18 ء اگست کو کپتان نے پاکستان کے 22ویں وزیرِاعظم کا حلف اُٹھا کر نئے پاکستان کی بنیاد رکھ دی۔ ہم جیسوں نے ”رولا” تو بہت ڈال رکھا تھاکہ ”جَٹ دا پُتر کدی بادشاہ نہیں بن سکدا” لیکن وہ بن گیا۔ کیسے بنا؟ یہ الگ کہانی ہے، اِس پر بہت کچھ لکھا جا چکا اور لکھا جاتا رہے گا لیکن اب وہ ہم سب کا وزیرِاعظم ہے اور اُس کی کامیابی کے لیے دعاگو ہونا ہم سب کا فرض کہ اِسی میں ملک وقوم کا بھلا ہے۔
ہم تو سمجھتے تھے کہ سورج کی پہلی کرن کے ساتھ ہی نئے پاکستان میں سب کچھ بدلا بدلا نظر آئے گالیکن بدلا تو ”کَکھ” بھی نہیں۔ وہی جھلک دکھلا کر آتی جاتی بجلی اوروہی مہنگائی کا طوفان حالانکہ نوازحکومت کے دعوے کے مطابق سسٹم میں گیارہ ہزار میگاواٹ بجلی آچکی۔ عیدین پر مہنگائی تو پہلے بھی ہوا کرتی تھی لیکن نئے پاکستان کی پہلی بقرعید پر تو حد ہی ہوگئی۔ کبھی سنا نہیں تھا کہ سبز دھنیا بھی ساڑھے تین سو روپے کلو ملے گا (جو سبزی کے ساتھ مفت مِل جاتا تھا)۔شاید نئے پاکستان کی خوشی میں سبزی فروشوں نے بھی بہتی گنگا میں ”اشنان”کرنا فرضِ عین سمجھا۔ جب بکرا خریدنے کے لیے منڈی کا رُخ کیا تو دِن کو تارے نظر آنے لگے۔ ہم نے ڈرتے ڈرتے ایک منحنی بکرے کی طرف اشارہ کرکے ریٹ پوچھا تو جواب ملا ”چالیس ہزار”۔ ہم نے کہا ”بھیا! کچھ تو خُدا کا خوف کرو، آپ کے بکرے میں 15 کلو گوشت نہیں اور قیمت 40 ہزار”۔ قصاب بولا بی بی! آگے جاؤ ،مجھے اپنے بکرے کی توہین منظور نہیں۔ تب ہم نے مشاہدہ کیا کہ وہ ”تیلی پہلوان نما” بکرا بھی ہمیں بری طرح گھور رہا تھا۔ شاید ہم نے اُس کی عزت ِنفس پر ”لات” رسید کر دی تھی۔ اِسی دوران کسی دِل جلے نے ہانک لگائی ”یہ نیا پاکستان ہے”۔
ہمارے میاں بھی بڑی عجیب شٔے ہیں۔ وقت کی پابندی اُن کی نَس نَس میں سمائی ہوئی ہے۔ ہمارے لاکھ سمجھانے اور چیخنے چلانے کے باوجود وہ تقریبات میں ہمیں بَروقت لے جاتے ہیںاور بعض اوقات تو ایسا بھی ہوا کہ میزبان ندارد اور ”مہمان” براجمان۔ اِسی احتیاط اور وقت کی پابندی کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے میاں نے عید سے لگ بھگ بیس دِن پہلے ہی قصاب کی بکنگ کر لی اور اُسے ایڈوانس بھی دے آئے۔ یہ ”معرکہ ” سَر کرنے کے بعد وہ خوشی خوشی گھر لوٹے تو ہم نے سوال کیا کہ کیا قصاب بَروقت آجائے گا؟ اُنہوں نے پُراعتماد لہجے میں کہا ” قصاب نے وعدہ کیا ہے کہ ٹھیک 8 بجے ہمارے بکرے زبح ہو جائیں گے، اِسی لیے تو اُسے ایڈوانس بھی دیا ہے”۔ ہم نے کہاکہ ہمارے سابق صدر تو کہہ گئے کہ وعدے قُرآن وحدیث نہیں ہوتے ۔ وہ تَپ کر بولے ”یہ سیاستدانوں کا وتیرہ ہے، عامیوں کا نہیں ،قصاب بَروقت ہی آئے گا”۔ ہم بھی یہ سوچ کر چپ رہے کہ بقر عید پر تو پوری قوم قصاب کا روپ دھار لیتی ہے، ہر موچی، تیلی، نائی، حتیٰ کہ عیسائی بھی قصاب بن بیٹھتا ہے۔ اِس لیے چلو اچھا ہوا کہ ایڈوانس بکنگ کے ذریعے ”اصلی تے وَڈا” قصاب تو نصیب ہوا۔ ویسے تو ہمارا مالی بھی ہمیں متواتر قائل کرنے کی کوشش کرتا رہا کہ اُس سے بہتر قصاب کوئی ہو ہی نہیں سکتا،وہ تو سات پشتوں سے یہی کام کرتے چلے آرہے ہیں، مالیوں کا کام تو بَس ”ایویں ای” کرتے ہیں لیکن ہم نے اعتبار نہیں کیا اور اُسے کورا سا جواب دے دیا ۔حالانکہ ہمیں سوچنا چاہیے تھا کہ کھال اتارنے میں تو پوری قوم ماہر ہے اور ہمارے سیاستدان تو کھال ایسے اتارتے ہیں کہ
دامن پہ کوئی چھینٹ نہ خنجر پہ کوئی داغ تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو
اب صورتِ حال یہ تھی کہ ایڈوانس بکنگ ہو چکی لیکن بکرا ندارد۔ وہ تو اللہ بھلا کرے میری بیٹی کا جو میری تین سالہ نواسی ”رومیسہ” کی ضِد پر عید سے چھ دِن پہلے ہی ایک بکرا خرید لائی اور ہمارے گھر کے لان میں باندھ دیا۔ کوئی دو گھنٹے بعد جب باہر نکلے تو سَر پکڑ کر بیٹھ گئے۔ وہ پودے جنہیں ہم نے بڑی محنت سے پالا تھا، بکرا اُنہیں ایسے چَٹ کر چکا تھاکہ اب اُن کا نام ونشان بھی باقی نہیں بچا۔ ہم نے غور سے بکرے کی طرف دیکھا کہ اُس میں کہیں کسی سیاستدان کی روح تو حلول نہیں کر گئی۔ ہمیںلگا کہ جیسے بکرا ہمارا مُنہ چڑا رہا ہو، اِس لیے ہمیںیقین ہو گیا کہ یہ یقیناََ ”سیاستدان بکرا” ہی ہے جو ہماری مجبوری کا ناجائز فائدہ اٹھا رہا ہے۔ ساری رات بکرے کی ”مَیں مَیں” سنتے گزاری تو ہم نے فیصلہ کر لیا کہ صبح ہوتے ہی بکرے کے ”اکلاپے” کا دُکھ دور کیا جائے گا۔ چنانچہ ہم نے ایک دفعہ پھر منڈی کا رُخ کیااور بیوپاری سے اِس شرط پر بکروں کی جوڑی خریدی کہ گھر میں بندھے بکرے سمیت ،تینوں بکرے چاند رات کو گھر لے کر جائیں گے۔ بیوپاری کے ساتھ بکروں کے چارے کا حساب کتاب کرنے کے بعد ہم خوشی خوشی گھر لوٹے۔
عید کی نماز کے بعد ہم قصاب کے انتظار میں بیٹھ گئے۔ جب آٹھ بجے تو میاں کی بے چینی دیدنی تھی۔ اُنہوں نے قصاب کو کال کی تو فون بند ملا۔ بارہ بجے تک قصاب کو لگ بھگ ڈیڑھ سو کال کی جا چکی تھی لیکن عبث ، جواب ملتا ”ہم معذرت خواہ ہیں کہ آپ کا مطلوبہ نمبر فی الحال بند ہے”۔ تب میاں کو یقین ہو گیا کہ صرف سیاستدانوں ہی نہیں، عامیوں کے وعدے بھی قُرآن وحدیث نہیں ہوتے۔ بارہ بجے کے بعد ہم ایک دفعہ پھر قصاب کی تلاش میںنکلے۔ بعد اَز خرابیٔ بسیار لگ بھگ تین بجے ایک قصاب ہاتھ لگا ،جس نے اپنی ”نوآموزٹیم” کے ساتھ ہمارے بکرے زبح کیے۔ بکروں کی کھال اُترتے دیکھ کر میاں نے کہا ”تمہاری ٹیم تو بالکل نااہل ہے ”۔ قصاب نے ماتھے پر بَل ڈال کر کہا ”اگر ٹیم لیڈر ٹھیک ہو تو سب اچھا ہو جاتا ہے”۔ لگ بھگ سات بجے جب رات کے سائے گہرے ہو رہے تھے، ہم ”سُنتِ ابراہیمی” سے فارغ ہوئے اور اللہ کا شکر ادا کیا۔ گوشت بانٹنے کا کام اگلے دِن پر چھوڑ کرہم کھانا پکانے میں جُت گئے۔ یہ زبردستی کا ”روزہ” تھا جو قصاب کی مہربانی سے ہمیں رکھنا پڑاکیونکہ قصاب کی تلاش میں ہمیں کھانے پینے کا ہوش بھی نہ رہا۔
اگلے دِن تازہ دَم ہو کر باہر نکلے تو تعفن سے دماغ پھٹنے لگا۔ جا بجا قربانی کے جانوروں کی الائشوں کے ڈھیر نظر آئے، جنہیں اٹھانے والا کوئی نہ تھا۔ جب ایوب خاں حکومت یحییٰ خاں کے سپرد کرکے گھر سدھارے تو کچھ ہی عرصے بعد پختون بھائیوں نے اپنے ٹرکوں کے پیچھے ایوب خاں کی تصویر لگاکر نیچے لکھ دیا”تیری یاد آئی ،تیرے جانے کے بعد”۔ الائشوں پر نظر پڑتے ہی ہمیں میاں شہباز شریف یاد آئے جن کے دَور میں عیدِ قربان پر صفائی ستھرائی کا بہترین انتظام ہوا کرتا تھااور مجال ہے جو کہیں الائش نظر آئے۔ یقیناََ اب لاہوریئے بھی یہی کہتے ہوں گے ”تیری یاد آئی تیرے جانے کے بعد”۔ یہ تھی نئے پاکستان میں ہماری پہلی بقرعید۔