تحریکِ انصاف حکومت سنبھال چکی لیکن تاحال” سونامی” حرکت میں نہیں آئی۔ ہم انتظار میں ہیں کہ کب سونامی کا طوفانِ بَلاخیز کرپشن کے مگرمچھوں کو خَس وخاشاک کی طرح بہا لے جائے۔ اونچے ایوانوں کی ”پھرتیاں”دیکھ کر یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے ”نے ہاتھ باگ پر ہے ،نہ پا ہے رکاب میں”۔ جیتنے والے ”گھوڑوں” کی خواہشات عروج پرلیکن رَسد، طلب سے کہیں کم۔ 100 روزہ پروگرام کا لگ بھگ ساتواں حصّہ تو گزر بھی چکا لیکن عملی طور پر ہوا ”ککھ” بھی نہیں البتہ جو تھوڑا بہت سامنے آیا، اُس کی ایک جھلک ملاحظہ ہو۔
کپتان نے اپنے خطاب میں سادگی، احتساب اور ریاستِ مدینہ کی تشکیل کا وعدہ کیا۔ سادگی کا یہ عالم کہ کپتان وزیرِاعظم ہاؤس سے بنی گالہ تک کی 10 منٹ کی مسافت ہیلی کاپٹر پر طے کرتے ہیںجس پر ہا ہا کار مچی ہوئی ہے۔جب ارسطوانہ ذہن رکھنے والے وزیرِاطلاعات فواد چودھری سے رابطہ کیا گیا تو اُنہوں نے فرمایا کہ وزیرِاعظم ہاؤس سے بنی گالہ تک سفر کے لیے دو طریقے استعمال کیے جا سکتے تھے۔ پہلا یہ کہ وہ 50 گاڑیوں کے پروٹوکول میں سفر کرتے، سڑکیں بند کی جاتیں اور ”ہٹو بچو” کا شور اُٹھتا یا پھر ہیلی کاپٹر سے سفر کیا جاتا جس پر 50/55 روپے فی کلومیٹر صرف ہوتے ہیں۔ جب اُن سے پوچھا گیا کہ اخراجات کی سرچ آپ نے کہاں سے کی تو جواب ملا ”گوگل سے”۔ اگر ہمارے ایسے ہی ”گوگلی” وزراء ہیں تو پھر اِس ملک کا اللہ ہی حافظ۔ نوازلیگ کے مصدق ملک کہتے ہیں کہ فواد چودھری نے ہیلی کاپٹر نہیں ”چنگ چی” کا کرایہ بتایا۔ ماہرین کے مطابق ہیلی کاپٹر کے ایک گھنٹے کے اخراجات 4 ہزار ڈالر یعنی 5 لاکھ روپے ہیں۔ وزیرِاعظم ہاؤس سے بنی گالہ اور واپسی تک لگ بھگ 40 منٹ صرف ہوتے ہیںاور ہمارے نئے پاکستان کے بانی دِن میں دو،دو مرتبہ یہ سفر کرتے ہیں، حساب آپ خود لگا لیں۔ معروف لکھاری ارشاد بھٹی کا یہ ارشاد بھی ملحوظِ خاطر رہے کہ وہ اپنے دفتر آنے جانے کے لیے ہیلی کاپٹر کے استعمال کے 60 روپے فی کلومیٹر دینے کو تیار ہیں۔ سوشل میڈیا پر فی سواری 15 روپے کا اعلان بھی متواتر ہو رہا ہے۔
ایک سادگی ایوانِ صدر میں وزیرِاعظم کی حلف برداری کی تقریب میں بھی دیکھنے کو ملی۔ تحریکِ انصاف کی عندلیب عباس نے کہا کہ 2013 میں میاں نوازشریف کی حلف برداری کی تقریب پر 92 لاکھ روپے خرچ ہوئے جبکہ عمران خاں کی حلف برداری پر صرف 50 ہزار۔ جب عندلیب عباس سے اِس خبر کا ذریعہ پوچھا گیا تو اُس نے ایوانِ صدر کے ڈپٹی ڈائریکٹر عدنان کا نام لے دیا۔ ہمارے بال کی کھال اتارنے والے میڈیا رپورٹر بھلا کہاں رکنے والے تھے۔ وہ اِس خبر کی تصدیق کے لیے ڈی ڈی عدنان کی تلاش میں مارے مارے پھرتے رہے مگر اِس نام کا کوئی بندہ تو ایوانِ صدر میں کبھی تھاہی نہیں۔ ہو سکتا ہے کہ اب عندلیب عباس کسی ذیشان، رفحان ، ارسلان یا بجرنگی بھائی جان کا نام لے دیں۔ یہ بجا کہ کپتان کی حلف برداری پر 50 ہزار روپے صرف ہوئے لیکن ریکارڈ کی درستی کے لیے عرض ہے کہ شاہد خاقان عباسی کی حلف برداری پر محض 30 ہزار روپے خرچ آیا، یہاں بھی نوازلیگ بازی لے گئی۔
شاہد خاقان عباسی تو ایک دِن بھی وزیرِاعظم ہاؤس میں نہیں رہے۔ اُنہوں نے تنخواہ وصول کی نہ حکومتی خرچ پر سفر کیا۔ نوازشریف اپنے اور اپنے خاندان کے اخراجات اپنی جیب سے ادا کرتے تھے۔ اُن کی تنخواہ حیدرآباد کے ایک سکول کو جاتی تھی۔ میاں شہباز شریف کی تنخواہ ٹی بی ہسپتال کو جاتی اور اُنہوں نے بھی کبھی سرکاری خرچ پر بیرونی دورہ نہیں کیا۔ سادگی اپنانے کے لیے کپتان کو اُن سے ایک قدم آگے بڑھنا ہوگا۔ وزیرِاعظم ہاؤس کا معائنہ کرتے ہوئے کپتان نے بطور وزیرِاعظم پہلا حکم جاری کیا کہ نوازشریف دور کے اخراجات سامنے لائے جائیں۔ اُنہیں بتایا گیا کہ میاں نوازشریف تمام اخراجات اپنی جیب سے ادا کر چکے ہیں لیکن کپتان نے یقین نہ کیا۔ سلیم صافی لکھتے ہیں ”جب اُنہیں نوازشریف کی طرف سے سرکاری خزانے میں جمع شدہ چیک دکھائے گئے تو وہ حیرت زدہ اور خاموش ہوگئے”۔ اِسی کالم میں سلیم صافی لکھتے ہیں ”عمران احمد خاںنیازی اپنے لیے مختص بیڈ روم کی طرف گئے تو اُنہیں بیڈ پسند نہ آیا، چنانچہ اُن کی فرمائش پر نیا بیڈ منگوا کر لگا دیا گیا۔ اُسی شام فیصلہ ہوا کہ اگلی رات کو پارٹی اور حامی ممبرانِ اسمبلی کو وزیرِاعظم ہاؤس میں عشائیہ دیا جائے گا۔ چنانچہ 250 مہمانوں کے لیے سرکاری خزانے سے عشائیے کا اہتمام ہوا اور پھر نو منتخب وزیرِاعظم ہیلی کاپٹر میں وزیرِاعظم ہاؤس سے بنی گالہ کے لیے روانہ ہوئے جبکہ اگلے روز بھی ہیلی کاپٹر ہی میں وزیرِاعظم ہاؤس تشریف لائے”۔ جب سے سلیم صافی کا یہ کالم منظر ِ عام پر آیا ہے، تحریکِ انصاف کا ”گالم گلوچ بریگیڈ” انتہائی متحرک ہو چکا۔ ہم سلیم صافی کو مشورہ دیں گے کہ گالیاں کھا کے بَدمزہ ہونے کی بجائے ”لگے رہو صافی بھائی” کہ آوازِ سگاں کم نہ کند رزقِ گدارا”۔
ہمارے لال حویلی والے شیخ رشید احمد جو آجکل وزیرِ ریلوے ہیں، اُنہیں بھی سادگی کا شوق چرایا۔ اُنہوں نے ریلوے کے اخراجات میں 15 فیصد کمی کا اعلان کیا اور اعلیٰ سطحی میٹنگ میں ریلوے کے 100 ریسٹ ہاؤسز نیلام کرنے کا حکم جاری کر دیا۔ اُن کا یہ حکم نامہ ریلوے حکام نے ماننے سے صاف انکار کر دیا۔ وجہ اُس کی یہ تھی کہ ریلوے کے 11 ریسٹ ہاؤسز ہیںجن میں کل ملا کر 100 کمرے بھی نہیں۔ اب ہو سکتا ہے کہ شیخ صاحب پہلے 100 ریسٹ ہاؤسز بنائیں اور پھر اُنہیں نیلام کرنے کا حکم جاری فرمائیں۔ شیخ صاحب کی ”بونگیوں” سے تنگ آکر میٹنگ میں بیٹھے چیف کمرشل منیجر حنیف گل نے دو سال کی رخصت مانگ لی۔ اب اُنہیں او ایس ڈی بنا دیا گیا ہے۔
سادگی اختیار کرنے کا ایک اعلیٰ نمونہ اُس وقت سامنے آیا جب (ایک رپورٹ کے مطابق ) وزیرِاطلاعات ونشریات فواد چودھری نے بتایا کہ تحریکِ انصاف کی حکومت میں روزانہ 51 ارب روپے کی بچت ہو رہی ہے۔
اِس حساب سے سالانہ بچت 18 ہزار 600 ارب روپے سے زیادہ بنتی ہے جبکہ پاکستان کے سالانہ بجٹ کا تخمینہ لگ بھگ 4 ہزار ارب روپے ہے۔ یہ حساب کرنے کے بعد ہم مطمئن ہو کر گہری نیند سو گئے ۔ اب ہمیں بھی یقین ہو گیا کہ ایک کروڑ کیا، 100 کروڑ نوکریوں کا حصول بھی ممکن ہے، 50 لاکھ کی بجائے 5 کروڑ گھر بھی بن سکتے ہیں، سارے بیرونی قرضے اترنے کے بعد ٹیکس فری بجٹ بھی بن سکتا ہے۔ بابا رحمت ”ایویں ”خوامخواہ چندہ اکٹھا کرکے ڈیم بنانے کی تگ ودَو کر رہے ہیں۔ اب تو ہم اِس قابل ہو چکے کہ جتنے جی چاہے، ڈیم بنا لیں۔
یوں تو سادگی اور پروٹوکول نہ لینے کے دعوے بہت لیکن وزیرِاعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے سارے دعوے ہوا میں اُڑا دیئے۔ اُن کی حالت تو یہ ہے کہ ”پُکھے جٹ کٹورا لبھا، پانی پی پی آپھریا”۔ وہ اپنی فیملی کے ساتھ اب ہر وقت ہیلی کاپٹڑ میں پائے جاتے ہیں۔ پہلے اپنی فیملی کو سیر کروانے کے لیے پنجاب حکومت کا جہاز استعمال کیا، پھر اپنے دوست کے والد کی تعزیت کے لیے میاںچنّوں جا پہنچے۔ وہاں لگے ہاتھوں سرکاری ہسپتال کامعائنہ بھی کر آئے۔ ہسپتال کے اِس دورے کے دوران ڈاکٹر اُن کے استقبال کے لیے اکٹھے ہوئے اور ایک بچی اِسی غفلت کی بھینٹ چڑھ گئی۔ میاںچنوں سے پلٹے تو ہیلی کاپٹر پر ہی پاکپتن جا پہنچے۔ ہیلی سے اترنے کے بعد 18 گاڑیوں کے پروٹوکول میں با با فرید شکر گنج کے مزار پر گئے، راستے کی سڑکیں اور دکانیں بند کروا دی گئیں اور زائرین کو مزار پر حاضری سے روک دیا گیا۔ جس پر لوگوں نے شدید احتجاج کرتے ہوئے حکومت کے خلاف نعرے بازی بھی کی۔ شام کو بزدار صاحب ہیلی کاپٹر پر ہی وزیرِاعلی ہاؤس (7 کلب روڈ) تشریف لے آئے۔ یہ وہی جگہ ہے جہاں کسی زمانے میں میاں شہباز شریف بطور وزیرِاعلیٰ رہائش پذیر تھے۔ یہ سب کچھ دیکھتے ہوئے یہی کہا جا سکتا ہے کہ اِس سادگی پہ کون نہ مَر جائے اے خدا !