نظام عدل بے مثال، تھپڑ 35 لاکھ میں لیکن 14 خون معاف

Justice

Justice

تحریر : صادق مصطفوی

پاکستان میں نظام کی خرابیوں پر اکثر بات کی جاتی ہے۔ پاکستانی عوام اس نظام کے ظلم و ستم کی چکی میں ایسے پستی رہتی ہے کہ جیسے کہ یہ ظالم نظام بنایا ہی ان کیلئے ہو ۔ عوام کے حقوق کی بات کرنے والی سیاسی جماعتوں نے جمہوری ت کے نام پر قانون میں ہمیشہ اپنے مفاد کیلئے ترمیم کی ہیں۔ اس نظام میں ایک سپاہی کی پوسٹ کیلئے تو تعلیم کی شرط ہے ، مگر ملک چلانے کیلئے تعلیم کی کوئی قید نہیں ۔ اس لیے توسر عام کہتے ہیں کہ ڈگری تو ڈگری ہوتی ہے اصلی ہو یا نقلی۔ اس نظام میں کسی بھی سرکاری ملامت کیلئے پولیس کی طرف سے کلیئرنس سرٹیفکیٹ ضروری ہوتا ہے کہ جبکہ اسی نظام میں آپ دہشت گردی، کرپشن جیسے سنگین جرم میں ملوث ہو نے کے باوجود جیل سے بھی الیکشن لڑ سکتے ہیں۔

سابقہ صدور اور وزیر اعظم کی اکثریت کو دیکھ کر تو لگتا ہے کہ جیسے ان عہدوں کیلئے جیل کا سرٹیفکیٹ لازمی ہو۔کیا یہ ہی ہے اس نظام کا عدل ؟ ۔روٹی، کپڑا اور مکان کے بعد انصاف ہی عوام کی سب بڑی ضرورت ہوتی ہے ۔جبکہ عوام جس کیلئے در بدر پھرتے ہیں وہ انصاف ہی تو ہے۔ غریب اور امیر کیلئے قانون کے دوہرے معیار نے پر ہمیشہ سوالیہ نشان اٹھتے رہے۔ ماڈل ایان علی کا تفشیشی افسر چوہدری اعجاز زمین کے نیچے قبر میں موجود ہے اور زمین کے اوپر ایان علی لشکارے مارتی پھر رہی ہے۔ وزیر اعلی پنجاب شہباز شریف ہوں یا وزیر ریلوے سعد رفیق ہوں اس نظام عدل کی بدولت سٹے پر اپنا 5سالہ دورِ حکومت مکمل کر لتے ہیں ۔ اس قانون کا اس کا اصل چہرہ تو اس ماں نے دیکھا دیا تھا جس نے معزز جج کے سامنے قتل کا مقدمہ واپس لتے ہوئے یہ کہا کہ میں اتنا مہنگا اور کئی سالوں پر محیط انتظار کے بعد فیصلہ ہونے والا کیس نہیں لڑ سکتی ، کیونکہ قاتل طاقتور لوگ ہیں ۔

تحریک انصاف کراچی کے ایم پی اے عمران شاہ کے ایک شہری کو تھپڑ مارنے پر پارٹی کی طرف سے 5لاکھ کا جرمانہ کیا گیا ۔ اس شہری کے گھر جا کر معافی مانگ لی گئی ۔ لیکن چیف جسٹس نے پھرتی دیکھاتے ہوئے از خود نوٹس لے کرمزید 30لاکھ روپے جرمانہ کی سزا سنا دی۔ کیا چیف جسٹس کے پاس اتنا ہی فری ٹائم ہے کہ ملکی سطح کے اہم کیس چھوڑ کر ایک نجی کیس پر از خود نوٹس لے کر اپنی مصروفیات میں اضافہ کیا ؟ کیا چیف جسٹس نے اب تک لیے گئے سوموٹو ایکشن کے عمل درآمد کا جائزہ بھی لیا یا پھر صرف ایکشن میں نظر آنے کیلئے ہی ایکشن لیے جا رہے ہیں۔

معزز چیف جسٹس ایک عام شہری کو تھپڑ کا انصاف دلانے کیلئے تو ایکشن لے رہے ہیں لیکن قصور کی معصوم زینب پر جو ایکشن لیتے ہوئے فوٹو سیشن ہوا تھا اس کا حساب یاد ہے کہ اس کو انصاف ملا یا نہیں؟ حکومتی دہشت گردی کے واقعہ سانحہ ماڈل میں 14 شہدوں کے خاندان چار سال سے انصاف کیلئے قانون کا راستہ اختیار کیے ہوئے ہیں ۔ شہدہ کی بیٹی بسمہ امجدکے سر پر شفقت کا ہاتھ رکھتے ہوئے جو فوٹو سیشن ہوا تھا ، اس کی تصویریں بھی فائل کی نظر ہو چکی ہیں ۔ سانحہ ماڈل ٹاؤن کیس کے روزانہ کی بنیاد پر سماعت کا حکم دے کر کیس کو پہلے کی نسبت مزید ایسے تاخیر کے راستے میں ڈال دیا جیسے عدالت نے 14خون معاف کر دیے ہوں۔

صرف ایکشن لینے سے عوام کو انصاف نہیں ملے گا بلکہ چیف جسٹس صاحب سے گزارش ہے کہ اب تک لیے گئے سوموٹو ایکشن کی لسٹ بنا کر ان پر بھی ایک سوموٹو ایکشن لیں اور عدالتی احکامات پر فوری عمل درآمد کو یقینی بنانے کیلئے قانون سازی کریں اور ان سوموٹو ایکشن احکامات کو داخل دفتر کرنے والوں کو بھی کٹہرے میں لے آئیں ۔معزز چیف جسٹس ثاقب نثار صاحب یہ نہ ہو کہ آپ کے جانے کے بعدآپ کا نام بھی جنرل راحیل شریف، جسٹس افتخار چوہدری کی طرح عملی فیصلہ جات کی بجائے فوٹو سیشن کرانے والوں کی لسٹ میں شامل ہو۔

Muhammad Sadiq

Muhammad Sadiq

تحریر : صادق مصطفوی