پاکستان کی سب سے کمزور حکومت وجود میں آ چکی ہے اور اب اس کی الٹی گنتی شروع ہو چکی ہے۔ جو وعدے کئے تھے تواب ان کے وفا کا وقت شروع ہو چکا ہے۔ پورے پاکستان کو صاف پانی ملے گا، آئ ایم ایف کو لات ماری جائے گی،امیر اور غریب کے درمیان کا فرق مٹا دیا جائے گا۔ ظلم کا خاتمہ، جمہوریت کی حقیقی بحالی کا آغاز کریں گے۔ سارا پاکستان جانتا ہے اور پی ٹی آئ والے کھلے عام ٹی وی چینلز پر یہ بات بار بار دھراتے رہے اور ہم نے بھی دیکھا کہ صوبوں اور مرکز میں سپیکر، ڈپٹی سپیکراور وزراعلی کے چناؤ میں خان صاحب نے کسی سے بھی مشورہ نہی لیا بلکہ تن تنہا فیصلے کئے اور حکومت سازی میں بھی عمران خان نے جس کو جو زمہ داری دی بغیر اپنی ٹیم کے مشورے کے خود دی۔ تازہ مثال یہ کہ گزشتہ روز نجم سیٹھی نے جب کرکٹ بورڈ کے چئیرمین شپ سے استعفا دیا ایک گھنٹے میں اپنے پرانے دوست احسان مانی کو چئیرمین لگا دیا۔ جس وقت میں یہ سطور ٹائپ کر رہا ہوں حکومت کو حلف اٹھائے چار دن گزر چکے ہیں اور وعدے کے مطابق آج کے دن تک 21916 لوگوں کوروزگار مل جانا چاہئے تھا اور 10958 مکان مکمل نہ صیح تو کم سے کم تعمیر شروع ہو جانی چاہئے تھی۔
کیونکہ ترقی یافتہ ممالک میں سیاسی جماعتیں اپنی پلانینگ تیار رکھتی ہیں چلو ہاتھ ہلکا کرتے ہیں اور حکومت کو عملی اقدامات کے لئے وقت دیتے ہیں مگر تنقید کا عمل اس وقت تک جاری رہے گا جب تک کے ہمیں حکومتی پالیسی کی کوئ مثبت سمت نظر نہی آتی۔ میں نے کئ بار لکھا کہ میں عمران خان کو قسمت کا دھنی مانتا ہوں۔ اور یہ ہی وجہ ہے کہ وہ جس کام میں بھی ہاتھ ڈالتے ہیں ان کو ایک اچھی ٹیم مل جاتی ہے لیکن ہر کام کی کامیابی کا کریڈٹ اکیلے لے جاتے ہیں۔ اس کی مثال میں پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ کرکٹ کی دنیا میں عمران خان واحد کپتان ہیں جنہوں نے ورلڈ کپ جیتا ہے باقی جو ورلڈ چیمپئن بنے تو پوری ٹیم کو کریڈٹ ملتا پے اس کی مثال دیکھ لیجئے بھارت نے کپل دیو کی کپتانی میں ورلڈ کپ جیتا مگر میں نے کہیں یہ نہی سنا کہ بھارت کا ورلڈ کپ کپیل دیو نے جیتا بلکہ بھارتی ٹیم نے جیتا۔ مگر پاکستان میں اس حوالے سے لوگ جاوید میانداد، وسیم اکرم، انضمام الحق اور دیگر ٹیم کے کھلاڑیوں کو بھول چکے ہیں۔
بحرحال خان صاحب الیکشن جیت چکے ہیں اور اس کی جیت پر میری اپنی فیملی کے بچے خوشیاں منا رہے تھے اور مجھے چڑا رہے تھے مگر میرے گھر میں جمہوریت ہے اس لئے مسکرا کر خاموش ہو جاتا تھا اور دل میں سوچتا تھا کہ بچو، کرنے دو غلطی عمران خان کو تب تم کو بتاؤں گا۔ اور مجھے زیادہ انتظار نہی کرنا پڑا۔ جب عمران خان نے قوم کے سامنے یہ بات کہی کہ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ الیکشن میں دھاندلی ہوئ ہے تو آپ کہیں سے بھی کوئ بھی حلقہ کھلوا لیجئے اور کتنے بھی حلقے کھلوا لیجئے میں آپ کے ساتھ ہوں اور اس کے بعد این اے 131 میں خواجہ رفیق کے ساتھ جو یو ٹرن ہم نے دیکھا وہ عجیب تھا۔ صرف پانچ تھیلے کھُلے اور 140 ووٹوں کا فرق مضید کم ہو گیا۔
عمران خان نے سپریم کورٹ کو مدد کے لئے پکار لیا۔اور پھر بات ختم ہو گئ۔ عمران خان کا یہ جملہ تقاریر میں بہت مشہور ہوا کرتا تھا کہ آزاد امیدوار اپنا ضمیر بیچ کر پاکستان کا سودا کرتے ہیں اور مجھے اگر کبھی ضرورت پڑی تو میں حزب اختلاف میں بیٹھنا پسند کرونگا مگر ان کو منہہ نہی لگاؤنگا۔ پھر قوم نے عمران خان کا یوٹرن بھی دیکھ لیا۔ کہ کس طرح جہاز بھر کر آزاد امید واروں کو اکٹھا کیا جا رہا تھا۔ ایم کیو ایم کو عمران خان پاکستان کے لئے کینسر قرار دیتے تھے۔ کراچی والوں کو زندہ لاشیں پکارتے تھے۔ اسی ایم کیو ایم پر عمران خان نے زہرہ آپاں کے قتل کا الزام لگایا تھا جو کہ پی ٹی آئ کی بنیادی رکن تھیں۔ آج عمران خان کی کرسی جن چار پائیوں پر کھڑی ہے ان میں سے ایک پایہ ایم کیو ایم کا ہے۔ پی ٹی آئ کی حکومت کے کمزور ہونے کے باوجود بھی اسے کوئ خطرہ نہی ہے کیونکہ بساط ایسی بچھائ گئ ہے کہ حزب اختلاف آپسی آختلاف میں مصروف ریئں گی۔ پیپلزپارٹی نے جس شرمناک سیاست کا آغاز کیا ہے وہ سب نے دیکھ لیا ہے مگر اس وقت پیپلزپارٹی پر غصے کے بجائے ترس آ رہا ہے۔ کیونکہ پیپلزپارٹی کی شہہ رگ زرداری کے ہاتھ میں ہے اور زرداری کی شہہ رگ بہت سے ہاتھوں میں ہے جیسے کہ ڈاکٹر عاصم، انور مجید، راؤانوار، عزیر بلوچ وغیرہ اور ان سب کی شہہ رگیں بھی تو کسی اور کے ہاتھ میں ہیں۔
مجھے جو بات پریشان کر رہی ہے وہ یہ ہے کہ اس کھینچا تانی میں بھی نقصان پاکستان کا ہوگا۔ اگر سکون سے عمران خان کو حکومت کرنے دی جائے اور کم از کم تین سال تک ان کی پالیسیوں پر ہاتھ ہولا رکھا جائے تو یہ سب کے لئے اچھا ہوگا اس سے سیاست میں محاز آرائ بھی ختم نہی تو کم ہوگی اور عمران خان کو بھی یہ بہانہ نہی ملے گا کہ مجھے کام نہی کرنے دیا گیا۔ ملک کو بہت سے چیلینجز کا سامنا ہے۔ معاشی عدم استحکام پر قابوپانا بہت ضروری ہے کیونکہ اس کے بغیر کوئ بھی منصوبہ اپنے انجام کو نہی پہنچ سکتا۔ ملک میں ڈیمزسب سے پہلی لسٹ پر ہونے چاہئے۔ کیونکہ آج اگر کسی ڈیم پر کام شروع کیا تب بھی اسے مکمل ہوئے ہوئے سات سے آٹھ سال لگ سکتے ہیں۔
ڈیمز کی تکمیل کے لئے اگر چند ترقیاتی منصوبے روکنے بھی پڑے تو سودا مہنگا نہی ہے۔ بھاشا ڈیم اور دیگر چھوٹے ڈیمز پر جتنا جلدی ہو کام شروع ہونا چاہئے اور کالا باغ ڈیم پر بھی قوم کو اکٹھا کرنے کے لئے سر جوڑ کر بیٹھنے کی ضرورت ہے۔ پانی سے زیادہ کوئ چیز اہم نہی ہے۔ موجودہ دور میں آسٹریلیا اور امریکہ جیسے ممالک کے کئ حصے قحط کے خدشے سے دوچار ہیں۔ عمران خان کو کام کرنے دیا جانا چاہئے اور اس کی ٹیم کو بھی مکمل سپورٹ ملنی چاہئے۔ ہاں ایک بات ہے کہ اس کی ٹیم کرے گی کیا کیونکہ عمران خان نے اعلان کیا تھا کہ وہ کسی بھی قومی اور صوبائ اسمبلی کے ممبر کو کوئ بھی ترقیاتی بجٹ نہی دیں گے تو پھر شہروں اور محلوں میں کام کیسے چلے گا اور کیا چھوٹے چھوٹے کاموں کے لئے بھی ان کو مرکز کی جانب دیکھنا ہو گا؟۔