نواز شریف پاکستان کی سیاست میں ایک ایسا نام بن چکا ہے ۔جس کو نہ تو توڑا جاسکتا ہے اور نہ خریدا جا سکتا ہے اور سب سے بڑی اور اہم بات یہ ہے کہ سازشوں کے ذریعے بعض کھلاڑیوں نے اس مردآہن کو بکھیرنے کی بھی جی جان سے کوشش کی اور وہ سب کے سب منہ کی کھا کر اس سوچ میں غلطان ہیں کہ یہ کس مٹی سے بنایا گیا انسان ہے؟ کہ تمام سازشوں کے باجود ہمت و جراء ت سے یہ اپنے قدموں پہ آج بھی دنیا کے عظیم ترین نقصانات اٹھالینے کے باوجودکھڑا ہے اور اس کے پائے ہمت و استقلال میں ذرا برابربھی لرزا طاری نہیں ہوا ہے۔
ایک آمر جنرل نے شفقت بھرے باپ کے جنازے میں اس کو شریک نہیں ہونے دیا۔تو دوسری جانب اقتدار کے نا خداؤں نے لبِ دم، حیات و موت کی کشمکش میں مبتلا،47بہاریں ساتھ گذارنے والی ایک مشرقی وفا شعاربیوی کی تیمارداری پر قدغنیں لگا کر،اسے زچ کرنے میں کوئی کسر اُٹھا نہ رکھی۔ اس شرم و حیا کی پیکر پر شوہر کوتیمارداری کا حق ادا کرنے نہیں دیا گیا!اس نڈر جمہوریت کے پیکر کو قید و بند کا اثیر بنا کر اڈیالہ جیل کی سلاخوں کے پیچھے رکھ کر ساری زندگی کے لئے اندر بہنے والے آنسووں میں مبتلا کر کے اپنے لئے تاریخ میں ایک سیاہ باب تو رقم کرا لیا ہے۔مگرسیاسی زندگی کے انتہائی مشکل ترین اور حقیقتاََروشن ترین اور فخر کے قابل دور میں بھی یہ جمہوری جدوجہد کے ہیرو بن کر ساری دنیا کے سامنے نمودار ہوئے ہیں۔جن کی جیل میں موجودگی آج جمہوریت دشمنوں پر لرزہ پیدا کرنے جا رہی ہے۔
بیگم کلثوم نوازآمر جنرل کے خلاف اکیلی لڑیں تو اس فعل نے پاکستان کی سیاست میں بیگم صاحبہ کو امر کر دیا ہے۔ان کا یہ کردار ایسے وقت میں عوام کے سامنے آیا تھاجب ایک آ مر جنرل (پرویز مشرف) نے نوازشریف کے نحیف والد کے علاوہ شریف خاندان کے تمام ہی مردوں کو پابندِ سلاسل کر جیل کی کال کوٹھڑی میں ڈالدیا تھا۔اس ماحول میں اس گھریلوخاتون، بیگم کلثوم نواز نے ڈکٹیٹر کمانڈو کی غیر قانونی حرکتوں کے خلاف اس بہادری اور جراء ت کا مظاہر کیا جس نے ناصرف طاقتور جنرل بلکہ اپنے تمام ہی سیاسی مخالفین کو بھی حیرت زدہ کر دیا اور پاکستان کے مطلق العنان جنرل پر تھر تھری طاری کردی۔رستم زمان کی نواسی اپنے مٹھی بھر ن لیگی کاکنوں کے ساتھ نکلی تو آمر کے ہرکاروں نے خوف کے مارے کلثوم نواز کی گاڑی کو ایک کرین کے ذریعے گھنٹوں ہوا میں معلق رکھ کر اپنی بزدلی اور ناکامی کا سرِ عام اعلان کر کے دنیا میں بھی اپنا اور اپنے ٹولے کا مذاق بنوایا۔بظاہر تو نواز شریف کے دشمنوں نے کلثوم نواز کو مار دیا ہے۔مگر وہ پاکستان کی سیاست کے اوراق پر کبھی نہیں مرے گی۔
نواز شریف کے سماجی اور سیاسی مخالفین بیگم کلثوم نواز کی بیمار ی کا لمحہ بہ لمحہ مذاق بناتے رہے۔ان میں کچھ خریدے گئے میڈیا پرسن بھی سیاسی حریفوں کے ساتھ شامل تھے۔جو کینسر جیسے موذی مرض میں مبتلاخاتوں کا مذاق ایک مخصوص ٹولے کی آژیرواد سے اڑاتے رہے۔مگر اس سنگدل بیماری کا انہیں دس ماہ سے زیادہ مقابلہ کرناپڑاتو زندگی انہیں دوبارہ موقع ہی نہ دیا کہ وہ اپنے سُہاگ اور اپنی بیٹی کے دفاع کے لئے ایسی قوتوں کے خلاف سیسہ پلائی دیوار بن جاتیں۔ جو نواز شریف کی نہیں پاکستان کی تباہی پر آمادہ ہیں۔
بعض تجزیہ نگار کہتے ہیں کہ اس حادثے نے نواز شریف کو توڑ کے رکھ دیا ہے۔مگر ہم سمجھتے ہیں نواز شریف جسمانی طور پر کمزور ضرور ہوگئے ہیں۔کیونکہ یہ حادثہ ہی ایسا تھا ،مگرکسی نے کیا خوب کہا ہے کہ ’’نواز شریف بہت بہادر ہے، مگر کمزوروں کے لشکر میں ہے‘‘ذوالفقار علی بھٹو کے بعد نواز شریف ایسے مضبوط اعصاب کے ماملک ہیں کہ انہیں اللہ کے سوائے زمین کی کوئی طاقت توڑ ہی نہیں سکتی ہے۔چاہے جتنے جھوٹے الزاموں پر اسے کسنے کی کوشش کی جائے۔جو سمجھتے ہیں نواز شریف کو پاکستان کی سیاست سے دودھ کی مکھی کی طرح نکال کر الگ کر دیا جائے گا۔ وہ تمام کھلاڑی اور اناڑی احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں۔
اب نواز شریف کو پاکستان کی سیاسی تاریخ سے مٹاناکسی جنرل اور جج کے لئے ممکن نہیں رہا ہے۔نواز شریف نے اپنے عزم سے اپنے دوستوں اوردشمنوں پر ثابت کردیا کہ وہ ایسے آہنی عزم کا انسان ہے ۔کہ قانون کی پاس داری کرتے ہوئے اپنی زوجہ کو بسترِ مرگ پر چھوڑ کر پاکستان آئے اور بیٹی کے ساتھ بخوشی جیل کی سلاخوں کے پیچھے چلے گئے! ہے کوئی ایسے عزم کا مالک اس پا کستان میں ؟جس نے شدت مرض کے باوجود سہالہ ریسٹ ہاؤس کی بجائے جیل کی سلاخوں کے پیچھے بیٹی کے ساتھ جانے کو ترجیح دی۔ایک جنرل جو کمانڈو بھی کہلاتا ہے ۔وہ جیل کی سلاخوں سے چھُپتا پھر رہا ہے!
نواز شریف کے عزم و حوصلے میں بیگم کلثوم نواز کی موت نے اور قوت پیدا کردی ہے۔کلثوم نواز کے جنازے کی نماز مولان طارق جمیل کے حصے میں آئی ۔تو نواز شریف بلند حوصلے کے ساتھ خود گاڑی چلا کر مولاناکو لے کرجاتی امرا آئے ۔کوئی کم حوصلہ ایسے گھٹن اور سختی کے ماحول میں اور غم و اندہ کی کیفیت میں ایساکرسکتا ؟ یہ بات یاد رکھی جائے نواز شریف کو توڑنے والے ایک دن خو دپاش پاش ہوجائیں گے۔اُن کے لئے لوگ کہتے ہیں کہ تمہاری داستاں تک نہ ہوگی داستانوں میں۔
یہ منظربھی ان نا عاقبت اندیش قوتوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا کہ کلثوم نواز بہشتی خاتوں کے جنازے میں لوگوں کا ایک جمِ غفیر تھا۔گویا پورے لاہور کا ہر جوان بوڑھا بچہ نماز جنازہ میں شرکت کرنا اپنا فرض اولین سمجھتا تھا،گویا انسانوں کا ایک ٹھاٹھیں مارتا سمندر جاتی امرا اور اس کے گرد موجود تھا۔۔میڈیا پر قدغن لگانے والے اپنی خام خیالی میں سمجھ رہے ہیں کہ عوام تک یہ منظر نہیں پہنچے گا۔جاتی امرا سے باہر بھی عوام کا ایک موجیں مارتا سمند تھا۔جس پرمریم نواز کی یہ صدا کانوں میں گونج رہی تھی ’’روک سکو تو روک لو‘‘ن لیگ کے لیڈر نواز شریف میں استقامت کا جوہر اب بھی اپنے عروج پر ہے ۔ مقرر’’روک سکو تو روک لو‘‘۔