ایک سو تیس کروڑ پر مشتمل ہندوستانی آبادی جس میں بے شمار ذاتیںن ظریات اور ثقافتیں موجود ہیں۔اسے جب ایک سرسری نگاہ سے دیکھا اور دکھایا جاتا ہے تو دو قومیں اور دو مذاہب میں تقسیم شدہ باور کرانے کی ہر ممکن کوشش ہوتی ہے۔وہیں جس وقت یہ تقسیم اور بانٹنے کا عمل جاری ہوتا ہے اس وقت تمام نظریات اور انفرادیت پر مبنی قوموں کو نظرانداز کرنے کا عمل بھی شعور طور پر جاری ہوتا ہے۔وجہ؟وجہ صرف یہ ہے کہ جو لوگ آغاز ہی سے پھوٹ ڈالو اور راج کرو کی پالیسی سے اتفاق رکھتے آئے ہیں یا یہ کہیے کہ وہ اس پالیسی میں معاون رہے ہیں،ان کے لیے آج بھی یہ پالیسی کامیابی کا ذریعہ ہے۔
شاید یہی وجہ ہے کہ ایک سو تیس کروڑ کی آبادی والا ملک جس میں مختلف قبائل،معاشرتیںاور مذاہب موجود ہیں،انہیں صرف دو رنگوں کے سوا کوئی اور رنگ نظر نہیں آتا۔لہذا وہ اس قدر عظیم آبادی کو صرف دو رنگوں میں رنگنے اور تقسیم کرنے میں مصروف ہیں۔اس تنوع کی ایک شکل یہ ہے کہ ملک کی 20فیصد آبادی شیڈول کاسٹ ہے جو تقریباً26کروڑ کے لگ بھگ شمار ہوتی ہے۔9فیصد آبادی شیڈول ٹرائب ہیں ،یہ بھی تعداد کے لحاظ سے 11.7کروڑ افراد ہیں۔41فیصد بیک ورڈ کلاس میں شمار کیے جاتے ہیں اور یہ آبادی 53.3کروڑ ہے۔اور30فیصد وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنی پہچان درج شدہ طبقات سے الگ رکھی ہے اور یہ آبادی 39کروڑ افراد پر مشتمل ہے۔اسی میں 17فیصد مسلمان اور 2.3فیصد عیسائی بھی ہیں جو بالترتیب 22کروڑاور3.09کروڑ کی آبادی پر مشتمل ہیں۔جس آبادی کا یہاں تذکرہ کیا گیا ہے گرچہ وہ ایک ہی ملک کے شہری ہیں اس کے باوجود ان کی معاشی، معاشرتی ،سماجی،سیاسی اور تعلیمی مسائل ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔انہیں ایک کامن پالیسی اور ایک پروگرام کے تحت برا بری کے مواقع میسر نہ ہوئے ہیں اور نہ ہی آئندہ ہونے کے امکانات ہیں۔اس کی بنیادی وجہ ان کے وہ مختلف نوع مسائل ہیں جو ایک کو دوسرے سے الگ کرتے ہیں۔اور درحقیقت یہی ان کی شناخت بھی ہے۔
ایک اور طریقہ ہے جس کی بنا پر آپ بخوبی سمجھ سکتے ہیں کہ ہندوستان کی ایک سو تیس کروڑ پر مشتمل آبادی گرچہ اِس کی اکثریت بت پرستی کی قائل ہے اور اسی کے تحت وہ اپنی مذہبی رسوم ادا کرتی ہے۔اس کے باوجود ان میں بے شمار دیوی دیوتا ئوں کی عبادت کا نظریہ موجود ہے۔ان میںچند مشہور دیوی دیوتا شیوا،برہما،وشنو اور شکتی دیوی ہیں۔مزید گنیش، لکشمی، شیشا،درگا،کالی،پاروتی،سرسوتی،گائیتری،وغیرہ مشہور ہیں۔ہندوئوں کی مذہبی تاریخ کے حوالے سے اورموجودہ زمانہ میں جاری عمل سے یہ بات مشہور ہے کہ ان کے دیوی دیوتائوں کی تعدادتین سو تیس ملین ہے۔ہر وہ چیز جو کسی بھی طرح سے انسان کو بظاہر فائدہ پہنچانے والی ہے یا وہ چیز جو بظاہر نقصان پہنچاتی ہے،اسے دیوی یا دیوتا مان لیا جاتا ہے۔اس کی حمد کی جاتی ہے،اس کے آگے سجدہ کیا جاتا ہے،اس پر چڑھاوے چڑھائے جاتے ہیں،اور اس سے عقیدت وابستہ کی جاتی ہے۔ یہاں تک کہ اسے بھگوان یا اس کی شکل میں بھگوان موجود ہونا تصورکیا جاتاہے اور پھر اس کی عبادت کی جانے لگتی ہے،یہاں تک کہ یہ سلسلہ عام ہو جاتا ہے۔برخلاف اس کے سکھ اور جین مذہب سے تعلق رکھنے والے نیز گوتم بدھ سے عقدیت رکھنے والے اپنے آپ کو سناتن دھرم سے الگ مانتے ہیں اور اپنی شناخت برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔وہیں اِن تمام مذاہب اور معاشرتی رسم و رواج پر عمل کرنے والوں کے علاوہ ایک سو تیس کروڑ کی آبادی میں خاصی تعداد ان لوگوں کی بھی ہے جو مورتی پوجا کے قائل نہیں ہیں۔ایک اللہ کو اپنا رب تسلیم کرتے ہیں اور وہ بھی اپنی مخصوص شناخت کے ساتھ اس ملک کا حصہ ہیں۔نیز وہ لوگ بھی اسی آبادی کا حصہ ہیں جو ایک اللہ کی بجائے خدائی میں تین کا تصور رکھتے ہیں اور ان کی تعداد بھی کچھ کم نہیں ہے،تقریباتین کروڑ سے کچھ زائد آبادی ان افراد کی بھی یہاں موجود ہے۔ہندوستان کی آبادی کی اس تقسیم میں دیکھا جائے تو ملک کا ہر شہری اپنی شناخت برقرار رکھتے ہوئے تعمیر و ترقی میں شامل ہونا چاہتا ہے۔لہذا آبادی کے اس متنوع تناظر میں ہر طبقۂ خاص سے تعلق رکھنے والوں کو کسی کامن پالیسی اور پروگرام سے آگے نہیں بڑھایا جا سکتا۔کیونکہ یہاں بھی ان مختلف نوع شناخت رکھنے والے افراد کے مسائل ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔اس لیے ایسے لوگ جو سمجھتے ہیں کہ ایک ہی رنگ میں پورا ملک رنگ جائے،وہ غلط ہیں۔اس سے نہ ملک کے اور نہ ہی اہل ملک کے مسائل حل ہوں گے اور نہ ہی کوئی بھی طبقہ یا گروہ ایک مخصوص رنگ میں رنگنے کے لیے اپنے آپ کو تیار پاتا ہے۔
ہندوستان کی ایک سو تیس کروڑ کی آبادی کی تقسیم کا ایک اور زاویہ ہے اس لحاظ سے بھی اس کا جائزہ لیا جا نا چاہیے۔اس میں ہمارے سامنے ملک میں موجود مختلف سیاسی پارٹیوں کا قیام واستحکام کا عمل سامنے آتا ہے۔گرچہ ہر سیاسی پارٹی اپنے دستور میں یہی درج کرتی ہے کہ وہ ملک اور اہل ملک کے مسائل کو حل کرنے،ان کی پریشانیوں کو دور کرنے،ملک کی تعمیر و ترقی میں اپنا کردار ادا کرنے کے لیے تشکیل دی گئی ہے۔اس کے باوجود جگ ظاہر ہے کہ فی زمانہ سیاسی پارٹیاں ملک کی آبادی کو مختلف عنوانات کے تحت تقسیم کرنے کا ذریعہ بنی ہیں اور آج بھی یہ کھیل جاری ہے۔اس پس منظر میں اگر دیکھا جائے تو فی الوقت ملک میں بڑی پارٹیوں میں شمار ہونے والی سیاسی پارٹی ،انڈین نیشنل کانگریس،بھارتیہ جنتا پارٹی،بہوجن سماج پارٹی،کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا،سماج وادی پارٹی،راشٹریہ جنتا دل،عام آدمی پارٹی،آل انڈیا ترنمول کانگریس ،AIADMK،AIUDF،DMK،JKNPP،JKPDP،جنتا دل سیکولر، جنتادل یونائٹیڈ وغیرہ قابل تذکرہ ہیں۔نیز ان کے علاوہ بھی ایک طویل فہرست اُن پارٹیوں کی موجود ہے جو وقتاً فوقتاً ریاستوں میں اور ملکی سطح کے انتخابات میں حصہ لیتی ہیں اور کچھ نہ کچھ ووٹ فیصد بھی حاصل کرتی ہیں۔یہ تمام سیاسی پارٹیاں جن کا تذکرہ کیا گیا وہ صرف سیاسی پارٹی ہی نہیں ہیں بلکہ ان میں سے بیشتر سیاسی پارٹیاں نظریاتی ہیں،جس کی بنا پر وہ خود کو دوسرے سے الگ پہچان بنانے میں کامیاب ہوتی ہیں۔اس کے دوسرے معنی یہ ہیں کہ ان پارٹیوں سے وابستہ افراد بلالحاظ مذہب و ملت،ان سیاسی پارٹیوں کے نظریات سے بھی وابستہ ہیں اور اپنی مخصوص شناخت کے ساتھ عوام کے سامنے آتے ہیں۔وہیں اس کے ایک معنی یہ بھی ہیں کہ ایک سو تیس کروڑ کی آبادی والا ملک اِن سیاسی پارٹیوں کے ذریعہ بھی تقسیم ہوتا رہا ہے۔ساتھ ہی ہر ایک پارٹی، دوسرے کو زیر کرنے کے لیے مختلف جائز و ناجائز طریقہ بھی اختیار کرتی آئی ہیںتاکہ وہ اقتدار سے لطف اندوز ہو سکیں۔لیکن شہریوں کی یہ تقسیم حد درجہ ہلاکت خیزاُس وقت ہو جاتی ہے جبکہ اِس تقسیم کا حصہ بننے کے نتیجہ میں وابستہ افراد کو اقتدار کی کرسی کے سوا کچھ نظر نہیں آتا،وہ ہر لمحہ یہی غور و فکر اور تک و دو کرتے نظرآتے ہیں کہ کس طرح دوسرے کی کرسی کو جلد از جلد ہتھیا لیا جائے اور کس طرح وہ دوسرے کو اقتدار سے دور کردیں۔
درج بالا گفتگو کے نتیجہ میں یہ بات خوب اچھی طرح سے واضح ہو جانی چاہیے کہ ایک سو تیس کروڑ کی آبادی کسی بھی لحاظ سے متحد نہیں ہے ،سوائے اس کے کہ انسانی بنیادوں پر اسے ایک سمجھا جائے۔وہیں یہ بات بھی واضح رہنی چاہیے کہ جو لوگ بے شمار منصوبوں پر ایک ساتھ عمل کرتے ہوئے ہندوستانی آبادی کو صرف ایک رنگ میں رنگنے اوراس کے لیے انہیں تقسیم کرنے کے منصوبوں پر کاربند ہیںوہ بہت جلد کامیابی حاصل ہونے والی نہیں ہے۔ہاں یہ الگ بات ہے کہ اگر تمام ہی لوگ ہاتھ پے ہاتھ دھر کے بیٹھ جائیں اور انسانی بنیادوں پر مسائل کے حل کے لیے نہ کھڑے ہوں تو ان کی کامیابی کے دروازے بظاہر کھلے نظر آتے ہیں۔لیکن ہندوستانی سماج کے خمیر میں جس کا ہر ایک حصہ دوسرے سے جدا ہے،اِس کے آثار نظر نہیں آتے۔ہاں اگر بزور قوت ایک رنگ میں رنگنے کی کوشش کی گئی تو اس کے نتیجہ میں ملک کی سا لمیت کو خطرہ پیدا ہو جائے گا۔لہذا ضروری ہے کہ ملک کی بقا،سا لمیت اور امن و امان کو برقرار رکھنے کے لیے ان تمام آئینی طریقوں کو کامن پلیٹ فارم کے ذریعہ حل کرنے کے اٹھ کھڑا ہوا جائے جو اس میں معاون و ممدو ہوں۔
Mohammad Asif Iqbal
تحریر : محمد آصف اقبال maiqbaldelhi@gmail.com maiqbaldelhi.blogspot.com