آج سے تقریباََ چالیس سال پہلے جب صبح سویرے نماز فجر کی ادائیگی اور سکول جانے کے لیے ماں جی کی آواز کانوں کے پردوںسے ٹکراتی بیٹا اُٹھو جلدی کروورنہ دیرہو جائے گے تو ساتھ ہی صحن میںلگے جامن ،شہتوت کے درخت اور بیس مربع فٹ پر پھیلی انگوروں کی بیل سے چڑیوں کے چہچہانے اوربلبل کی شیریں آوازیں بھی سماعتوں میںرس گھولتی محسوس ہوتیں اور اکثر کوئوںکی کائیں کائیں بھی صبح ہوتے ہی سننے کو مل جاتی وقت گزرتا گیا سکول سے کالج /یونیورسٹی،ساتھ میں سوشل ورک اورصحافت کا شوق وجنون بچپن سے نوجوانی کی عمرکو خیر آباد کرتا جوانی اور پختگی کی دہلیزپر لے آیاگزرے وقت نے ضرورتوں کے تحت جہاں گھر کے نقشے میں بہت سی تبدیلیاں کر وائیںوہیں صبح سویرے کانوں کو بھلی محسوس ہوتی پرندوں کی آوازیں بھی کہیں گم ہو تی گئیں شہروں میں پرندوں کی ختم ہوتی نسلوں میں چڑیاں سب سے زیادہ متاثر ہوئیں شہروں میں شور کی آلودگی ،درختوں کی کٹائی اور کیمیکل ادویات کی سپرے نے کافی حد تک انکی تعداد کا خاتمہ کر دیا جس طرح وطن عزیز میں درختوں کوتیزی سے کاٹنے کا سلسلہ گزشتہ چالیس سال سے عروج پر رہا وہیں پرندوں کے شکار نے بھی بہت سے پرندوں کی نسلوں کے خاتمے میں اہم کردار ادا کیا۔
پاکستان میں پرندوں کے شکار پر پابندی ہونے کے باوجودشوقین شکاریوں کو ضرورت سے زیادہ شکار کرنے سے نہ روکاجا سکا بلکہ غیر ملکی مہمانوں کی پاکستان آمد اوراُنکے لیے شکارپر پابندی نہ ہونے کی وجہ سے بہت سے پرندوں کی نسلیں ختم ہوچکی ہیںپاکستان میں نایاب پرندوں کے شکار پر مکمل پابندی ہے لیکن کہا جاتا ہے کہ خلیج کی ریاستوں سے آنے والے با اثر خاندانوں کے افراد ان پابندیوں سے مستثنی قرارپاتے ہیں پابندی کا اطلاق صرف ملک کے عام لوگوں پر ہی ہوتا ہے غیر ملکی مہمانوں کا تعلق عرب اور خلیج کی ریاستوں کے حکمران اور امیرگھرانوں سے ہوتاہے،ستمبر کا مہینہ آتے ہی نقل مکانی کر کے پاکستان پہنچنے والے ہزاروں پرندوں کا عارضی مسکن انکے لیے مقتل گاہ بن جاتا ہے ،اگرچہ حکومت نے ان پرندوں کی حفاظت کے لیے بہت سی قانون سازی بھی کر رکھی ہے عالمی تنظیم برڈ لائف انٹرنیشنل کے مطابق ہر سال انتہائی شدیدسرد موسم سے بچ کر نقل مکانی کرنے والے پرندوں کے دو انتہائی اہم فضائی راستوں میں وسطی ایشیا سے مشرقی ایشیا تک اور وسطی ایشیا سے مشرقی افریقہ تک پاکستان سے ہو کر گزرتے ہیں ان راستوں کو استعمال کرنے والے پرندوں کی تعداد ماضی میں لاکھوں ہوا کرتی تھی جو نامساعد حالات کی وجہ سے اَب ہزاروںرہ گئی ہے جس کی بڑی وجہ موسمیاتی تبدیلیوں کے ساتھ ساتھ سرسبز علاقوں کی جگہ انسانی آبادیوں کا قائم ہونا آبی خطوں کا کم پڑجانا اورپرندوں کا اندھا دھن غیر قانونی شکار شامل ہے پاکستان کی جانب ہجرت کرنے والے اور پاکستان سے ہو کر گزرنے والے پرندوں میں سائبیریا ،روس اور دیگر سردعلاقوں کے یہ ہزاروں پرندے ہر سال تقریباََ چھ ماہ کے لیے پاکستانی جھیلوں اور ڈیموں کے کنارے یا پھر سرسبز خطوں میں عارضی قیام کرتے ہیںپرندوں کی موسمی ہجرت کے حوالے سے پاکستان کے کون کون سے علاقے خاص طور پر اہمیت رکھتے ہیںاُسکے لیے ورلڈ وائلڈ لائف فنڈ کاموقف پڑھنا اور جاننا ضروری ہے۔
مہاجر پرندے پاکستان میں شمال سے لے کر دریائے سندھ کے ساتھ ساتھ گیلی سرسبز زمینوں، جھیلوں کے کنارے یا ڈیموں والے علاقوں میں قیام کرتے ہیںیہ ہجرت کرنے والے پرندے سائبیریا سے افغانستان ، کوہ قراقرم ،کوہ ہندوکش ، کو ہ سلیمان اور دریا ئے سندھ کے ساتھ ساتھ پانچ ہزار کلو میٹر کی طویل مسافت کے بعد پاکستان کے اِن علاقوں میں آتے ہیں ان پرندوں میں مختلف اقسام کی مرغابیاں ، مگھ ، قاز،کونجیں، حواصل، لم ڈھینگ، بگلے، تلور،باز اور دیگرشامل ہوتے ہیںیہ مہاجرپرندے خیبر پختوں خواہ میں نوشہرہ، تانڈا ڈیم کو ھاٹ ، سوات ، چترال، تربیلاڈیم اور منگلا ڈیم جبکہ سندھ میں ہالیجی جھیل ، کینجھرجھیل (کلری جھیل )،اور دیگرآبی گزرگاہوں کو اپنی عارضی رہائش کے طور پر استعمال کرتے ہیں صوبہ پنجاب میں چشمہ بیراج ، ر سول بیراج، تونسہ بیراج، جناح بیراج، قادرآباد بیراج، ہیڈ اسلام،ہیڈ مرالہ ، ہیڈ خانکی ،ہیڈ تریموں ، ہیڈ بلوکی ، ہیڈ پنجند،ہیڈ سلیمانکی ، شا ہ پور ڈیم ، اور جھیلوں پر بسیرا کرتے ہیں پاکستان میں پرندوں کے تحفظ کے لیئے قانون سازی بھی کی گئی ہے جس پر عمل درآمد کے لیے محکمہ تحفظ جنگلی حیات و پار کس پنجاب قائم ہے۔
سانچ کے قارئین کرام :اب بات کرلیتے اُس اخباری خبر کی جو پرندوں اور جانوروںکے تحفظ کے لیے کی گئی قانون سازی کے بارے میں ہے وائلڈ لائف ایکٹ 2007کی دفعہ 21کی خلاف ورزی کا مرتکب اور کوشش کرنے والے شخص کے خلاف دفعات20,15,14,13,12,11,10,9 اور28 کے تحت کسی تحفظ شدہ جانوریا پرندے کو شکار کرنے،خصوصی لائسنس یا اجازت نامے کے بغیر شکار کے لئے باز یا شکاری کتے استعمال کرنے ،جنگلی جانور یا پرندہ مرا ہوا پائے جانے ،لائسنس کے بغیر جنگلی جانور یا پرندے کوقید میں رکھنے،اجازت کے بغیر کسی جنگلی جانور یا پرندے کو تحفتاََ دینے یا خریداری کرنے، اجازت نامے کے بغیر صوبے یا بیرون ملک سے جنگلی جانور یا پرندے کو منگوانے یا بھیجنے،اجازت نامے کے بغیر جنگلی جانوروں یا پرندے کا کاروبار کرنے،شوٹنگ لائسنس کے بغیر کسی بھی پرائیویٹ گیم یا وائلڈ لائف پارک میں شکار کھیلنے ، جنگلی جانور یا پرندہ پاس ہونے اور مجاز افسر کے کہنے پر نہ دکھانے میں سے کسی ایک کی خلاف ورزی پر کم از کم تین سال قید سزا دی جاسکے گی جس میں پانچ سال تک توسیع بھی کی جاسکے گی اور کم سے کم جرمانہ 50ہزار روپے اورزیادہ سے زیادہ ایک لاکھ روپے یا بیک وقت دونوں سزائیں مع دس سال تک کے لئے ضبطگی لائسنس اور معطلی لائسنس یا پرمٹ کی سزا ہے ،جبکہ دفعات 16،16ـA ، 17، 18اور18ـAکے تحت قیدکی سزا کم سے کم 3سال اور زیادہ سے زیادہ 7سال جبکہ جرمانہ ایک لاکھ سے 2لاکھ روپے یا بیک وقت دونوں اور ضبطگی ہتھیار، گاڑی ، دیگر اشیاء جو خلاف ورزی میں استعمال ہوئی ہیں ،اَب بات یہ ہے کہ کیا ان قوانین پر سختی سے عمل درآمد ہورہا ہے ؟
اگر نہیں ہو رہا تو اِس محکمہ کی کارکردگی پرسوالیہ نشان ہے لوگوں کی اکثریت کا کہنا ہے کہ ہماری لاعلمی اور لاپرواہی کی وجہ سے پرندوں کی بہت سے اقسام ختم ہوتی جارہی ہیں جس طرح گزشتہ تیس چالیس سال میں درختوں کی بے دریغ کٹائی کے بعد آج اپنی غلطی کا احساس ہر شخص کوہو رہا ہے اِسی طرح ماحول کو خوبصورت اور زندگی کا احساس دلاتے معصوم پرندوں کی نسلیں ختم ہونے کا نوٹس ہرذی شعور شخص کو لینے کی ضرورت ہے جنگلی حیاتیات کے تحفظ سے وابستہ مقامی اہلکاروں کا کہنا ہے کہ غیر قانونی طریقوںاورصاحب حثیت لائسنس یافتہ شکار کے شوقین افرا دکی جانب سے پرندوں کے بے دریغ شکارکی وجہ سے کئی اقسام نایاب ہوتی جا رہی ہیں۔