فرعون کے دربار میں جب حضرت موسی علیہ السلام نے دین اسلام کا جھنڈا بلند کرنا چاہا تو فرعون چینخ پڑا وَ لَقَدْ اَرَیْنٰہُ اٰیٰتِنَا کُلَّہَا فَکَذَّبَ وَ اَبٰی(٢٠:٥٦) قَالَ اَجَئْتَنَا لِتُخْرِجَنَا مِنْ اَرْضِنَا بِسِحْرِکَ یٰمُوْسٰی(٢٠:٥٧) ترجمہ:”ہم نے فرعون کواپنی سب نشانیاں دکھائیں مگروہ جھٹلائے چلاگیااور نہ مانا ،کہنے لگااے موسی کیاتوہمارے پاس اس لیے آیاہے کہ اپنے جادوکے زور سے ہمیں ہمارے ملک سے نکال باہر کرے”۔پس یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ آواز حق کتنی ہی کمزور اور ناتواں اور مادی و دنیاوی وسائل سے محروم کیوں نہ ہوسے اس کی للکارسے فراعین وقت کواپنے اقتدار کے لالے پڑ جاتے ہیں۔حضرت موسی علیہ السلام غلام قوم سے تعلق رکھنے والے بے یارومددگار، ملنگ ،درویش ،صوفی منش اور نہتے و بے سروسامان فرد تھے اور محض اپنا عصالیے اپنے بڑے بھائی کی معیت میں فرعون کے سامنے کلمہ حق کہنے گئے تھے،لیکن فرعون کی باریک بین نگاہ پہچان گئی کہ اس دین کے پیغام میں اقتدارکاحصول بھی شامل ہے۔تب فرعون نے جب اپنے درباریوں سے مشاورت کی تو انہوں نے بھی یہی کہا کہ” قَالُوْا اِنْ ہٰذٰنِ لَسٰحِرٰنِ یُرِیْدٰنِ اَنْ یُّخْرِجٰکُمْ مِّنْ اَرْضِکُمْ بِسِحْرِہِمَا وَ یَذْہَبَا بِطَرِیْقَتِکُمُ الْمُثْلٰی(٢٠:٦٣)”ترجمہ:آخرکار کچھ لوگوں نے کہا کہ یہ دونوںتومحض جادوگرہیں،ان کا مقصد یہ ہے کہ اپنے جادو کے زور سے تم کو تمہاری زمین سے بے دخل کر دیں اور تمہارے مثالی طریق زندگی کا خاتمہ کردیں”۔چنانچہ فرعون کو تو صرف اپنے اقتدارکی فکر تھی لیکن فرعون کے ذہین ساتھی بھانپ گئے تھے حضرت موسی علیہ السلام کے پیغام میں صرف اقتدارکاحصول ہی شامل نہیں ہے بلکہ کل نظام زندگی کی تبدیلی ان کا مطمع نظر ہے۔یہی وجہ ہے کہ ابنیاء علیھم السلام کی دعوت سے طاغوت اور استعمار جڑوں اوربنیادوں تک لرزجاتاتھا۔
حضرت موسی علیہ السلام سمیت کل انبیاء علیھم السلام نے وقت کے طاغوت کو سیاست کے میدان میں للکاراہے۔فرعون،نمرود،ملکہ سبا،عتبہ،شیبہ اور ابوجہل وغیرہ یہ سب کے سب میدان سیاست کے قدآور عنوانات تھے اور حقیقت یہی ہے نظام زندگی کے تمام تر کل پرزے فی الاصل سیاست کی مشینری کے نیچے ہی اپنے فرائض سرانجام دیتے ہیںجیسے دماغ کے نیچے کل اعضائے جسمانی اپنا اپنا فطری کام سرانجام دیتے ہیں۔جب سیاست کی مشینری بدل دی جائے اور اقتداراعلی کاقبلہ تحویل ہوجائے تو مشینری کاکل تحرک اپنی سمت تبدیل کر بیٹھتاہے اور تمام تر نظام نئے اقتدار اعلی کے سامنے سجدہ ریز ہو جاتاہے۔تاریخ انسانی یہ سبق دیتی ہے کہ جہاںنظام کی اصلاح کاآغاز نظام سیاست کی ابجدسے ہوتاہے وہاں نظام کی خرابی کی انتہابھی نظام سیاست پر ہی منتج ہوتی ہے،گویا جو نقطہ آغاز تھا وہی نقطہ انجام بھی ثابت ہوتاہے۔چنانچہ بہت اچھے نظام زندگی کاآغاز نظام سیاست کی اصلاح سے شروع ہوتاہے اور سب سے پہلے قیادت میں حسن اقتدارپیداہونے لگتاہے اورجب کوئی نظام زندگی گل سڑ کر بدبوکی سڑاند چھوڑنے لگتاہے اس کی انتہا بھی اس کے نظام کے بدترین اورظالم و جابروبدکارحکمرانوں کی صورت میںمورخ کے قلم سے پھوٹ نکلتی ہے۔اﷲتعالی کی یہی سنت رہی ہے کہ انبیاء علیھم السلام کی صورت میں بہترین قیادت فراہم کی گئی جس نے استحصالی نظام کے سیاسی قائدین سے اقتدارکے ایوانوں میں کشمکش کے تاریخ ساز ابواب رقم کیے۔
سیرة طیبہ ۖمیں مکہ مکرمہ کی وادیوں سے جس تبدیلی کاآغاز ہواتھا،مدینہ منورہ کی ریاست اس کافطری سیاسی نتیجہ تھا۔جس انقلاب نے ختمی مرتبت ۖکی گود میں پرورش پائی بالآخر وہ دورفاروقی میں اپنے بام عروج کو پہنچااور محسن انسانیتۖنے اس انقلاب کی کامیابیوں کی جوخو شخبریاں سنائی تھیں وہ دورفاروقی میں تاریخ کے طالب علم نے اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کیں۔نبی علیہ السلام کی تیارکردہ قیادت جیسے جیسے اس دنیاسے پردہ فرماتی گئی اور صحابہ کرام جیسے مقدس گروہ کی کمریں جیسے جیسے جھکتی چلی گئیں،بال سفید ہوتے گئے اور معاملات زندگی ان کے ہاتھوں سے رفتہ رفتہ نکلتے گئے تو معاشرے میں میں بگاڑ نے اپنی جگہ بنانے کی کوششیں شروع کر دی۔تصویرکادوسرارخ یہ تھا کہ فتوحات کے باعث عرب کی خالص معاشرت پر عجم نے بھی اپنے اثرات مرتب کرنے شروع کر دیے اور اس پر مستزاد یہ کہ دولت کی فراوانی نے جہاں سخت کوشی و صحرائی مزاج سے بعد پیداکیاوہاں تقوی اور دینداری کے بھی وہ پہلے والے معیارات نظرسے اوجھل ہونے لگے۔معاشرے کی ان کمزوریوں کے براہ راست یا بالواسطہ اثرات نظام سیاست پر بھی مرتب ہوئے اور سیاست کی دیوی نے خلافت کی مقدس قبا اتارکر ملوکیت کالبادہ اوڑھ لیا۔
ملوکیت نے اسلامی نظام زندگی کے جملہ امور کو اپنے حصارمیں لینا شروع کیااور کامیابی سے آگے بڑھتی رہی۔حکمرانوں کا طرز بودوباش بدلا،بیت المال کا تصور امانت تبدیل ہو گیا،ممبررسول کی تقدیس پائمال ہوئی اوردیدہ دلیری یہاں تک کہ جس رسولۖکے ممبرپر براجمان ہوا جاتااسی رسولۖکے اہل بیت کو طعن و تشنیع کا نشانہ بنایاجاتا،سرکاری مناصب میں امانت و دیانت اور تقوی ودینداری کی جگہ حکمران کے ساتھ وفاداری نے لے لی اور حد تو یہ احادیث نبویہ ۖ میں بھی وضع و تحریف شروع کر دی گئی۔ان سب حالات کے خلاف صحابہ کرام اگرچہ آواز اٹھاتے رہے لیکن اب ان کے گلے میں وہ قوت والی گرج موجود نہیں رہی تھی اور وقت پیری نے انہیں زمانے کی پچھلی صفوں میں دھکیل دیاتھا۔صحابہ کرام کی نسلوں میں سے ان حالات کامقابلہ کرنے کے لیے کچھ تازہ دم نوجوان اٹھے اور ڈٹ کر مقابلہ بھی کیالیکن کسی نے وقت کاساتھ نہ دیا تو کسی کاوقت نے ساتھ نہ دیااور خانہ کعبہ جیسی مقدس عمارت کی قربانی بھی ان کو بچانے کے لیے ناکافی ثابت ہوئی اور بگاڑ پوری قوت سے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لیتاچلا گیا۔ان پرفتن حالات میںکچھ بزرگوں نے مسند علم سنبھال لی تو کچھ ممبرومحراب تک محدود ہوگئے ،کچھ نے تبلیغ و ارشادکو ہی اپنا اوڑھنا بچھونا بنالیاتوکچھ معرفت وطریقت کی طرف سدھارگئے اور باقی عوام الناس نے کسی اجتماعی کاوش کی بجائے اپنے ذاتی ایمان بچانے کی فکر کی اور بگڑتے ہوئے حالات میدان سیاست کی آخری حدوں کو چھونے لگے۔
اب ایک ہی خانوادہ باقی بچاتھا،اہل بیت نبوی کا مقدس ومحترم خاندان،زمین و آسمان کی نظریں اب اس خاندان نبوت پر جمی تھیں۔آسمان سے نازل ہونے والی آخری کتاب،آسمان سے اتراہواآخری دین اور آخری نبیۖکے گھرانے کے آخری افراداوردین کو بچانے کی آخری امید۔نواسہ رسول امام عالی مقام امام حسین بن علی کی ایک ”ہاں”ان پراور ان کے کل اہل خانہ پر بلکہ نسلوں پر بھی دنیاکی تمام تر نعمتوں،آسائشوں اور شاید جزوی اقتدارکے دروازے بھی کھول سکتی تھی لیکن پھر ناناکا دین کسی گہری کھائی میں جاگرتایاشاید کسی قبر میں ہمیشہ کے لیے دفن ہوجاتا کیونکہ نظام سیاست کے آخری بگاڑ پرآخری نبی کے گھرانے کے افراد کی آخری مہر ثبت ہو جاتی۔اور اگر ملوکیت کے اس نظام سیاست کو نبی ۖکا گھرانہ تسلیم کرلیتاتوامت مسلمہ کے آسمانی صحائف سے اقتداراعلی کے لیے اﷲتعالی کا نام ہمیشہ کے لیے حذف ہوجاتا۔اور اسلام محض ایک پوجاپاٹ اور پندونصائح کا مذہب رہ جاتا اور دین کے استعارے سے نظام زندگی کاجامع تصور اس دین کی تعلیمات سے خارج ہوجاتا۔اس صورت میں قرآن مجید کی تمام تر تعلیمات جامعیت کو اس ایک ”ہاں”کے صفر سے ضرب دے دی جاتی ۔
امام عالی مقام کی ایک ”نہیں”نے تاقیامت دین اسلام کی سیاسی حقانیت کو امر کر دیا۔دین محمدیۖکے سیاسی نظام کی تجدید ہمیشہ کے لیے اس خانوادہ نبوت اور امام عالی مقام کی احسان مند رہے گی۔قرآن مجید کی اس آیت اب کبھی کوئی تاویل نہیں کی جا سکے گی کہ”ُوَ الَّذِیْ اَرْسَلَ رَسُوْلَہ’ بِالْہُدٰی وَ دِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْہِرَہ’ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہ وَ لَوْ کَرِہَ الْمُشْرِکُوْنَ(٩:٣٣)ترجمہ:وہ اﷲتعالی ہی ہے جس نے اپنے رسولۖ کو ہدایت اوردین حق کے ساتھ بھیجاتاکہ اسے باقی تمام ادیان پر غالب کر دیا جائے”۔پوری دنیاپر دین اسلام کا غلبہ اورباقی تمام ادیان کواسلام کے تابع بنانے کے لیے جس جرات و شجاعت سے عبارت سیاسی و عسکری نظام کی ضرورت ہے وہ نظام اسوة امام عالی مقام سے میسر ہے۔اوراس نظام کی بقا کو جس قسم کے انکار کی ضرورت ہے وہ بھی صرف اسوہ امام عالی مقام امام حسین کی زندگی سے ہی میسر آسکتاہے۔حقیقت یہ ہے کہ وقت کا طاغوت ہمیشہ ہی حق پرچلنے والوں کوقیدوبند،جنگ و جدال اور غریب الدیاری کی صعوبتوں سے دوچار کرتارہے گا،لیکن اسوة امام حسین سے حاصل ہونے والا عملی سبق اس کرہ ارض میںآخری انسان تک کے لیے استقامت اور صبرواستقلال کا لازوال درس اولین و آخرین ہے۔تاریخ جس طرح اپنے آپ کو دہراتی رہتی تو اسی طرح حق و باطل کے درمیان کربلا کے میدان سجتے رہیں گے ،تاقیامت یزیدکاکرداراور امام عالی مقام کی سنت شبیری زندہ تابندہ رہے گی یہاں تک کہ صوراسرافیل میں پھونک مار دی جائے۔اہل ایمان دنیاکے پیمانوں کے مطابق شکست خوردہ ہونے کے باوجود بھی کامیاب و کامران اور فوزوفلاح کے حاملین ٹہریں گے جبکہ یزیدان بدبخت حکومت کے ایوانوں میں براجمان ہونے کے باوجود اور نشہ اقتدار میں ڈوبے ہوئے بھی خالق و مخلوق کے ہاںخائب و خاسراور ملعون و مطعون گردانے جائیں گے۔