بصرہ (جیوڈیسک) عراق کے جنوبی شہر بصرہ میں بدھ کو سکیورٹی فورسز نے مظاہرین کے ساتھ جھڑپوں کے دوران میں دوبارہ فائرنگ کردی ہے۔ گذشتہ روز سکیورٹی فورسز کی براہ راست فائرنگ سے چھے مظاہرین ہلاک اور کم سے کم تیس زخمی ہوگئے تھے۔
فرانسیسی خبررساں ایجنسی اے ایف پی سے وابستہ ایک صحافی نے بتایا ہے کہ شہر میں واقع صوبائی حکومت کے علاقائی ہیڈ کوارٹرز کے باہر ہزاروں مظاہرین اپنے مطالبات کے حق میں احتجاج کررہے ہیں ۔سکیورٹی فورسز کے اہلکار وں نے انھیں منتشر کرنے کے لیے اشک آور گیس کے گولے پھینکے ہیں اور فائرنگ کی ہے۔
لیکن ان کا مظاہرین کو منتشر کرنے کا یہ حربہ ناکام رہا ہے۔اس کے جواب میں انھوں نے سکیورٹی اہلکاروں کی جانب آتش گیر مواد اور پٹاخے پھینکے ہیں جس سے صورت حال کشیدہ ہوگئی ہے۔
عراق میں اقوام متحدہ کے ایلچی نے بصرہ میں امن وامان کے قیام کی ضرورت پر زوردیا ہے اور حکام سے مظاہرین کے خلاف طاقت کے غیر متناسب اور مہلک استعمال سے گریز کا مطالبہ کیا ہے۔
عراقی وزیر اعظم حیدر العبادی نے منگل کو بغداد میں اپنی ہفتہ وار پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ انھوں نے ہوائی اور مظاہرین کی جانب براہ راست فائرنگ نہ کرنے کا حکم دیا ہے۔ بصرہ میں تشدد کے واقعات کے بعد کرفیو نافذ کردیا گیا تھا لیکن اس کے باوجود شہریوں نے احتجاج کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔
عراق کے جنوبی شہروں میں جولائی سے حکومت کے خلاف احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے ۔ان کے علاوہ وسطی صوبوں میں بھی ہزاروں عراقی شہری بنیادی خدمات کی عدم دستیابی یا ان کے پست معیار پر سراپا احتجاج بنے ہوئے ہیں۔وہ خاص طور پر پینے کے لیے آلودہ پانی کی بہم رسانی پر احتجاج کررہے ہیں جس کے نتیجے میں بیس ہزار سے زیادہ شہری اسپتالوں میں جا چکے ہیں۔
انھیں سابق مطلق العنان صدر صدام حسین کی حکومت کے خاتمے کے پندرہ سال کے بعد بھی بجلی ، پانی ، روزگار اور زندگی کی دیگر اشیائے ضروریہ دستیاب نہیں ہیں۔عبادی حکومت نے جولائی میں جنوبی صوبوں کے لیے اربوں ڈالرز کی اسکیموں کا ا علان کیا تھا لیکن ان پر ابھی تک عمل درآمد نہیں کیا گیا ہے۔