“”النساء “” اور “””وہ جو اللہ کی راہ میں جان و مال سے جہاد کرتے ہیں دونوں کی حیثیت یکساں نہی ہے اللہ نے بیٹھنے والوں کی بہ نسبت جان و مال سے جہاد کرنے والوں کا درجہ بڑا رکھا ہے اگرچہ ہر ایک کیلیۓ اللہ نے بھلائی ہی کا وعدہ فرمایا ہے مگر اس کے ہاں مجاہدوں کی خدمات کا معاوضہ بیٹھنے والوں سے بہت زیادہ ہے اُن کیلیۓ اللہ کی طرف سے بڑے درجے ہیں اور مغفرت اور رحمت ہے اور اللہ بڑا معاف کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے سبحان اللہ””” آنکھوں کے سامنے بدر احد حنین تبوک خندق خیبر معرکہ حق و باطل لا الہ الا اللہ کا اصرار دوسری طرف بتوں کی پرستش کا اصرار دونوں کے درجات الگ الگ فرقان واضح ہو گیا کہ اسلام “”مساوات”” کا یعنی”” برابری”” کا دین نہیں ہے بلکہ “” دینِ عدل”” ہے اللہ تعالیٰ نے گو بھلائی کا وعدہ سب سے کر رکھا ہے مگر راہِ حق میں نکلنے والوں اور ان سے محاذ آرا ہونے والوں کا فرق واضح کیا گیا اسی طرح جہاد کے موقعہ پر گھروں میں دانستہ رہنے والوں پر اللہ کی راہ میں نکلنے والوں کو “” مقدم”” قرار دیا گیا جہاد تلوار سے بھی ہے اور جہاد علم کا پھیلاؤ بھی ہے اللہ پاک جب کسی قوم سے بھلائی کا ارادہ کرتا ہے تو انہیں جہالت سے نکال کر علم کی روشنی عطا کرتا ہے سنت رسولﷺ بھی یہی ہے علم بانٹا جائے ہر دور میں اللہ سبحانہ تعالیٰ کے چنے ہوئے بندوں یہ اہم فریضہ سر انجام دیں گے خوش نصیبی ہماری کہ اپنی ذات میں اسلام کا عنوان ہیں استادوں کی استاد محترمہ فرحت ھاشمی صاحبہ امت کی ماوؤں کی سوچ کا رخ موڑ دینے والی ہستی اسلام کیا ہے؟ کاش سکول کالج یونیورسٹی میں پڑھانے والے اس انداز سے اس درد سے اور محبت سے بیان کریں تو آئیندہ 15 سال میں ہم پھر سے وہ “”امت”” بن سکتے ہیں جس کے قصے ہمیں صرف کتابوں میں تاریخ بتاتی ہے مایوس ہو کر ہاتھ پر ھاتھ رکھے بیٹھنا نہیں بلکہ اپنے حصے کی شمع جلانی ہے جبھی سویرا ہوگا دین کا سویرا “”شکوہ شب ظلمت سے تو کہیں بہتر تھا اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جائیں”” استاذہ نے مشعل اسلام جلائی اور آج دنیا بھر میں ایسی کئی شمعیں روشن ہو کر آگے روشنی پھیلا رہی ہیں چراغ سے چراغ جلتے جا رہے ہیں مگر تاحال ابھی بھی کہیں بے دینی کا گہرا اندھیرا ڈیرہ ڈالے بیٹھا ہے اور الحمد للہ استاذہ کو اللہ سبحانہ تعالیٰ وہاں وہاں لے جاتے ہیں جہاں جہاں ان کی ضرورت ہے یہ کرم ہے اللہ کا ایسے لوگ اپنی ذات کی نہیں امت کی خیر چاہتے ہیں اور یہی ہیں وہ لوگ جو تاریخ میں محفوظ ہو جاتے ہیں “”دور ابراہیمؑ کی چڑیا جیسے”” اللہ پاک کی طرف سے کوشش کا تقاضہ ہے نتیجے کا نہیں اسی لئے تو نتائج کی پرواہ کئے بغیر نیک کام کا آغاز فورا کر دیتی ہیں “”مقصد”” نسل کی تربیت اور امت میں خیر بانٹنا ہے بزریعہ استاد “” درست دینی علم”” کا پھیلاؤ آج بھی مؤثر ہے بغیر استاد علم ایسا ہی ہے جو آجکل ہم دیکھتے ہیں بے روح بے اثر “””رہ گئی رسمِ اذان روح بلالی نہ رہی فلسفہ رہ گیا تلقین غزالی نہ رہی””” “”اللہ جس سے بھلائی کا ارادہ کرتا ہے اسے دین کا فہم عطا کرتا ہے جسے دین کا فہم ملا اسے خیرِ کثیر ملی “”” یہ فہم اللہ خاص مخلص لوگوں کو عطا کرتا ہے اسی لئے تو آج بھی گمراہی کی تاریکی میں علم کا نور جہاں داخل ہوتا ہے حق کو “”فرقان “” بنا دیتا ہے اور تبدیلی کا عمل شروع ہوتا ہے الحمدللہ حال ہی میں مجھے علم ہوا کہ استاذہ کینیڈا میں قیام پزیر ہیں تبلیغی نقطہ نظر سے وہاں دور دراز علاقوں میں تشریف لے گئیں کچھ شہر ایسے تھے جہاں صاف ستھری مساجد اور اسلام کے چاہنے والے لوگ بڑی تعداد میں موجود تھے کہیں تو ایسا پر جوش استقبال کیا گیا کہ خوشی ہوئی ابھی اسلام اور اس کے علمائے کرام کی تعظیم کا شعور موجود ہے کہیں ایسی صورتحال بھی دیکھنے میں آئی کہ جہاں آباد تو مسلمان تھے مساجد بھی موجود تھیں مگر مساجد ویراں اور نمازی غائب سکوت جیسے نوحہ کناں ہے مکینوں کی بے حسی پر نہ تو امام صاحب کا مستقل قیام ہے اور نہ پانچ وقت نمازوں کے لئے کوئی انتظام امت کی ماں جیسی ہستی اس ویرانی پر تڑپ اٹھیں اچھی ماں اولاد کے عیب ڈھانپ لیتی ہے اسی طرح ان علاقوں کے مکینوں کی دین سے دوری پر استاذہ خاموش ہیں وہ لوگوں کے مثبت اسلامی رویّے پر تو کھل کر بات کرتی ہیں کہ اسلام کا مثبت رخ سامنے آئے اور پڑھنے سننے والوں کو نئی راہ ملے مگر جہاں ایسا تاریک رخ دیکھتی ہیں وہاں ان کی سوچ میں اضطراب کسی کی لاپرواہی کی وجہ سے نہیں اٹھتا بلکہ وہ اپنا ہی احتساب کرتی ہیں کہ یہاں پہلے نگاہ کیوں نہیں گئی ؟ خود کو قصور وار ٹھہراتی ہیں سبحان اللہ اعلیٰ اخلاقی اقدار، کا دعویٰ کرنے والی آج کی نسل بزرگوں کی بنائی ہوئی مساجد میں نماز پڑہنے کی بجائے قدیم تاریخی ورثہ سمجھتے ہوئے قریب سے گزر جاتی ہے استاذہ کی سوچ میں پُر امید اصرار ہے کہ “”ان نسلوں کو بچانا ہے”” “”وقتِ فرصت ہے کہاں کام ابھی باقی ہے نورِ توحید کا اتمام ابھی باقی ہے “” انشاءاللہ ایسا ہی ہوگا ہم سب دیکھیں گے کہ کیسے اس زمین (نسل ) کی آبیاری قرآن تعلیمات سے ہوگی دل کی مٹی نرم ہوگی دیکھتے ہی دیکھتے اس نسل میں سے کیسے کیسے گوہر نایاب ظاہر ہوں گے کیونکہ علم دیتے ہوئے جس باریکی اور جس مہارت سے استاذہ محترمہ کسی آیت کو اس کے تاریخی حوالے کے ساتھ اس میں موجود ضمائر کو اسم کو فاعل مفعول کو پرسکون انداز میں سمجھا کر پھر اسے دہراتی ہیں ان کی محنت قرآن کو آسان کر کے دل پر نقش کر دیتی ہے ایک طرف استاذہ ہیں اور ان کی ساتھی خواتین جہاد کرنے والی یہ مجاہد خواتین قدم قدم پر نئے محاذ پر صف آراء ہیں اور دوسری طرف ہم ہیں آرام دہ گھر رشتے ناطے دوستیاں اولادیں شادیاں بڑہاپا اور آخر میں وہی عام موت زندگی مسلمان خاص طور سے”” مومن”” کی زندگی نہیں ہے آج ہم سب اپنے فرائض سے بے خبر حقوق سے لا تعلق نتیجہ غیر اسلامی رسومات کے بوجھ تلے امت خاص طور سے پاکستانی قوم دفن ہو کر رہ گئی صرف سامان زیست کے حصول نے آپس کے رشتے میں اخلاص ختم کر دیا اتنے کم پے اتنے قیمتی انسان نے سمجھوتہ کر لیا؟ ہم نے “”فرضِ کفایہ”” کہ کر کچھ”” حساس افراد”” کو اسلام کی تبلیغ نشر و اشاعت کی ذمہ داری سونپ دی خود بے شعور اندھا دھند بھاگتے جا رہے ہیں استاذہ اور ان جیسی ہماری معزز دیگر محترم ہستیاں تو اپنی زندگی اللہ کے راستے میں قربان کر گئیں دین کو “”بحر ظلمت سے”” چشمہ بقاء”” تک لے گئیں مگر ہمارا کیا ہوگا؟ کیا ہمارے اتنے اژدھام میں ایک گروہ بھی ایسا نکلا جو دینی منتشر لوگوں کیلئے سوچتا ؟ ان کے لئے کچھ کرتا ؟ استاذہ کا درد احساس اپنی جگہ لیکن کیا یہ درد صرف استاذہ کو محسوس کرنا ہے؟ جاگ جائیں مومن تو اپنی ذات میں مکمل کتاب ہے جس کے ورق ورق سطر سطر پر قرآن کے احکامات چسپاں ہیں اور وہ مایوس نہیں ناکام نہیں ناراض نہیں سست نہیں بد دل نہیں ہر وقت اللہ کی راہ میں مستعد سرشار پُرعزم اپنے ساتھ ساتھ دوسروں کا نفع سوچتا ہے جو پاس ہے اسے بخوشی بانٹتا ہے وہ علم ہو یا مال یا وقت وہ حریص ہے “”امت کے ہر فرد کی خیر کا”” ہم نے کہاں کیا حصہ ڈالا؟ آج نئے علاقے کے لوگوں کو اسلام سے دور دیکھ کر استاذہ اداس ہیں حصے سے زیادہ کام کر کے بھی آج خود سے سوال کر رہی ہیں وہ وہ اُن لوگوں پر کوئی بات نہیں کریں گی کیوں؟ اس لئے کہ بڑے لوگوں کا بڑا ظرف یہی تو ہے اللہ والے گناہ سے نفرت کرتے ہیں گناہ گار سے نہیں امید واثق ہے کہ ان خاموش علاقوں میں احیائے اسلام ہوتے ہم سب دیکھیں گے ان کے بیان کی تاثیر سے کون”” بچ”” سکے گا ؟ نجانے مستقبل میں کتنی خیر اور کیا ثمرات ان ویراں مساجد سے ملیں وہ اللہ ہے جو ہر مردہ کو زندہ کرے گا “”مردہ انسان بھی ہے اور علم بھی “” آج قرآن عملی طور پے اصل حالت میں موجود ہے مگر علمی اعتبار سوچ کے رخ بدل چکے ہیں ہم نے قرآن مجید کو اپنے عمل سے ورق ورق کر دیا اصل تعلیمات کو گم کر بیٹھے استاذہ انہی بکھری ہوئی سوچوں کے اوراق کو پھر سے جوڑ کر اصل قرآن کا شعور بانٹ رہی ہیں “”میرے سامنے جو کتاب ہے وہ بکھر گئی ہے ورق ورق ہمیں اپنے حصے کے نصاب میں اسے جوڑنا ہے سبق سبق “” اللہ سبحانہ و تعالیٰ استاذہ محترمہ کی ان کی ساتھیوں کی محنت کو قبول و منظور فرمائے اور دنیا کے چپے چپے میں جہاں جہاں گمراہی ظلمت موجود ہے اللہ انہیں لے جائے اور اپنے بندوں کو جہنم کی آگ سے بچا لے آمین “”کرو مہربانی تم اہل زمیں پر خُدا مہرباں ہوگا عرشِ بریں پر”