شفیق ندوی علوم اسلامیہ سے بہرہ ور ہونے کے ساتھ ساتھ ایک اچھے شاعر بھی تھے – علمی مشاغل انکی ہمہ وقت مصروفیت کا مستقل مظہر تھے – فلسفہ و مذہب کا گہرا پس منظر رکھنے والا شخص جب شعر کی طرف توجہ دیتا ہے تو اس کی شاعری میں جہاں معانی کی گہرائی و گیر ائی ہوتی ہے – وہاں اس کے یہاں فکر کی ثقاہت بھی موجزن ہوتی ہے – دینی علوم کا حامل شاعر صرف وجدان پر بھروسہ نہیں کرتا بلکہ خود احتسابی کے عمل سے گزرتے ہوتے وہ زبان و بیان کی نزاکتوں اور لطافتوں کو بھی شعوری طور پر ملحوظ رکھتا ہے –
ہمارے یہاں غالب اور اقبال ہی ایسے شاعر ہیں جو اپنی علمی سطح کی بلندیوں کو بر قرار رکھتے ہوئے شعر کے ذریعے اپنے مخاطب کے قلب و نظر کی گہرائیوں میں اتر جاتے ہیں – ان دونوں مفکر شعراء نے ہماری پوری شاعری کو کسی نہ کسی انداز میں متاثر کیا ہے ۔ ڈاکٹر ندوی بھی اسی فضا کے پر وردہ ہیں چنانچہ ان کا غالب کے فکروفن سے اثر پذیر ہونا فطری امر ہے – ڈاکٹر ندوی کے مجموعوں میں فکروفن کا ایک فطری ارتقائی سفر صاف دکھائی دیتا ہے (ہو نہ گر وعدہ وفا) کی غزلوں میں غالب کے اثرات کا اگر آغاز ہے تو (گل یہ کفن ناز میں) اس آغاز کو باقاعدہ ایک سفر کی صورت دیتا نظر آتا ہے ۔ یہ اثر فنی سطح پر ہو یا فکری ، بالواسطہ ہو یا براہ راست ، ہر جگہ غالب کی چھاپ گہری دکھائی دیتی ہے – مثلآ
یہ صحرا تو ہماری گرد پا سے بھی بہت کم ہے گئے آگے بھی ہم ان چاند تاروں سے گذر آئے جلا کے دل اگر ہم روشنی کے طور ہو جاتے یہ سورج چاند خود جلووں میں سب محصور ہو جاتے جائیں گے اس جہاں سے نہ ہم لےکے حسرتیں کر جائیں گے گناہ وہ جس کی سزا نہیں لے گئے لکھ کر فرشتے جب مرا حساب میں اگر پیش خدا جاؤں نہ گر جاؤں تو کیا میکدے ویران پڑے ہیں جام و پیمانہ نگوں کر لی ہے پینے سے جب توبہ گھٹا چھائی تو کیا کسی کا پیرہن یعقوب کی بے نور آنکھوں پر در زنداں سے جیسے اٹھ کے سورج ضوفشاں آئے
غالب اگر تنگ نائے غزل سے نکل کر اپنے بیان کی وسعت چاہتے ہیں تو ندوی بھی اس تنگ دامانی سے نکلنے کا ارادہ رکھتے ہیں ، کہتے ہیں لب و رخسار کی میں جلوہ سامانی سے نکلوں گا غزل میں اب تیری اس تنگ دامانی سے نکلوں گا وہ حدیث گیسو و رخسار کے علاوہ زندگی کے مادی مسائل کو بھی غزل کا موضوع سمجھتے ہیں مسائل اور بھی ہیں زندگی کے — حدیث گیسو و رخسار کب تک اسی طرح وہ لہجے کی تازگی کو وقت کا تقاضا قرار دیتے ہیں – لہجے میں تازگی ہو ، تقاضا ہے وقت کا کچھ تم غزل سے دور ہو ، کچھ بانکپن سے میں اور واقعی جب وہ لب و رخسار و گیسو کی جلوہ سامانیوں سے نکل کر ، غزل میں اپنے عصر کے کرب کو محسوس کرتے ہیں تو ایک نیا آہنگ اور نیا اسلوب سامنے آتا ہے جو جدید معاشرتی شعور سے آراستہ ہے – اس لہجے کو ہم کہیں (غالب کی صدائے بازگشت) اور کہیں اس کے اسلوب کی (بازیافت) کہہ سکتے ہیں – سر بازار لوگوں نے اچھالیں پگڑیاں سب کی کوئی جائے بچا کر اب یہاں سے آُبرو کیوں کر نہ پہنچا آج تک کیوں کارواں منزل تلک کوئی دکھانے یوں تو اکثر راستہ ہم کو خضر نکلے اسی طرح وہ جمالیاتی سطح پر بھی غالب کے حسن آفریں ماحول میں سانس لیتے دکھائی دیتے ہیں -اور اسی نقطہ کمال تک رسائی کے خواہاں ہیں جو غالب کے مطمع نظر ہے جس طرف دیکھیے چادر ہے دھوئیں کی پھیلی پیرہن جسم پہ شعلوں کا ہے کم خواب نہیں کیا کبھی دیکھا ہے خوشبو کا بدن بھی تم نے ہم نے کل جاتے ہوئے رات کی رانی دیکھی دلکشی کیا شام کی ، کیا صبح کی ٹھنڈی ہوا کہکشاں کا حسن کیا ہے تیری رعنائی کے بعد
بے پناہ تخلیقی امکانات سے معمور ہماری غزل آج بھی پہلی سی وضع داری کے ساتھ زندہ و پائندہ ہے – اور ہمارے غزل گو آج بھی ریاضت فن کے لئے اس ہزار پہلو پیکر پر فریفتہ ہیں – شفیق ندوی بھی اپنے مترنم و متوازن لب و لہجہ کے ساتھ بنیادی طور پر اسی رخشندہ و تابندہ صنف سخن کی زلفوں کے اسیر ہیں لیکن وہ جو فیض نے کہا ہے – لوٹ جاتی ہے ادھر کو بھی نظر کیا کیجئے
جب وہ فکری سطح پر اپنی ذات کو شکست و ریخت کے گرداب سے ابھر کر اجتماعی لاشعور کی موجوں پر کائنات کے آفاقی مسائل و مشاکل سے نبرو آزما ہونا چاہتے ہیں تو صنف نظم کو ذریعہ اظہار بناتے ہیں – ندوی کی نظمیں اس مجموعہ میں ان کے نقش اوّل سے جہاں تعداد میں زیادہ ہیں ، وہاں اسلوب اور آہنگ کے اعتبار سے بھی ان سے ایک قدم آگے ہیں ، ان نظموں کے موضوعات بھی متنوع ہیں اور انکا آہنگ خوبصورت ہے اور درانی قافیوں کے التزام نے ان میں ایک نغمگی کی کیفیت پیدا کر دی ہے – مختلف مصرعوں میں تنوع اور زبان میں غزل کی سی چاشنی ہے ۔ نظم ہو یا غزل ڈاکٹر ندوی کا لہجہ ہر جگہ نرم اور پر وقار ہے – زبان و بیان کی فصاحت و لطافت کے ساتھ ساتھ معنوی بلاغت و جامعیت ان کا طرہ امتیاز ہے۔
Dr. Muhammad Riaz Chaudhry
ڈاکٹر : محمد ریاض چوہدری صدر ، حلقہء فکروفن ۔ سعودی عرب