جدید جمہوری مملکتوں کو صحیح سمت میں چلانے کے لیے مملکت کے چار ستونوں میں میڈیا ایک اہم ستون ہے۔میڈیا اگر حقیقت پسندی سے کام لے اور مملکت کو دوسرے کاموں پر فوقیت دے تو مملکت میں مطلوبہ مثبت تبدیلی لائی جا سکتی ہے۔ مگر کیا کیا جائے بیرونی دنیا کے مقروض ترقی پسند ممالک کا کہ جس میں آزاد میڈیا کہاں ہے؟پاکستانی میڈیا کے محب وطن عناصر اس کی نشان دہی برسوں سے کرتے آئے ہیں۔امریکا نے پاکستان کو اپنی مرضی سے چلانے کے لیے میڈیا کے لیے کثیر رقم اپنے بجٹ میں رکھی تھی۔ جس کا ایک بڑا حصہ پاکستانی میڈیا کو ملتا رہا ہے۔ امریکی امداد لینے والے میڈیا کو پاکستان کے محب لوگ امریکی فنڈڈ میڈیا لکھتے آئے ہیں۔ امریکا بہادر مختلف طریقوں سے ملک کے نظاموں کو تبدیل کرنے کے لیے مختلف ناجائز حربے استعمال کرتا رہتا ہے۔ مثلاً کیری لوگر بل کو ہی لے لیجیے ۔اس امداد کے ذریعے پاکستان کو اپنی پالیسیاں کے تحت چلاتا رہا ہے۔ اس کے علاوہ غریب ملکوں کو قرضے دینے والے ادارے اس کے کنٹرول میں ہیں۔ اسلحہ بنانے والے بڑے بڑے اداروں پر اس کی اجاراداری ہے۔ وہ گریٹ گیم کے دوسرے ملکوں کے ساتھ ملا کر ملکوں کے نظاموں کو تبدیل کرنے کی کوششوں میں مصروف رہتا ہے۔پاکستان کی ہی مثال لیں۔ امریکا بھارت کی طرفداری کرتے ہوئے پاکستان میں دہشت گردی کی خاموشی سے حمایت کرتا رہا ہے۔پاکستان کی معیشت کو پہلے دہشت گردی سے تباہ کیا۔ پھر بھاری قرضے دلوا کر اس کو پالیسیاں تبدیل کرنے پر مجبور کرتا ہے۔ ڈو مور کے لیے کہتا رہتا ہے۔اب بھی عمران خان کی نئی حکومت کو ڈو مور کا پیغام اپنے وزیر خارجہ کے ذریعے دیا۔سابقہ حکومت کی ساری برائیاں عمران خان وزیر اعظم پاکستان کے کھاتے میں ڈال دی گئیں ہیں۔
عمران خان نے ملک میں تبدیلی کے لیے ٢٢ سال سے کوششیں کیں۔ بلا آخر اللہ نے اسے٢٠١٨ء کے انتخابات میں کامیابی دی۔عمران خان نے پاکستان میں بین لااقوامی معیار کے فلاحی ادارے قائم کر کے انہیں کامیابی سے چلایا۔ اس سے پاکستان کے عوام میں اس کے لیے ہمدردی پیدا ہوئی۔ ٢٠١٣ء کے انتخابات میں ووٹو ںکے لحاظ وہ نون لیگ کے بعد دوسرے نمبر پر اور پیپلز پارٹی تیسرے نمبر پر تھی۔مگر سیٹیں زیادہ لینے کی وجہ سے پیپلز پارٹی پاکستان کی پارلیمنٹ میں حزب اختلاف بنی۔گو کہ سیاست میں تجربہ نہ ہونے کی وجہ سے عمران خان کی پرانی پارلیمنٹ میں کارکردگی اچھی نہیں رہی تھی۔ پارلیمنٹ میں حاضری بھی کم تھی۔ پارلیمنٹ کے لیے نازیبا الفاظ بھی استعمال کرتے رہے۔ مگر پاکستان کے اسلای تشخص، یعنی علامہ اقبال کے خواب اور قائد کے وژن، اپنی ذات میں کرپشن سے پاک ہونے، خیبر پختون خواہ میں بہتر کارکردگی، اپنے کرپٹ ممبران کے خلاف سخت ایکشن ، کرپشن سے پاک انداز میں اپنے قائم کردہ ادارے چلانے کی وجہ سے پاکستان کے عوام نے عمران خان کے الیکشن میں کامیاب کیا۔ اصل میں کرپشن کی ماری پاکستانی عوام کسی مسیحا کی تلاش میں تھی جس کو عمران خان مل کیا۔
صاحبو! کم لوگوں کا دھیان اس طرف گیا ہے کہ سیاسی لیڈروں کے عام سیاسی وعدوں سے ہٹ کرعمران خا ن نے اپنی مہم کے دوران پاکستان کی ٩٠ فی صد خاموش آبادی کو ملک کے سب سے بڑے مسئلہ کرپشن کے ساتھ ساتھ ان کی اسلام سے محبت کی امنگوں کے مطابق پالیسی اختیار کی۔ اس نے کہا کہ میں علامہ اقبال کے خواب اور بانی پاکستان قائد اعظم کے وژن کے مطابق پاکستان کی حقیقی منزل مدینہ کی فلاحی اسلامی ریاست قائم کرنے کی کوشش کروں گا۔ جبکہ سیاست دانوں نے پاکستانی عوام کو کبھی روٹی کپڑا مکان اور اسلامی سوشلزم کے پر فریب نعرے لگا کر اس کی اصلی منزل سے دور کیا۔ کبھی طباء آزما فوجی ڈکٹیٹروں نے جابرانہ حکومت کی۔ ایک ڈکٹیٹر نے تو امریکا کا ساتھ دے کر ملک کا بیڑا غرق کیا۔ اس نے ملک کو پٹے ہوئے سلوکن روشن خیال کے تحت چلانے کی ناسود کوشش بھی کی۔
اس ملک کی اسلام سے محبت کرنے والی ٩٠ فی صد آبادی نے وہ سبق سکھایا کی آج مکافات عمل کے تحت ملک کا بگوڑابن کر بیرون ملک چھپا ہوا ہے۔نواز شریف نے بانی پاکستان قائد اعظم کے دو قومی نظریہ کی کھل کر مخالفت کی اور کہا کہ میں سیکولر ہوں۔ اس نے پاکستان کے بنیادی نظریہ کی مخالفت اپنے ذاتی مفادات کی وجہ سے کی۔ بھارت پاکستان کا ازلی دشمن ہے۔ موددی نے بنگلہ دیش میںبیان دیا تھا کہ بھارت نے پاکستان توڑا ہے۔ اس کا وزیر داخلہ کہتا ہے کہ پہلے پاکستان کے دو ٹکڑے کیے اب دس ٹکڑے کریں گے۔پورے بھارت میں دہشت گردموددی نے پاکستان مخالف جنگی جنون پیدا کیا ہواہے۔نواز شریف اسے ریڈ کارپٹ دے کر بغیر ویزے کے لاہور اپنی ذاتی رہائش گاہ جاتی عمرہ بلایا۔بھارت کے اسٹیل ٹائکون کو بغیر ویزے کے مری میں بلایا۔ عوام کی خواہشات کے برعکس مغرب کی خوشنودی کے لیے عاشق رسول ممتازقادری کو پھانسی پر پڑھایا۔ آج نواز شریف بھی ان ہی غلطیوں کی وجہ سے، مکافات عمل سے گزر رہا ہے۔
سیاست دانوں کو اس بات کو پلے باندھ لینا چاہیے کہ پاکستان میں وہ ہی سیاست دان کامیاب ہو سکتاے جو پاکستان کے ٩٠ فی صد خاموش آبادی کی نمائندگی کرے۔پاکستان کاخواب دیکھنے والے علامہ اقبال اور اس خواب میں رنگ بھرنے والے پاکستان کے بانی قائداعظم کے وژن کے مطابق اسے مدنیہ کی اسلامی فلاحی ریاست بنانے کی طرف گامزن ہو۔عمران خان نے اسے نعرے پر کامیابی حاصل کی ہے۔ اس نے اپنی پہلی تقریر میں اس وژن کا اعادہ بھی کیا ہے۔ملک سے محبت رکھنے والے ساری مذہبی اور دو قومی نظریہ اور مدینہ کی فلاحی اسلامی ریاست سے محبت کرنے والے سارے عناصر کو عمران خان کے ہاتھ مضبوط کرنے چاہیے۔اس وقت عمران خان کے پاس وہ ہی پرانی سیاسی لوگ ہیں۔ ان سے غلطیاں سر زد ہو رہی ہیں۔
وقت آنے پر جلد ہی عمران خان ان لوگوں تبدیل کر دے گا۔ پھر وہی لوگ رہ جائیں گے جن کو عمران خان کے وژن سے مکمل لگائو ہو گا۔مملکت کے چوتھے ستون میڈیا کو بھی مثبت تنقید ضرور کرنی چاہیے ۔ تنقید سے ہی ملک صحیح سمت چلا کرتے ہیں۔اگر تنقید پاکستان کے آئین اور اس کی احساس مدینہ کی اسلامی فلاحی ریاست بنانے کے لیے ہو گی تو سر آنکھوں پر۔ اگر میڈیا کے کچھ سیکولرعناصر اپنی پرانی روش پر چلیں گے تو یہ مناسب نہیں۔ اس سے پاکستان کی منزل دور ہو جائے گی۔ اب پاکستان اس کے لیے تیار بھی نہیں۔ مملکت کا چوتھا ستون میڈیا، عمران خان کی حکومت کو کم از کم تین ماہ کا عرصہ دے تاکہ وہ اپنی منزل کا راستہ متعین کر لے۔ پھر آپ کھل کر تنقید کریں۔ اللہ پاکستان کی منزل آسان کرے۔ آمین