سینٹ میں بھی لعنتیں کیوں پڑیں

Senate

Senate

تحریر : پرافیسر ڈاکٹر شبیر احمد خورشید

پاکستان کا حکومتی نظام بعض اداروں نے اپنے ہاتھوں میں لے کر ملک کی سیاست میں سیاسی کھلواڑ شروع کرنے کی بھر پور کوششیں شروع کی ہوئی ہیں۔جہاں ’’بات پر واں زبان کٹتی ہے وہ کہیں اور سُنا کرے کوئی‘‘ کے مصداق سارا سیاسی کھیل چل رہا ہے ۔شائد پاکستان کی جمہوریت کا یہ ہی مقدر ٹہرا ہے!مگر جمہوریت سے لگاؤ رکھنے والوں کو خاطر جمع رکھنی چاہئے کہ پھر صبح ہوگی اندھیرے نہیں رُکنے والے۔کے مصداق ایک دن ملک میں مکمل جمہوریت کا سورج ضرور طلوع ہوگا اور اُس وقت جمہوریت کے مخالفیں کلیجہ مسوس کر رہ جائیں گے۔وہ ادارے جو ن لیگ کے مخالف رہے ہیں ان کے مین کردار (نیب) کے سربراہ کا وزیر اعظم سے ملنا لوگوں کے لوگوں کے دلوں میں خدشات اور شکوک پید کر رہا ہے۔دوسری جانب جی ایچ کیومیں وزیر اعظم کی ٹیم کا آٹھ گھنٹے گذارنا بھی سیاسی لوگوں کے دلوں میں وسوسے تو ضرور پیدا کر رہا ہے۔پھر ہفتے میں تین تین بار چیفٖ آف آرمی اسٹاف کی وزیر اعظم سے ملاقاتین بھی، سیاسی لوگوں کے ذہنون میں سوالات تو پیدا کریں گی نا؟ہم سمجھتے ہیں فوج کا کام ملک کی حفاظت اور دشمن سے ملک کی سرحدوں کا دفاع کرنا ہے۔ سیاسی لو گوں کی گُرومنگ کرنا ہر گزنہیں ہے۔

سیاست ہے کام جن کا وہی جانیں کے مصداق اپنے کام سے کام رکھنا چاہئے۔ سینیٹر جاوید عباسی نے دھاندھلی پر بحث کے لئیسینٹ میں تحریک پیش کی جس میں کہا گیا تھا کہ انتخابات کے دن 117حلقوں میں فارم 45پر پولنگ ایجنٹس کے اور نہ ہی پرزائڈنگز افسران کے دستخط ہیں۔149 حلقوں میں جیت کا مارجن تین سے چار ہزار ہے جبکہ مسترد ووٹوں کی تعداد آٹھ آٹھ ہزار ووٹوں سے زیادہ تھی ۔شفاف انتخابات حکومت کی ذمہ داری تھی ایونِ بالا میں پاکستان کے 2018کے انتخابات پر بحث کے دوران سینیٹرز حضرات نے بہت سارے حل طلب سوالات اٹھائے ہیں۔الیکشن کے اس نظام کی تحقیقات کے لئے پارلیمانی کمیشن بنا یا جائے۔اگر مینڈیٹ چوری ہوا ہے تو 21کروڑ عوام کے ساتھ زیادتی کی گئی ہے۔مگر نئی حکومت تو جیسے گونگی اور بہری ہے کہ نہ اس کو سُنائی دے رہا ہے اور نہ ہی وہ لوگوں کے سوالات کے جواب دینا چاہتی ہے۔جو بہر صورت پارلیمانی کمیشن سے فرار کی کوششیں کر رہی ہے۔

شفاف انتخابات کا کرانا الیکشن کمیش کی ذمہ داری تھی جس پر پاکستان کی تمام ہی سیاسی جماعتوں نے سوائے کامیاب کرائی گئی جماعت کے عدم اعتماد کا کھل کر اظہار کیا ہے۔مگر شفافیت کے دعویداروں کے کان پر جوں تک نہیں رینگ رہی ہے۔سینیٹر حاصل بزنجو کا کہنا ہے کہ الیکشن میں دھاندھلی کا م بھی ایک سال پہلے ہی شروع کرا دیا گیا تھا۔جب میڈیااورلوگوں کوسیاسی جماعتوں کو بد نام کرنے کیلئے استعمال کیا گیا۔ٹی وی چینلز کو مخصوص علاقوں میں بند کرایا گیا۔الیکشن کمیشن نے آر اوز کا بلا تو آر اوز نے کہا ایف سی بیگس اٹھا کر ہیڈ کوارٹر لے گئی۔اس ضمن میں عثمان کاکڑ کا کہنا تھا کہ انتخابات کے نامپر بہترین سلیکشن ہوا ہے۔الیکشن سے پہلے الیکشن کے دن اور الیکشن کے بعد دھاندھلی ہوئی۔جو الیکشن جیتا اس کو شکست خوردہ ظاہر کیا گیارزل؛ٹ روک کر اپنے امیدوار کی جیت کا اعلان کیا گیا۔الیکشن کمیشن فوری مستعفی ہو حکومت دھاندھلی زدہ ہے۔

پیپلز پارٹی کے سینیٹر رضا ربانی کا کہنا تھا کہ ملکی اشرافیہ نے کبھی تسلیم نہیں کیا کہ عوام کی حکمرانی اور پارلیمان سُپریم ہے۔کچھ کٹھپتلیاں موجود ہیں۔جن کی ڈوریں کسی اور کے ہاتھ میں ہیں۔جمہوریت کو ڈی ریل کیا گیا تو وفاق پر سنگین بادل منڈلائیں گے۔آئین کہتا ہے سول بالا دستی ہو گی۔ہر ادارا آئینی حدود میں رہ کر کام کرے گا۔ انتخابی دھاندھلی کے حوالے سے سینیٹر مشاہد اللہ کا کہنا تھا کہ انتخابات پر سوالیہ نشان ہر جانب سے اُٹھ رہے ہیں۔

دھاندھلی کے الزمات ہر جانب سے لگ رہے ہیں۔17لاکھ ووٹ مسترد ہوئے پھر بھی کامیابی کے دعوے کئے جا رہے ہیں۔نواز شریف کو ہٹانا اور انتخابات میں دھاندھلی کراناانٹر نیشنل لابی کی سازش ہے۔ جس میں مقامی کٹھپتلیوں نے ساتھ دیا۔اگر دھاندھلی نہیں ہوئی تو کیا ضرورت تھی کہ میڈیا کو پولنگ اسٹیشنزکے اندر داخل نہیں ہونے دیا گیا؟کس نے اور کس کے کہنے پر پولنگ اسٹیشنز پرلگے سی سی ٹی وی کیمروں پر کپڑے ڈال کر ان کا رخ تبدیل کیا گیا؟تین لاکھ ستر ہزار فوجی سیکیورٹی یا پولنگ عملے کی ڈیوٹی دے رہے تھے۔پولنگ ایجنٹس کو کیوں باہر نکا لا گیا؟سینیٹر رحمان ملک کا کہنا تھا کہ قوم جاننا چاہتی ہے آر ٹی ایس سسٹم کس نے بند کیا؟سینیٹر رانا مقبول کا الیکشن کے حوالے سے کہنا تھا کہ انتخابات شفاف ہوں تو ملک میں جمہوریت بھی مضبوط ہوتی ہے ساری دنیا جانتی ہے کہ انتخابات سے قبل اور پولنگ والے دن دھاندھلی کی گئی۔

انتخابات میں دھاندھلی کے حوالے سے سینیٹر چوہدری تنویر نے بتایا کہ ایک پولنگ اسٹیشن پر 217ووٹ پول ہوئے لیکن نتیجہ 317کا ووٹوں کا دیا گیا!دھاندھلی کے حوالے سے سینیٹ اعظم سواتی کا کہنا تھا کہ انتخابات کو متنازعہ بنانے کے لئے آر ٹی ایس سسٹم بند کیا گیااس کا فرانزک آڈٹ کرایا جائے سینیٹر مشتاق احمد کا کہنا تھا کہ تمام سیاسی جماعتوں کو انتخابی مہم کے مساوی موقع فراہم نہیں کئے گئے۔اس ضمن میں سینیٹر سکندر منگریو کا کہنا تھا کہ انتخابی بے ضابطگیوں کے جائزے کے لئے اعلیٰ اختیاراتی پارلیمانی کمیشن تشکیل دیا جائے۔2018 کے الیکشن میں بھونڈے طریقے پر جھرلو پھیرا گیا ہے۔پاکستان بھر کے عو م کی اکثریت یہ مطالبہ کرتی ہے کہ الیکشن دوبارہ کرائے جائیں۔کیونکہ اب تو ایوان بالا میں بھی الیکشن کے سلسلے میں لعنتیں ہی برسئی جا رہی ہیں۔

Shabbir Ahmed

Shabbir Ahmed

تحریر : پرافیسر ڈاکٹر شبیر احمد خورشید
03333001671
shabbir23hurshid@gmail.com