ہجرِجاوِداں میں گم میاں نواز شریف کو جنازگزہ کی طرف جاتے ہوئے اپنی گاڑی خود ڈرائیو کرتے دیکھ کر یقین ہو گیا کہ پے درپے حادثات نے اُسے وہی ”مردِ آہن” بنا دیا ہے جس کا ذکر منیر نیازی نے یوں کیا کہ
جانتا ہوں ایک ایسے شخص کو میں بھی منیر غم سے پتھر ہو گیا لیکن کبھی رویا نہیں
ہم سمجھتے تھے کہ غمِ دوراں کا مردانہ وار مقابلہ کرنے والے میاں نواز شریف کو شاید ہجروفراق نے توڑ پھوڑ کے رکھ دیا ہوگا لیکن اُس کے چہرے پر جمی غم آلود بشاشت کچھ اور ہی قصہ سنا رہی تھی۔ وہ درد کے گلدان سجائے بیٹھا تھالیکن پھر بھی آفاتِ زمانہ کا مردانہ وار مقابلہ کرنے اور طوفانوں کا رُخ موڑنے کے لیے مستعد ۔ اُس پر گزرنے والا کوئی بھی سانحہ گورِماضی میں دفن ہوا نہ چشمِ بینا سے مستور۔ خاردارِسیاست میں قدم رکھنے والے اِس صنعتکار کے بیٹے کو ہر دور میں محض اِس لیے ناقابلِ قبول ٹھہرایا جاتا رہا کہ وہ جمہوریت کو اُس کی روح کے عین مطابق لوٹانا چاہتا تھا۔ اُسے عوامی مینڈیٹ کی توہین قبول تھی نہ زورآوروں کے آگے سر جھکانا اُس کی سرشت میں شامل۔ وہ اللہ کے بعد طاقت کا سرچشمہ عوام کو سمجھتا ہے۔ ایسا ہی نعرہ ذوالفقار علی بھٹو نے لگایا اور اُسے نشانِ عبرت بنا دیا گیا۔ اب نوازشریف کی باری تھی جس نے مٹی کی محبت میں کیا کیا دُکھ نہیں جھیلے۔ بھلے قوم اُس کے ساتھ تھی اور اب بھی ہے لیکن ”مہربان” نہیں۔ اور وہ بھی ایسا ضدی اور ہٹ دھرم کہ بار بار وہی ”غلطی” دہراتا رہا۔ شاعر نے کہا
شاہوں نے بہت راہ پہ لانا مجھے چاہا میری بھی طبیعت تھی مگر اور طرح کی
اگر اُسے صرف وزارتِ عظمیٰ کا شوق ہوتا تو وہ مہربانوں کے آگے زانوئے تلمذ تہ کر دیتا لیکن اُس کی طبیعت تو ”اور طرح ” کی تھی۔ دو دفعہ اِسی ”غلطی” کی بنا پر وزارتِ عظمیٰ سے ہاتھ دھوئے، جیل کاٹی، جلاوطنی کا دُکھ جھیلا لیکن تیسری بار جب اقتدار ملا تو پھر وہ ” سپریم پارلیمنٹ” کے لیے نعرہ زَن ہوگیا۔ پارلیمنٹ نے تو خیر کیا ”سپریم” ہونا تھا البتہ ”سپریم کورٹ” نے اُسے گھر بھیج دیا۔ پانچ رکنی بنچ کے اِس فیصلے کو تاریخِ عدل ہمیشہ ایک متنازع فیصلہ ہی لکھے گی کیونکہ فیصلہ پاناما نہیں ، اقامہ پر کیا گیا۔ پاناما پر فیصلہ ہوتا بھی تو کیسے کہ اِس میں تو میاں نوازشریف کا نام ہی نہیں تھا۔
پھر احتساب عدالت کا ڈول ڈالا گیااور عین اُس موقعے پر جب تین بار وزیرِاعظم رہنے والا میاں نوازشریف پیشیاں بھگت رہا تھا، بیگم کلثوم نوازمرض الموت میں مبتلاء ہو کر لندن جا پہنچیں۔ پہلے لند ن کے ہارلے سٹریٹ کلینک میں بیگم کلثوم نواز میاں نوازشریف کی تیماردار تھیں، اب میاں صاحب کی باری تھی لیکن احتساب عدالت کے پنجۂ خونی میں جکڑے میاں صاحب کو اِس کی اجازت ملی نہ لاڈلی بیٹی مریم نواز کو۔ سوشل میڈیا پر بیگم کلثوم نواز کی بیماری کو لے کر طوفانِ بدتمیزی بپا ہوگیا۔ مخالفین نے ہمدردی کے چند بول بولنے کی بجائے طرح طرح کے فسانے گھڑنے شروع کر دیئے اور یہاں تک کہہ دیا کہ سب ”ڈرامہ” ہے۔ جب اُن کی عدم موجودگی میں احتساب عدالت نے سزا سنائی توبزرجمہروں نے کہا کہ اب میاں صاحب کبھی واپس نہیں آئیں گے، وہ لندن میں سیاسی پناہ لے لیں گے، نون لیگ کی سیاست ختم ہو چکی لیکن میاں صاحب نے اڈیالہ جیل جانے کا فیصلہ کر لیا۔
احتساب عدالت کا فیصلہ ایسا کہ خود ججز بھی حیران ۔ سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے اِس فیصلے کو انتہائی غلط اور نامعقول قرار دیا لیکن یہ مٹی کی محبت تھی جو میاں نوازشریف اور مریم نواز کو وطن کھینچ لائی ۔لوگ جیل سے بھاگتے ہیں اور جیل میں ہوتے ہوئے بھی ہسپتال جانا چاہتے ہیں۔ ہر قیدی کی شدید ترین خواہش پیرول پر رہائی ہوتی ہے لیکن یہ کیسا شخص ہے جس نے ہسپتال میں رہنے سے انکار کر دیا۔ پیرول پر رہائی کی درخواست پر دستخط نہیں کیے حالانکہ اپنی محبوب ترین ہستی کے آخری دیدار کی خواہش تو مَن میں یقیناََ موجزن ہوگی۔ میاں شہبازشریف نے مریم نواز کو درخواست پر دستخط کرنے کے لیے کہا تو اُس نے بھی انکار کر دیا۔ بالآخر شہباز شریف کو ہی پیرول پر رہائی کی درخواست پر دستخط کرنے پڑے ۔ غالب نے کہا
رنج سے خوگر ہوا انساں تو مِٹ جاتا ہے رنج مشکلیں اتنی پڑیں مجھ پہ کہ آساں ہو گئیں
میاں نواز شریف اور مریم نواز غموں سے سمجھوتہ کر چکے۔ اب اُن کے پاس کھونے کے لیے کچھ نہیںبچا۔ پے دَرپے مشکلات اُن کے عزمِ صمیم کو مہمیز دے چکیں۔ لاریب جیل میں بیٹھا نوازشریف اب پہلے سے کہیںزیادہ خطرناک ہو چکا اور جیل کی بھٹی میں تَپ کر کندن بن جانے والی مریم نواز مسلم لیگ کی قیادت کے لیے تیار ۔
اگر میاں نوازشریف پر الزام ثابت ہو جاتا تو وہ تاریخ کے کوڑے دان میں غرق ہو جاتے لیکن جبرواستبداد سے پابندِسلاسل ہونے والے ہمیشہ اُبھر کر سامنے آتے ہیں۔ تاریخ ایسی امثال سے بھری پڑی ہے۔ 2014ء سے نوازشریف کو پوری تن دہی سے”مائنس” کرنے کی تگ ودَو کرنے والے بیگم کلثوم نواز کا جنازہ دیکھ لیں۔ لاہور کی بیٹی کو آخری سلام پیش کرنے صرف پورا لاہور ہی نہیں، پاکستان کے کونے کونے سے لوگ اُمڈ آئے۔ یہ پاکستان کی تاریخ کے بڑے جنازوں میں سے ایک کہ وسیع وعریض جگہ بھی کم پڑ گئی۔
کئی کلومیٹر پیدل چل کر جنازگاہ تک پہنچنے کی تگ ودَو کرنے والوں نے سڑک پر ہی صفیں باندھ لیں لیکن ہجوم تھا کہ قابو میں نہیں آرہا تھا۔ پھر جونہی مولانا طارق جمیل کی” اللہ اکبر” کی صدا بلند ہوئی جو جہاں کھڑا تھا، وہیں ہاتھ باندھ لیے کہ صفیں درست کرنے کے لیے وقت تھا نہ جگہ۔ بعد از مرگ بیگم کلثوم نواز کو وہی عزت ملی جو محترمہ فاطمہ جناح اور بینظیر بھٹو کے حصّے میں آئی۔ یہ بیگم کلثوم نواز ہی نہیں، میاں نوازشریف سے محبت کا بھی والہانہ اظہار تھا۔ کوئی قوم کو باور کرانے کی لاکھ کوشش کرے کہ میاں نوازشریف قصّۂ پارینہ بن چکے لیکن حقیقت یہی کہ میاں نوازشریف کی سیاست تو اب شروع ہوئی ہے، یہ الگ بات کہ ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں۔