دنیا بھر میں جہاں ترقی کرنے کی خواہشمند قومیں ایک سسٹم اور اصول و ضوابط کے دائرہ کار میں خود کو منظم کر رہے ہیں وہیں پر وہ اس بات کو ھی سمجھ رہے ہیں کہ زمین کا بے مصرف رہنا یا رکھا جانا بھی اتنا ہی بڑا ظلم ہے جتنا بڑا ظلم بڑے بڑے احاطہ زمین کو بڑے بڑے گھر اور محل بنا کر بے استعمال چھوڑ دینا. گھر کے رہنے والے دو چار افراد ہوں اور انکے رہنے کو آٹھ دس ایکڑ پر مشتمل گھر ان کی خدمت پر معمور پچاس افراد, پھر اس گھر اور فاضل زمین کی دیکھ بھال بذات خود عیاشی کے ضمرے میں آتی ہے. سوچنے کی بات ہے کیا یہ ہی پیسہ اور زمین کسی اور بہترین مصرف میں نہیں لائے جا سکتے تھے. جبکہ اس ملک کے لاکھوں لوگ دو کمروں کے فلیٹ کو بھی ترس رہے ہوں.
حکومت وقت کا کام ہے کہ وہ ایسیے قوانین بنا کر اس پر پوری قوت سے عملدرآمد کرائے کہ جس کے تحت ایک خاندان (جس میں میاں بیوی اور ان کے بچے شامل ہیں ) کو زیادہ سے زیادہ مالی حیثیت رکھتے ہوئے بھی دس مرلے سے بڑے گھر رکھنے کی ہر گز اجازت نہ دی جائے. دس مرلے کا گھر دنیا کے بڑے بڑے کامیاب ترقی یافتہ ممالک کے صدور اور وزرائے اعظم کو بھی میسر نہیں ہیں. ایسے میں ایک مالدار آدمی کے لیئے اتنا بڑا گھر رہنے کو بہت ہونا چاہیئے. باقی زمینوں پر اچھے معیاری فلیٹس بنا کر ہمارے صدر ,وزیراعظم اور دیگر اراکین کو دیئے جا سکتے ہیں.
جبکہ اس فاضل زمین کو بہترین عوامی پارکس میں بھی تبدیل کیا جا سکتا ہے. جس میں جاگنگ ٹریکس بنائے جانے چاہئیں. تاکہ عوام کو صحت افزاء ماحول فراہم کیا جا سکے .
1096 کنال کا وزیراعظم ہاؤس اور 70 کنال کا پنجاب ہاؤس راولپنڈی اعلی درجے کی یونیورسٹیوں میں، گورنمنٹ ہاؤس مری Heritage ہوٹل میں، 700 کنال کا گورنر ہاؤس لاہور میوزیم اور پارک میں تبدیل ہونے کے اعلانات کو جلد سے جلد عمل میں لایا جانا چاہئے.
اور آئندہ کے لیئے بھی ایسی قانون سازی ہونی چاہئے کہ دس مرلے سے بڑے گھر اور ایک آدمی کے نام ایک ہی گھر سے زائد گھر نہیں ہونے چاہئیں ۔
وزیر اعلی پنجاب کا ایک دفتر کرافٹ اور کنونشن سنٹر میں اور 16.5 ایکڑ کا سٹیٹ گیسٹ ہاؤس لاہور اور قصر ناز گیسٹ ہاؤس کراچی کو فائیو سٹار ہوٹلز بنانے کی تجاویز بھی قابل تقلید ہیں. لیکن کیا حکومت وسیع و عریض آرمی ہاؤسز، کور کمانڈرز ھاؤس اور محل نما میسز میں بھی یونی ورسٹیاں اور عجائب گھر بنارہی ہے؟ اگر ایسا ہو تو یہ خوشحالی کی جانب ایک شاندار آغاز ہو گا. کلاس کے فرق کو دور کرنے کا حل بھی یہ ہی ہے . کیونکہ جب تک کلاس کا یہ فرق دور نہیں کیا جائے گا جیسے
ایک ہی جتنے گھروں میں رہنا, ایک ہی سرکاری سکول سے ایک جیسا نصاب پڑھنا , اور ایک جیسے صحت کی سہولیات تک سب کی رسائی تب تک امیر کو امیر تر اور غریب کو غریب تر ہونے سے نہیں روکا جا سکتا. نہ ہی ہم اپنے ملک سے ہڈحرامی اور اقرباء پروری کا خاتمہ کر سکتے ہیں. اس لیئے سترسال میں جو جو سینگ یہاں اشرافیہ کی سر ہر اُگ چکے ہیں انہیں کاٹنے کا وقت آ چکا ہے.