نتیجے میں کراچی سے پی ایس پی ،پنجاب سے ٹی ایل پی اور سندھ سے جی ڈی اے کو شکست کا سامنا کرناپڑا ہے، اسٹیبلشمنٹ نے اپنے اوپر لگنے والے تقریباًتمام الزامات غلط ثابت کر دئیے ہیں اور لگتا ہے اس بار ہوم ورک ہر زاویے کو مد نظر رکھتے ہوئے مکمل کیا گیا ہے، سینٹ الیکشنز کی تاخیر کے الزام کو بھی غلط ثابت کیا جنرل الیکشنز کی تاخیر الزام بھی جھوٹا نکلا اسی طرح مذکورہ بالاشکست خوردہ سیاسی جماعتوں کی پشت پناہی اور جیپ کے نشان الاٹ کروانے کا الزام بھی غلط ثابت کیا، الغرض کہ اسٹیبلشمنٹ نے بھی اس بار سیاسی مخالفین کو سیاست کی مار ماری ،بچارے نہ بول سکتے ہیں نہ چپ رہ سکتے ہیں۔
سانحہ ماڈل ٹاؤن اور پھر ختم نبوت کے قانون میں تبدیلی کی ناکام کوشش یہ وہ دو سیاہ کارنامے ہیں جو ن لیگ کے نامہ اعمال میں ہمیشہ کے لئے درج ہو گئے ہیں اور یہی دو واقعات ان کے زوال کا سبب بھی بنے ہیں ، میری نظر میں ان کے زوال کی ابھی صرف ابتداء ہوئی ہے اور انتہا ابھی باقی ہے، مالی بدعنوانی قومی اداروں کی بربادی اور معشیت کی زبوں حالی میں پچھلے ستر سال سے تقریباً ہر صاحب اقتدار جماعت کا حصہ رہا ہے جن ستر سالوں تیس سال ن لیگ کے بھی شامل ہیں مگر اتنی ذلت اور رسوائی کسی اورجماعت کی نہیں ہوئی جتنی ن لیگ کے قائدین کی ہوئی ہے جس کی وجہ صرف اور صرف سانحہ ماڈل ٹاؤن اور ختم نبوت کے قانون میں تبدیلی ہیں، سانحہ ماڈل ٹاؤن چونکہ پہلے ہوا تھا اس لئے اس کا ذکر پہلے کیا ورنہ ختم نبوت ہر مسلمان کے ایمان کا لازم جزو ہے اور یقیناً ہر چیز سے بڑھ کر ہے۔
وزارت عظمیٰ کا حلف اٹھانے کے بعد سب سے پہلا کام جس سے تبدیلی کا آغاز ہونا تھا وہ تھی وزیراعظم کی نئی کابینہ مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ عمران خان اس میں ناکام رہے اور اسی فیصد سے بھی زیادہ کابینہ انہیں پرانے چہروں پر مشتمل ہے جن میں اکثر اسکینڈل زدہ ہیں اور کئی کئی بار آزمائے ہوئے ہیں، ہر وزیر کا ممبر قومی اشمبلی ہوناضروری نہیں مگر جس شعبے کی ذمہ داری اس کو دی جا رہی ہے اس شعبے کا ماہر ہونا ضروری ہے ، چونکہ موجودہ نظام کی وجہ سے یہ کمپرومائزڈ “ تبدیلی” ہے شاید اسی لئے عمران خان صاحب بھی کمپرومائزڈ کابینہ ہی دے سکے ہیں اور اب شاید باقی صوبوں کی کابینہ بھی اسی “ تبدیلی” کا عکس ہو جو مرکز میں آئی ہے، ساںحہ ماڈل ٹاؤن کی شفاف انکوائری اور لواحقین کو جلد انصاف کی فراہمی حکومت کے لئے ایک اہم اور بڑا چیلنج ہے۔
امریکہ نے عمران خان کو پہلی بال پر ہی باؤنسر دے مارا ہے اور اب دیکھنا یہ ہے کہ خان صاحب اس باؤنسرکو ہٹ کرتے ہیں، مِس کرتے ہیں یا اپنے ہیلمٹ کی زینت بناتے ہیں، امریکن سیکرٹری خارجہ کی کال خان صاحب کے لئے توقعات کے بر عکس وبال جان بن گئی ہیں اورساتھ ہی مخالفین کو ناتجربہ کاری کے طعنے دینے کا موقع فراہم کر گئی ہے، امریکہ سے تعلقات کو کیسے آگے لے کربڑھنا ہے اس کا اندازہ خان صاحب کو اس واقعے کے بعد ضرور ہو گیا ہو گا، موجودہ صورتحال میں خارجہ پالیسی کا محاذ ایک چیلنج ہے جس میں بھارت، امریکہ اور افغانستان سے تعلقات کلیدی کردار کی حثیت رکھتے ہیں، لہٰذا خان صاحب کو تمام اسٹیک ہولڈرز کی مشاورت درکار ہو گی اور امید ہے کہ خان کمپرومائزڈ تبدیلی کو حقیقی تبدیلی میں بدلنے کی بھر پور کوشش کریں گے۔