ایک موقر قومی اخبار نے سردار عثمان بزدار سے متعلق اپنے ادارتی نوٹ میں لکھا کہ عمران خان کا بزدار کو وزیر اعلیٰ بنانے کا فیصلہ درست نظر آتا ہے۔اُن کا انتخاب جنوبی پنجاب کی محرومیاں دور کرنے اور پسماندہ علاقے کو ترقی کی راہوں پر گامزن کرنے میں ممدومعاون ثابت ہو سکتا ہے۔
جب سردار عثمان بزدار کو بطور وزیر اعلیٰ پنجاب نامزد کیا گیا تو اُس وقت چہروں پر فرعونیت کا ماسک چڑھائے جاگیردار اور سرمایہ دار سیاستدان حیرت سے باہم سرگوشیاں کرنے لگے کہ ایک غیر معروف اور پسماندہ ترین علاقے سے تعلق رکھنے والے سیاستدان کو وزیر اعلیٰ پنجاب بنایا جا رہا ہے۔یوں مارے شرمندگی کے بوسیدہ ،فرسودہ اور کرپٹ پالیٹکس کے نمائندہ سیاستدانوں نے منہ لٹکائے خاموشی کو ترجیح دی۔
ہمارے نئے وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے دو ٹوک الفاظ میں کہا ایسی کارکردگی دکھائوںگا جو ماضی میں کسی وزیر اعلیٰ نے نہیں دکھائی ہو گی۔وزیر اعلیٰ پنجاب کا یہ عہد اس وقت اہل سرائیکی اور اہل پنجاب کے دل کی ترجمانی ہے۔لوگ پُر اُمید بھی ہیں کہ بحیثیت وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار اُن کے بنیادی مسائل بخوبی حل کر سکتے ہیں کیونکہ موصوف پاکستان،خصوصا ً پنجاب کی پسماندہ تحصیل تونسہ کے پسماندہ ترین علاقہ کوہ سلیمان بارتھی سے تعلق رکھنے کی بناء پر سُلگتے بنیادی مسائل سے اچھی طرح آگاہ ہیں۔
آج سیاست کا متکبر طبقہ ماتم کُناں ہے کہ وہ شکست فاش سے دو چار ہو کرذلت و رسوائی میں جا گرا ہے۔قومی حلقہ 192سے پُر امن قبیلہ بزادر نے تخت لاہور کی مستقل باد شاہت کے دعویدار شہباز شریف جو کہ خادم اعلیٰ کہلانے کا دعویدار تھا کو تاریخ ساز اور عبرتناک شکست دے کر قبائلی اور قومی غیرت کا ثبوت دیا کیونکہ سابق وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف اور اس کے چہیتے اور رکھیل قسم کے نمائندہ مقامی سرداروں نے اہالیان ضلع ڈیرہ غازیخان کو سوائے محرومیوں کے کچھ نہ دیا۔سرکاری ہسپتالوںاور سرکاری تعلیمی اداروں کا گھٹیا معیار اس بات کا ثبوت ہے کہ سابقہ کرپٹ سیاسی نظام اور تخت لاہور کے خوشامدیوں نے یہاں کے شہریوں کا دانستاً شدید استحصال کیا اور یہ استحصال بالآخرواضح طور پر مسترد کر دیا۔ اس استحصال کی گونج حالیہ انتخابات سے قبل سنائی دینے لگی۔وقت کی سماعت سے جب یہ گونج ٹکرائی تو نتیجہ اس انداز سے سامنے آیا کہ اداروں میں اصلاحات کی دعویدار جماعت پاکستان تحریک انصاف بر سر اقتدار آگئی۔یوں چیئر مین پی ٹی آئی عمران خان ،وزیر اعظم پاکستان اور عثمان بزدار وزیر اعلیٰ پنجاب منتخب ہو کر اب عوامی اُمنگوں پر پورا اُترنے کے کُلیئے پرشایدعمل پیرا ہیں۔اب دیکھنا یہ ہے کہ پبلک کا یہ خواب کب پورا ہوگا۔۔؟
جب حلقہ این اے 192میں رہائش پذیر بزدار قبائل نے پی ٹی آئی کا ساتھ دے کر سیاست کے روایتی بت پاش پاش کیے تو اُدھر تخت لاہور میں وزارت عُلیاکے انتخاب میں میرے قبیلے کے چیف برادرم سردار عثمان بزدار نے سرائیکی خطے اور اس خطے کی زبان ، ثقافت اور روایات کے لیے استحصالی طبقے کے ایک طرح سے ایک رکن میاں حمزہ شہباز کو پچھاڑ کر یہ طُرہ اپنے سر کر لیا۔یہاں اس بات کی وضاحت بھی کرتا چلوں کی راقم نے قومی اسمبلی کے حلقہ 192میں بسنے والے بزدار قبائل کو شہباز شریف کی شکست اور حمزہ شہباز کی بزدار قبائل کے سردار عثمان کے ہاتھوں اس ہار کو بالخصوص ٹچ کیوں دیا۔۔؟ تو اس سلسلے میں عرض ہے کہ حلقہ این اے 192میں رہائش پذیر بزدار قبائل کے افراد مجموعی طور پر قانون کے معاون ،تعلیم یافتہ اور نہایت شریف الطبع ہیں۔یہ وجہ ہے کہ اس حلقہ میں بسنے والی دیگر برادریاںخاطر خواہ اور قابل ذکر عددی اکثریت نہیں رکھتی ۔ اس کے باوجود حلقہ میں سب سے زیادہ ووٹ بینک رکھنے والے بزدار قبائل کا شدید استحصال ہوا ۔ اس معزز و محترم قبیلے کی خواتین کو اسلحہ کے زور پر اغواء کیا گیا۔بزدار قبائل کے تعلیم یافتہ نوجوانوں کو نہایت ہی بے دردی سے قتل کر دیا گیا۔مقدمہ نمبر 147/18تھانہ چوٹی ،ایک مضبوط ثبوت ہے کہ بزدار قبائل کے دو تعلیم یافتہ نوجوانوں کو کس طرح آتشیں اسلحہ سے اندھا دھند فائرنگ کر کے قتل کیا گیا۔مذکورہ مقدمہ میں ڈیرہ غازی خان پولیس نے سفاک قاتلوں سے ملی بھگت کر کے مشہور زمانہ لنگڑا ٹائوٹ گینگ کے کہنے پر بھاری کرپشن کے عوض مقدمہ قتل کو کمزور کر دیا ۔لنگڑے سیاسی نظام کی لنگڑی پولیس نے لنگڑی تفتیش کے ذریعیقاتلون کو واضح ریلیف دیا۔ اب اس معاملے میں ساری خرابی اور بزدار قبائل کے ساتھ ناجائز زیادتی کا مداوا کون کرے گا۔۔؟نہایت ہی شریف اور قانون پسند بزدار قبائل کی نظریں نئے وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار تک جا کر ٹھہرتی ہیں اور ملتمس ہیں کہ قاتلوں کو شفاف اور بہترین تفتیش کے عمل سے گزار کر سرعام پھانسی دی جائے۔
2018ء کے انتخابات سے قبل اس وقت کے وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے اپنے دورہ چوٹی زیریں کے موقع پر ایم پی اے جمال لغاری کی میزبانی میں منعقدہ جلسہ سے خطاب میں چوٹی زیریں کے لیے کسی بھی پیکج کا اعلان نہیں کیا تھا اور نہ ہی چوٹی زیریں کو تحصیل کا درجہ دینے کی کوئی بات کی۔ اس وقت بھی چوٹی زیریں میں اندرون قصبہ مین بازار اور سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو کر نا پختہ ہو چکی ہیں۔ تھوڑی سی برسات میں بھی شہر کی گلیاں اور بازار تالاب اور جوہڑوں کا منظر پیش کرنے لگتے ہیں۔نواحی مواضعات نواں شمالی،دوداڑہ، متفرق چاہان،درخواست جمال خان، چک کانمہ وغیرہ میں زہر ملا پینے کا پانی صحت کے لیے نا موزوں ہے۔چوٹی زیریں، نواں شہراور درخواست جمال خان میں سرکاری ہسپتالوں میں علاج معالجہ کی سہولیات ذرہ برابر بھی نہ ہیں۔ چوٹی زیریں جیسے کثیر آبادی والے علاقہ کو اگر ڈھنگ کے سرکاری ہسپتال دے دیے جائیں تو شہری وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کے تہہ دل سے مشکور ہوں گے۔ ان دیہاتوں اور قصبات میں تعلیمی سہولیات کا شدید فقدان ہے۔پرائیویٹ سکولزاور ٹیوشن مافیاء نے سرکاری سکولوں کا بیڑا غرق کر دیاہے۔سرکاری اساتذہ نے پرائیویٹ ٹیوشن سنٹرز کھول کر طلبائوطالبات کا مستقبل نا صرف اندھیرے میں دھکیل دیا ہے بلکہ والدین کی معاشی مشکلات میں بھی اضافہ کر دیا ۔
ایک اہم بات کہ میڈیا کی خبروں کے مطابق وزیر اعظم عمران خان نے پولیس میں موجود کرپشن اور دیگر برائیوں کے خاتمے کے لیے وزیر اعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار کو خصوصی ٹاسک دے دیا ہے جو نئے پاکستان کی طرف اہم پیش رفت ہے۔وزیر اعلیٰ کا یہ کہنا کہ کرپشن کریں گے نہ کرنے دیں گے ،کرپشن کے خاتمے کے لیے بہترین فارمولا ثابت ہو سکتا ہے ۔اگر اس پر عمل ہو تو ۔۔۔۔