یہ پندرہ برس سے شاید زیادہ پرانی بات ہے کہ میں اپنے ایک عزیز کے ہمراہ اسے ائرپورٹ سے لینے جا رہا تھا راستے میں میں نے اپنے عزیز سے پوچھا کہ وہ خود کیوں نہیں ٹیکسی لے کے آ جاتا تو وہ کہنے لگے کہ وہ میرا جگری یار ہے اسی نے مجھے سی ایس ایس کروایا ہے میرا شاید اس سے وہ پہلا تعارف تھا تب سے آج تک اس نے مجھے چھوٹے بھائیوں کی طرح محبت دی.
چند روز قبل وہ کلب میں ٹریڈ مل پر تیز دوڑ رہا تھا، مشین 25 منٹ سے چل رہی تھی، 45 برس کا وہ سینئر بئوروکیریٹ لگ بھگ 30 برس کا نوجوان دکھائی دے رہا تھا، پچھلے کئی برس سے وہ اور اس جیسے چند ایماندار بیوروکریٹس ریلوے کی ڈوبتی ہوئی کشتی کے سوراخ بند کرنے میں سرگرم عمل تھے لیکن ابھی وہ ایک سوراخ بند کرنے میں کامیاب ہوتے کے مزید دو سوراخ کر دیے جاتے۔ وہ صرف بیروکریٹ ہی نہیں ماضی میں ایک وکیل بھی رہ چکا تھا، وہ قانون کے طالب علموں کا استاد بھی رہا اور کئی نوجونوں کو سی ایس ایس کروانے میں بھی کامیاب ہوا۔ میں نے اس کو سلام کیا اس نے مسکرا پر عزم نگاہوں سے جواب دیتے ہوئے میرے وجود کا سامنے لگے شیشے میں تعاقب کیا میں نے سوال داغا کہ حنیف بھائی کس کو ووٹ دیا؛ بغیر کسی توقف کے جواب آیا PTI کو میں نے اگلا سوال کیا کیوں آپ تو منسٹر صاحب کے کام کی تعریف کرتے ہیں کہ خواجہ صاحب سابقہ بلور کی نسبت بہت بہتر ہے اس نے کہا کہ بہت سی وجوہات ہیں لیکن سانحہ ماڈل ٹاون پر ن لیگ کے اندر سے آواز اٹھنی چاہیے تھی انہوں نے ظلم کیا ہے۔ میں خاموشی سے اس کو دیکھتا رہا تھا وہ ٹریڈ مل سے اتر آیا تھا وہ نرمی سے کچھ سمجھانے کی کوشش کر رہا تھا۔
وہ دو مشکل ترین پشاور اور کوئٹہ ڈویژن کا سربراہ رہا تھا اور جب روز ریل کی پٹری اور گاڑیوں میں دھماکے ہوتے تھے اس نے انتھک محنت سے کام کیا،دنیا کے بہترین اداروں سے تعلیم یافتہ؛ MIT امریکہ سے ڈگری یافتہ؛ برمنگھم یونیورسٹی برطانیہ سے ریلولے سسٹم میں ماسٹر کرنیوالا، ہیوبرٹ ہمفری فیلو وہ چاہتا تو دنیا کے کسی بھی ملک میں دولت کما سکتا تھا لیکن یہاں عزت کی خاطر ملک کو ڈلیور کرنے کے لیے اپنا اور بچوں کا مستقبل خراب کر رہا تھا، مجھے چند لمحوں کے لیے وہ زہین دماغ انتہائی احمق لگنے لگا میرے سامنے اس کی پندرہ سال پرانے ماڈل کی گاڑی تھی جو کچھ عرصے قبل ہی اس نے فروخت کی تھی۔ میرےسامنے میو گارڈن کلب کی بھی حالت تھی وہ جم خانہ اور رائیل پام جیسا تو بالکل نہ تھا۔ اس زہین احمق دماغ کا گھر اسی کالونی میں ہی تھا وہ چاہتا تو امریکہ یا یورپ کے کسی فائیو سٹار کلب میں ہوتا کم از کم 18 سال بیورو کریسی میں رہنے کے بعد ڈیفنس میں رہائش اور کسی اچھے کلب کی ممبر شپ تو افورڈ کر ہی سکتا تھا میں نے سر جھٹک کر اس کی جانب دیکھا وہ مجھے سمجھا رہا تھا کہ ہم سول سروینٹس ہیں اپنی تعلیم، قابلیت اور ٹریننگ کے مطابق ملک کو ڈلیور کرنا ہوتا ہے وہ بولتا جا رہا تھا کہ عمران خان ہماری امید ہے ہم سب اس کے سپاہی ہیں اب ہم انشاللہ سسٹم بدلنے میں کامیاب ہو جائیں گے اس سے بحث کرنا فضول تھا میں اس کی آنکھوں کی چمک کو ماند پڑتے نہیں دیکھنا چاہتا تھا۔
میں نے اس سے ابھی حال ہی میں سلیکٹ ہوئے ایک نوجون اسسٹنٹ کمشنر کی مافیا کے سامنے بے بسی کا تزکرہ کرنا چاہا جس کا میں کیس کر رہا تھا میں اسے بتانے ہی والا تھا کہ سسٹم میں تم جیسے ایماندار، ذہین اور وفادار لوگ جن میں جرات اور حوصلہ ہو وہ عموما قربانی کے بکرے ہوتے ہیں لیکن میں چپ کر گیا میں نے اسے نہیں بتایا کہ عمران خان کے ساتھ موجود دیگر سیاسی جماعتوں کے گندے انڈے اسے کچھ موثر نہیں کرنے دیں گے۔
میری ایک بات کے مقابل اس کے پاس بیسیوں دلائل ہوتے تھے، میں نے ہنس کر بس اتنا ہی کہا کے مجھے بھی خان سے امید ہے لیکن لاہور کا اب کچھ نہیں ہونے والا، وہ بھی ہنسنے لگا اور کہا کہ لاہور میں جتنا کچھ ہو چکا ہے اسی کو اگر مینٹین کر لیں تو کافی ہے؛ حکومت بدل چکی تھی اور جھوٹوں کا سردار جو میڈیا پر طوطا فال کا ماہر سمجھا جاتا تھا اب منسٹر ریلوے تھا یہ لوٹا منسٹر پہلے ہر سیاسی پارٹی کے ساتھ رہا تھا آج اس کا واسطہ ایک ایماندار، نڈر، بے لوث اور جرائت مند افسر سے تھا جو عزت کی خاطر نوکری کر رہا تھا جو خود کو عمران خان کا سپاہی سمجھتا تھا سڑک چھاپ منسٹر کے جانب سے اشفاق خٹک جیسے ایک اور زہین احمق دماغ کو بے عزت کئے جانے پر اس نے منسٹر کو ٹوک دیا ایک اور صاحب محفل کے مطابق ’’He said shut up, Gul replied you too shut up. He said I will see you, Gul ’’replied I will see you too اس نے کبھی کوئی کرپشن نہ کی تھی وہ ایمانداری،عزت، وقار، پاکستان، محب وطن اور اس جیسے خوبصورت الفاظ کے لیے نوکری کر رہا تھا اور اس نے منسٹر کے منہ پر طمانچہ مار کر بتایا کہ ہر کسی کا ڈرٹی پاسٹ اور ڈرٹی سیکریٹ نہیں ہوتا کچھ لوگ ایماندار بھی ہوتے ہیں۔
ابھی ریلوے میں اتنا تعلیم یافتہ اور ایماندار شاید ایک بھی زہین احمق دماغ نہیں ہے جو اس جیسے زہین عقلمند دماغ ہیں وہ یورپ میں ہوتےہیں اورجو عمران خان کا سپاہی تھا ایک ایسے منسٹر کے ہاتھوں شہید ہو گیا جو کل کو کسی اور کے ساتھ ہو گاسنا ہے کہ آج ایک اور سپاہی سی ایس ایس 2007 کا ٹاپر DPO رضوان بھی شہید کر دیا گیا ے، یہ سب کام کرنے والے محب وطن زہین احمق دماغ ہیں جو عقلمند ہوتے تو کسی اچھے ملک میں دولت کما سکتے خان صاحب سے گزارش ہے کہ منسٹر کو لگام ڈالو۔ اپنے فوجی آپ نہ مارو۔