مردوں کا یہ ہمارا معاشرہ

Society

Society

تحریر : حاجی زاہد حسین خان

میٹرک پاس کیا ہی تھا کہ والد محترم اس دنیا سے رخصت ہو گئے والدہ محترمہ نے ڈپریشن کا شکار ہو کر چارپائی پکڑلی چھوٹی سات سالہ بہن اور دس سالہ بھائی میری ذمہ داری بن گئے۔ والد کی کوئی جمع پونجی یا مستقل آمدنی نہ تھی ۔نہ کوئی ذریعہ آمدن نہ کوئی اپنا سرپرست رہا۔ نوکری تلاش کی وہ ملی نہ ۔ مجبوراً گھروں میں کام شروع کر دیا۔ کچھ عرصہ گھر کا چولہا جلتا رہا مگر ایک دن موقع محل دیکھ کر گھر کے ایک مالک نے دست درازی شروع کر دی بڑی مشکل سے اپنی عزت بچا کر بھاگی پھر اس گھر کی طرف نہ دیکھا۔ دوسرے گھروں میں کام ملا لیکن میرا جوان جسم دیکھ کر مالک للچائی ہوئی نظروں سے دیکھتے میں ڈرتی چھپتی ایک گھر سے دوسرے گھر عزت بچاتی پھرتی رہی۔

آخر کار ایک دن ایک لوکل فیکٹری میں کام مل ہی گیا۔ دو ماہ خیریت سے گزرے ہی تھے کہ فیکٹری کے مالک نے اوور ٹائم کے بہانے روک لیا اور دفتر بند کر کے زبردستی میری عزت لوٹ لی۔ وہاں سے بھاگی مگر جب گھر میں فاقے دیکھے چھوٹے بہن بھائی کے آنسو اور ماں کی بے بسی نے پھر ایک حرافہ کے بنگلے پر پہنچا دیا۔ جو بگڑے وڈیروں حرام خور آفیسروں کو لڑکیاں مہیا کرتی اپنا کمیشن لیتی ۔ میں مرتی کیا نہ کرتی اس کے چنگل اور لالچ میں آگئی ۔ سال ہو گیا کال گرل بن گئی ۔ ہمارے اس بگڑے معاشرے بدکردار مردوں کے معاشرے نے کئی غریب گھروں کی بیٹیوں کو کوٹھوں پر بیٹھا دیا کال گرل بنا دیا۔ میں اب اس گندگی سے حرام کی کمائی سے تنگ آگئی ہوں۔ ضمیر ملامت کرتا ہے۔ ماں روک ٹوک کر نہیں سکتی ۔ بہن بھائی شک کی نگاہوں سے دیکھتے ہیں۔ ان کا مستقبل تاریک نظر آتا ہے۔

خدا کے لئے آپ مجھے گندی لڑکی سمجھ کر نظر انداز نہ کر دینا جواب دینا۔ یہ تھا وہ درد بھرا خط جو مجھے ایک ماہ پہلے اپنی ای میل کے ذریعے موصول ہوا۔ شائد میرے کسی کالم سے نوٹ کر لیا ہو گا۔ یہاں سے دور بہت دور سکھر سندھ سے قوم کی ایک مظلوم بیٹی کا خط مجھے ملا ۔ جس نے اپنے معاشرے کی تنزلی اس قدر گراوٹ اور اس غریب جوان لڑکی کی حالت زار پر مجھے رلا دیا۔ آخر کار میں اسے جواب دینے پر مجبور ہو گیا۔ کہ اے میری قوم کی بیٹی تو نے اس حرام کاری کے راستے کو کیوں چنا ۔ اس بدکرداری کے پیشے کو کیوں اختیار کیا۔ سلائی کڑھائی کا کام کرتی ۔ بچوں کو حلال کا کھلاتی کوئی شریف ساتھی دیکھ کر شادی کر لیتی ۔ اب اس حرام کی کمائی سے تمہارا گھر تو چلتا ہے مگر تمہاری جوانی برباد اور زندگی عذاب بن کر رہ گئی ۔ اس ہر رات کی دلہن کا روز روز بننا سنورنا تمہارے ضمیر کو جھنجوڑ کر کے رکھ دیا۔

یہ ٹھیک ہے کہ ہمارے اس مردوں کے معاشرے میں ایک جوان لڑکی نہ گھروں میں کام کر سکتی ہے نہ بازاروں میں مگر پھر بھی اس حرام کی زندگی اور کمائی سے باہر نکلو کسی اچھی سی بڑی فیکٹری میں نوکری کر لو سبزی کی ریڑھی لگا لو ۔ اللہ سے معافی مانگو تو بہ کرو نماز شروع کرو وہ بے نیاز اللہ معاف کرنے والا ہے۔اور وہی مدد بھی کریگا۔ اسے یہ جواب دے کر میں خاموش ہو گیا۔ اپنے معاشرے پر کڑھتا رہا روتا رہا قارئین ٹھیک پندرہ دن بعد پھر اسکا مختصر سا خط ملا حاجی صاحب کل ایک بسکٹ فیکٹری میں میرا انٹرویو ہے آپ دعا کرنا کہ مجھے نوکری مل جائے۔ قوم کی بیٹیوں کے لئے کون دعا نہیں کرتا میں نے بھی ہاتھ کھڑے کر دئیے اور پھر دوسرے ہی دن اسے پندرہ ہزار کی نوکری مل گئی جہاں کئی دوسری لڑکیاں بھی محنت مزدوری کر کے اپنے گھروں کی ذمہ داریاں پوری کرتی ہیں۔ قارئین اس مجبور لڑکی کی خوشی دیدنی تھی ۔

میرے لئے تشکر کے الفاظ اس کی زبان پر ہمارے بے راہ روی کے مردوں کے معاشرے میں حالات کے ہاتھوں مجبور فاحشہ بننے والی لڑکی نے حرام کاری کا راستہ چھوڑا ۔ اللہ سے معافی مانگی ۔ دو ماہ سے وہ حلال کمائی سے اپنی بیمار ماں اور اپنے چھوٹے بہن بھائی کی پرورش کر رہی ہے۔ خدا کی قسم مجھے بڑی خوشی ہوئی ۔ خوشی کے بے بہا آنسو نکلے اللہ جسے ہدایت دے اسے کون روک سکتا ہے۔ میں اس واقع کو بھول چکا تھا۔ میں نے اپنی بساط کے مطابق چھوٹا سا کام کر دیا تھا۔ اور پھر کل اس کا ایک چھوٹا سا میسج ملا کہ حاجی صاحب میں نماز کے لئے کھڑی ہوں مگر آتی نہیں ۔ کیا کروں ۔ میں نے کہا چھٹی والے دن نزدیک کے مسجد کے امام سے یا کسی دیندار عورت سے نماز سیکھ لو نہیں تو اپنے چھوٹے بہن بھائی جو سکول میں پڑھتے ہیں ان سے رات کو سیکھا کرو مگر پڑھو ضرور ۔ قارئین یہ تھی وہ درد ناک سبق آموز تن ور کی سچی داستان جو میں نے اپنی قوم او ر اپنے پیارے قارئین کی نظر کر دی دعا کرنا کہ قوم کی یہ بیٹی اپنے فیصلے پر ثابت قدم رہے قوم کی ہر بیٹی ظالم مردوں کے ہمارے اس معارے میں وڈیروں سرمایہ داروں راشیوں بدکردار مردوں سے ہمارے قوم کی ہر بیٹی غریب اور امیر کی بیٹی گھروں ، شہروں اور گوٹھوں کی بیٹھی ۔ گائوں اور چکوں کی بیٹی صدا محفوظ اور مامون رہے۔ ہمارا معاشرہ صحیح معنوں میں اسلامی معاشرہ بن جائے اپنوں کے ساتھ دوسروں کی عزت کے بھی ہم سب رکھوالے بن جائیں۔ قارئین ہمارے اس نام کے اسلامی جمہوریہ پاکستان والوں کیلئے لمحہ فکریہ ہے۔

ہمارے حکمرانوں دونوں ایوان والوں صوبائی ایوانوں بلدیاتی اداروں کے بست و کشاد زمہ داروں کے لئے شرم کا مقام ہے کہ قوم کی بیٹیاں صرف پیٹ کی آگ بجھانے کے لئے اپنے بچوں کو پالنے کے لئے گھر چلانے کے لئے اپنی عزتیں نیلام کر رہی ہیں۔ اور اس بے راہ روی کی دلدل میں دہنستی جا رہی ہیں۔ یتیم بچے سکول چھوڑ کر سڑکوں پر بھیک مانگ رہے ہیں۔ کچرا چن رہے ہیں۔ کسی بھی معاشرے میں اسلامی ریاست میں ایسے نادار افراد یا گھرانوں کے نان نفقے کی ذمہ داری ریاست کے ان اداروں اور حکمرانوں کا فرض ہوتی ہے۔ مگر ہماری اس اسلامی ریاست میں کیوں نہیں ۔ ہم والدین گھرانوں برادریوں تعلیمی مراکز کے سرپرستوں کے لئے بھی شرم کا مقام ہے کہ اپنے جوان بچوں کو بچیوں کو آزاد خیالی روشن خیالی کے نام پر دینی مذہبی اقدار کا گلہ گھونٹ کر ان تمام تعلیمی کاروباری صنعتی اداروں اور بازاروں ہوٹلوں میں مخلوط زندگی گزارنے کے لئے کھلا چھوڑ دیا ہے۔ کوئی روک رکاوٹ نہیں جس کا نتیجہ آج ہماری جوان نسل دن بدن آزادی کے نام پر اس بے راہروی کی راہ پر گامزن ہو کر اپنے بڑوں کی زندگیاں اور معاشرے کو عذاب بنائے ہوئی ہیں۔ جس کی ہمارے حکمرانوں نے بھی کھلی چھٹی دے رکھی ہے۔ خدا کے لئے ہمیں واپس اپنی دینی اقدار کی طرف لوٹنا ہے۔ اپنی شرعی اسلامی حدود و قیود پر سختی سے کاربند ہونا ہے۔ ورنہ ہمارا یہ ملک و معاشرہ بھی مغرب کی طرح بے حیائی کے عذاب میں جل کر بھسم ہو جائے گا۔ جس کے عذاب میں آج ہماری عرب اسلامی ریاستیں اسی کا خمیازہ بھگت رہی ہیں۔ اللہ ہمیں ان جیسے عذاب و انتشار سے محفوظ و مامون رکھے اور ہمارا پاکستان صحیح معنوں میں اسلامی جمہوریہ پاکستان کا عملی ثبوت بن کر ابھرے آمین
آتجھ کو بتائوں تقدری امم کیا ہے۔ خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے

Haji Zahid Hussain Khan

Haji Zahid Hussain Khan

تحریر : حاجی زاہد حسین خان
ممبر پاکستان فیڈریشن آف کالمسٹ
hajizahid.palandri@gmail.com