ایک مشرقی عورت کیا ہوتی ہے؟ اس بات کو سمجھانے کے لیے کوئی بڑی مثال دینے کی ضرورت نہیں۔ مشرقی عورت کے تصور کی کئی تصویریں ہیں۔ اَن گنت تصویروں میں ایک تین بار پاکستان کی خاتون اول رہنے والی بیگم کلثوم نواز بھی تھیں جو اَب اس دنیا میں نہیں رہیں۔ اللہ تعالیٰ اُن کو جنت نصیب فرمائے اور ان کے لیے مزید آسانیاں پیدا فرمائے۔ (آمین)۔ شاید بیگم کلثوم نواز کی وفات سے قبل بہت کم لوگ جانتے ہوں گے کہ انہوں نے اردو ادب میں بی اے، اردو شاعری میں ماسٹر اور فلاسفی میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی تھی۔ یہ بھی بہت کم لوگ جانتے تھے کہ مرحومہ رستم زماں، گاما پہلوان کی نواسی تھیں۔ یہ سب کچھ تمام دنیا کو ایک ساتھ علم ہوا، جب وہ اس دار فانی میں نہ رہیں۔ اُن کی وفات پر تعزیت کرنے والوں کی لائن لگ گئی اور الیکٹرونک میڈیا پر ٹکرز پہ ٹکرز چلنے لگے۔
پرنٹ میڈیا میں تعزیتی رسمی بیان کے تانتے بندھ گئے، لیکن دل میں بحیثیت انسان ایک ہوک سی اٹھی جب اُن کی وفات کے بعد بھی سوشل میڈیا میں شریف فیملی کو طنز و تضحیک کا نشانہ بنایا گیا۔ ٹاک شوز میں مرحومہ بیگم کلثوم نواز کے صاحبزادوں کی پاکستان آمد کے حوالے سے سوال جواب شروع ہوگئے۔ میں نہیں سمجھتا کہ اس موقع پر مجھے کیا اور کیوںکہنا چاہیے کہ قابل نفرین ہیں وہ لوگ جو کسی کا دُکھ بانٹنے کے بجائے بڑھاتے ہیں۔شریف فیملی کے خلاف مخالفین کا رویہ سخت رہا اور مکافات عمل کے قصے سنائے گئے، اس کے بعد اس بات کا اندازہ نہیں تھا کہ مرحومہ کی بیماری کو لے کر جو رویہ متعدد شخصیات نے اختیار کیا تھا، اس پر ہمارے سر شرم سے جھک جانے چاہئیں۔ مجھے یاد ہے کہ جب نواز شریف نے سزا ملنے کے بعد وطن واپسی کا فیصلہ کیا تو یہاں تک خبر ذرائع کے مطابق بنادی گئی کہ یہ نواز شریف کا پلان ہے کہ دبئی پہنچیں گے تو انہیں بیگم صاحبہ کے انتقال کی خبر ملے گی اور وہ لوٹ جائیں گے اور اس طرح پاکستان واپس نہ آنے کا جواز مل جائے گا، وغیرہ وغیرہ۔ جتنے منہ اتنی باتیں والا حساب تھا۔ گرفتاری، جیل جانے اور عمران خان کے وزیراعظم بننے کے بعد بھی طنز و مذاق کا نشانہ بنایا جاتا رہا، یہاں تک بیگم کلثوم نواز کے انتقال کی خبر پوری دنیا میں پھیل گئی، لیکن اس کے بعد بھی خرافات اور اخلاقیات سے عاری رویوں نے صورت حال کو مزید افسوس ناک بنادیا، جب اُن کی وفات کے بعد بھی سیاسی گِدھ اپنے بدبودار ذہن کا زہر اُگلتے نظر آئے۔
کیا کسی انسانی معاشرے میں حیوانی عمل کی اس سے بڑی مثال بھی دیکھنے کو ملے گی؟ بہت جلد یہ وقت بھی گزر جائے گا۔ اجل کی اس گھڑی کو کوئی روک نہیں سکا ہے۔ اس کا ذائقہ تو ہم سب نے یکساں چکھنا ہے۔ نواز شریف کی پالیسیوں، ان کے ماضی اور ان کے ساتھ ہونے والے واقعات ملکی تاریخ کا حصہ بن چکے ہیں۔ بعض اسرار بھی کبھی منکشف ہوہی جائیں گے، لیکن گزرا وقت کبھی واپس نہیں آتا۔ سیاست ہو یا جنگ، اس میں سب جائز ہے کا مفروضہ رقم ہوگیا ہے۔ ذاتی طور پر میرے لیے ان افراد کی کوئی تعظیم نہیں جن میں احترام انسانیت ہی نہ ہو۔ میں اُس وقت سب سے زیادہ رنجیدہ تھا جب بے نظیر بھٹو کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا گیا۔ مجھے اس بات پر بھی ہمیشہ افسوس رہے گا کہ عمران خان کی نجی زندگی کو لے کر اخلاقیات کی تمام حدود و قیود پامال کی جاتی رہیں۔
میں نہایت دکھی ہوں اس بات پر کہ تاریخ میں لکھا جائے گا کہ ایک ماں کو کندھا دینے والے دو جوان بیٹے پاکستان نہ آسکے۔ اس خاتون کا شوہر اُس حال میں باخبر ہوا جب وہ اپنی بیٹی کے ساتھ جیل میں بند تھا۔ سخت سے سخت دل شخص کو بھی اپنی بے بسی کا احساس ہوتا ہے، جب وہ پابند سلاسل ہو اور اُسے یہ تکلیف دہ خبر ملے۔ 47برس کی ازدواجی زندگی نصف صدی کا قصہ ہے، یہ چند لمحوں کی بات نہیں۔مرحومہ بیگم کلثوم نواز کی تدفین کے بعد کتنے دن مزید میلے سجائیں گے، اس کا تو مجھے علم نہیں، لیکن جب جب مشرقی عورت کی مثال دی جائے گی تو مرحومہ کا نام ضرور یاد کیا جائے گا۔ پاکستان سمیت دنیا بھر میں ان گنت ایسی خواتین ہیں جنہوں نے تاریخ رقم کی ہے۔ لیکن مرحومہ میں جو انفرادیت تھی وہ ایک ایسی گھریلو خاتون کا تصور ہے جو انتہائی تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود اپنے خاندان کے لیے سینہ سپر بھی ہوجاتی ہیں اورپھر سراپا محبت بن کر اپنے شوہر اور بچوں کے لیے گھریلو خاتون بھی بن جاتی ہیں۔
یہاں میں اتنا ضرور کہہ سکتا ہوں کہ ہمارا معاشرہ بالغ و باشعور نہیں ہوا، مادرپدر آزادی کو حقوق نسواں یا اظہار رائے کی آزادی کا نام دے کر اخلاقیات کا جنازہ نکالنا اچھا عمل نہیں کہلایا جاسکتا۔ اس لیے خواتین کے پاکستانی معاشرے میں کردار کو بہت محتاط ہوکر دیکھنے کی ضرورت ہے۔ اس موقع پر بحیثیت انسان و مسلمان یہ ضرور کہنا چاہوں گا کہ ہمیں اپنی اسلامی و معاشرتی اقدار کا خیال رکھنا چاہیے۔ اخلاقی حدود میں رہ کر سیاست کرنے میں کوئی عار نہیں، لیکن سیاست کے نام پر سفاکیت سے انسانیت کا قتل ہوجاتا ہے۔
مرحومہ بیگم کلثوم نواز اس دنیا میں نہیں رہیں، لیکن ان کی بیماری اور پھر موت نے کتنے چہروں سے جھوٹ کے نقاب نوچ لیے ہیں، یہ بات ان لوگوں کے لیے مقام عبرت ہے جو سمجھتے ہیں کہ انہیں کبھی کسی کو جواب نہیں دینا۔ رب العالمین نے تو ہر بات کا حساب لینا ہے۔ میزان تو اللہ تعالیٰ نے کھڑا کرنا ہے، کسی انسان کو یہ حق نہیں کہ وہ اپنی حدود سے تجاوز کرے، یہ حق کسی کو کسی نے نہیں دیا کہ وہ انسانیت کی تذلیل کرتا پھرے۔ ہمیں اپنے معاشرتی رویوں کو درست کرنے کی ضرورت ہے۔
اخلاقی پس ماندگی کے دیوالیہ پن کی راکھ سے کوئی دامن محفوظ نہیں رہ سکتا۔ مشرقی تہذیب کی نشانی احترام ہے اور انسانیت کا احترام دین اسلام کا حکم ہے۔ مشرقی اقدار کی پاسداری کرنے والی خاتون ہی مشرقی عورت کہلاتی ہے۔ میں اس کالم کے توسط سے تمام احباب سے ملتمس ہوں کہ سیاسی اختلافات اپنی جگہ، لیکن کسی کی موت کو لے کر اپنے لفظوں پر قابو پانا سیکھیں۔ طنز و تضحیک کا یہ عمل کبھی مستقل نہیں رہتا، بلکہ یہ اپنے اہداف تبدیل کرتا رہتا ہے، جس کا نشانہ کوئی بھی کسی بھی وقت بن سکتا ہے۔ اگر ہم تنقید کے اصلاحی پہلو کو سمجھ لیں تو یقین کیجیے یہ ہم سب کے حق میں بہتر ہو گا۔