بغداد (جیوڈیسک) ایجنسیاں ایران نے عراق میں اپنی آلہ کار شیعہ تنظیموں کو بیلسٹک میزائل مہیا کر دیے ہیں۔ وہ عراق میں ان کی ٹیکنالوجی منتقل کررہا ہے اور تیاری کی صلاحیت بھی پیدا کررہا ہے تاکہ مشرق ِ اوسط میں ا س کے مفادات پر حملوں کا مقابلہ کیا جاسکے اور ایران کے علاقائی دشمنوں کو نشانہ بنایا جاسکے۔
اس بات کا انکشاف ایران کے تین عہدے داروں ، عراقی انٹیلی جنس کے دو ذرائع اور مغربی انٹیلی جنس کے دو ذرائع نے کیا ہے۔انھوں نے برطانوی خبررساں ایجنسی رائیٹرز کو بتایا ہے کہ ایران نے گذشتہ چند ماہ کے دوران میں عراق میں مختصر فاصلے تک مار کرنے والے بیلسٹک میزائل اپنے کٹھ پتلی اتحادیوں کو منتقل کیے ہیں۔پانچ عہدے داروں کا کہنا ہے کہ ایران عراق میں ان گروپوں کی اپنے میزائل خود تیار کرنے میں مدد دے رہا ہے۔
ایران کے ایک سینیر عہدے دار نے بتایا ہے کہ ’’عراق میں میزائلوں کی منتقلی کے پیچھے یہ منطق کارفرما ہے کہ اگر ایران پر حملہ کیا جاتا ہے تو اس کا ایک بیک اپ منصوبہ موجود ہو۔تاہم ان میزائلوں کی تعداد کوئی بہت زیادہ نہیں اور یہ چند ایک درجن ہیں لیکن اگر ضروری ہوا تو ان کی تعداد بڑھائی بھی جاسکتی ہے‘‘۔
ایران کے اس اقدام سے امریکا مزید نالاں ہوسکتا ہے اور ا س انکشاف کے منظرعام پر آنے کے بعد اس کے ساتھ جوہری سمجھوتے کو برقرار رکھنے کے خواہاں تین یورپی ممالک برطانیہ ،جرمنی اور فرانس بھی معترض ہوسکتے ہیں کیونکہ ایران پہلے یہ کہتا رہا ہے کہ اس کا بیلسٹک میزائل پروگرام خالصتاً دفاعی نوعیت کا ہے۔اب ان میزائلوں کی پڑوسی ملک عراق میں منتقلی کے بارے میں ایرانی عہدے داروں نے کسی تبصرے سے انکار کیا ہے۔عراقی حکومت اور فوج دونوں نے بھی اس حوالے سے کچھ کہنے سے انکار کیا ہے۔
عراق میں مبینہ طور پر منتقل کیے گئے میزائل الزلزال ، فتح 110 اور ذوالفقار 200 سے 700 کلومیٹر تک مار کرسکتے ہیں ۔انھیں اگر عراق کے جنوب یا مغرب میں نصب کیا جاتا ہے اور وہاں سے چلایا جاتا ہے تو وہ سعودی عرب کے دارالحکومت الریاض اور اسرائیل کے دارالحکومت تل ابیب کو نشانہ بنا سکتے ہیں۔
ایران کی طاقتور سپاہِ پاسداران انقلاب کی بیرون ملک میں عسکری سرگرمیوں کی ذمے دار القدس فورس کے عراق کے ان دونوں علاقوں میں اڈے موجود ہیں۔مذکورہ تین ذرائع کے مطابق القدس فورس کے کمانڈر میجر جنرل قاسم سلیمانی اس میزائل پروگرام کے نگران ہیں۔
واضح رہے کہ مغربی ممالک پہلے ہی ایران پر شام اور خطے میں اپنے اتحادیوں ،یمن میں حوثی ملیشیا اور لبنان میں حزب اللہ ملیشیا ،کو میزائل ٹیکنالوجی منتقل کرنے کے الزامات عاید کرچکے ہیں۔ایران کے سنی ہمسایہ عرب ممالک اور اس کا روایتی حریف اسرائیل پہلے ہی تہران کی علاقائی سرگرمیوں کے بارے میں اپنی تشویش کا اظہار کرچکے ہیں اور وہ انھیں اپنی سلامتی کے لیے ایک خطرہ قرار دیتے ہیں۔
ایک مغربی ذریعے کا کہنا ہے کہ ایران نے دسیوں میزائل عراق بھیجے ہیں۔اس اقدام کا مقصد امریکا اور ا سرائیل کو انتباہ جاری کرنا ہے ۔بالخصوص شام میں ایرانی فوجیوں پر فضائی حملوں کے بعد تہران نے یہ جوابی اقدام کیا ہے کیونکہ عراق میں امریکی فوجیوں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے۔اس ذریعے کا کہنا ہے :’’ بظاہر یہ لگتا ہے کہ ایران عراق کو اپنی فارورڈ میزائل بیس میں تبدیل کررہا ہے‘‘۔
ایرانی ذرائع اور عراقی انٹیلی جنس کے ایک ذریعے کا کہنا ہے کہ عراق میں شیعہ ملیشیاؤں کو میزائل ٹیکنالوجی مہیا کرنے کا فیصلہ کوئی اٹھارہ ماہ قبل کیا گیا تھا لیکن گذشتہ چند ماہ کے دوران میں میزائل لانچروں کی آمد کے بعد سے اس عمل میں تیزی آئی ہے۔
پاسداران انقلاب کے ایک سابق سینیر کمانڈر کا کہنا ہے کہ ’’ ہمارے بہت سی جگہوں پر اڈے ہیں اور عراق ان میں سے ایک ہے۔اگر امریکا ہم پر حملہ کرتا ہے تو پھر ہمارے دوست امریکی مفادات اور خطے میں اس کے اتحادیوں کو نشانہ بنائیں گے‘‘۔
مغربی اور عراقی ذرائع کا کہنا ہے کہ بغداد کے مشرق میں واقع الظفرانیہ اور جنوبی شہر کربلا کے شمال میں واقع جرف السخر میں فیکٹریوں کو میزائلوں کی تیاری کے لیے استعمال کیا جارہا ہے۔اس مقصد کے لیے ایک فیکٹری عراقی کردستان میں بھی کام کررہی ہے۔ یہ تمام علاقے عراق کی شیعہ ملیشیاؤں کے کنٹرول میں ہیں۔ان میں کتائب حزب اللہ بھی شامل ہے جو عراق میں ایران کی بڑی آلہ کار تنظیم سمجھتی جاتی ہے۔ ان تنظیموں سے تعلق رکھنے والے عراقیوں کو ایران میں میزائل آپریٹر کے طور پر تربیت بھی دی گئی تھی۔
امریکا کے ایک عہدے دار نے بھی اپنی شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اس امر کی تصدیق کی ہے کہ ایران نے گذشتہ چند ماہ کے دوران میں عراق میں اپنے حامی گروپوں کو میزائل منتقل کیے ہیں لیکن وہ اس کی تصدیق نہیں کرسکتے کہ آیا ان کے موجودہ ٹھکانوں پر ان میزائلوں کو چلانے کی صلاحیت ہے یا نہیں۔
عراق کے ایک انٹیلی جنس افسر نے ایران کی اپنے ملک میں اس طرح مداخلت اور میزائل ٹیکنالوجی کی منتقلی کے حوالے سے اپنی حکومت کی ایک طرح سے بے بسی ظاہر کی ہے۔ان کا کہنا ہےکہ ’’ ہم ملیشیاؤں کو ایرانی راکٹ فائر کرنے سے نہیں روک سکتے۔اس کی سادہ وجہ یہ ہے کہ ان کا فائرنگ بٹن ہمارے ہاتھ میں نہیں ہے۔یہ ایرانیوں کے ہاتھ میں ہے او ر وہی پش بٹن کو کنٹرول کرتے ہیں‘‘۔