تنقید کرنا بہت آسان کام سمجھا جاتا ہے اور کہنے والے کہتے ہیں کہ دنیا میں سب سے آسان کام تنقید کرنا ہے ۔ میں اس بات کو نہیں مانتا۔ کیونکہ تنقید کرنے والا اپنا سب کچھ دائو پر لگا دیتا ہے۔ تعریف ہو یا چاپلوسی دنیا کا سب سے سہل کام ہے جس سے کوئی ناراض بھی نہیں ہوتا ۔ لیکن تنقید مثبت ہو یا منفی ۔ دونوں صورتوں میں بڑا دقت طلب اور مشکلات کا راستہ ہے۔ لیکن مثبت تنقید اصلاح کے لئے کارخیر بھی ہے اور وقت کا تقاضا بھی ، سب ٹھیک ہے اور چپ رہنے سے قومیں مردہ ہوجایا کرتی ہیں۔وزیر اعظم عمر ان احمد خان نیازی نے جب اپنے غیر رسمی وکٹری تقریر میں نئی حکومت کا روٹ میپ نمایاں کیا تھا تو اس خطاب کو سب نے سراہا تھا ۔ اسی طرح جب باحیثیت وزیر اعظم عمران احمد خان نیازی نے باقاعدہ قوم سے خطا ب کیا اور اصلاحات کے حوالے سے اپنی پالیسی کے خدوخال نمایاں کئے تو ناممکنات کے باوجودوزیر اعظم پر تنقید سے گریز کیا گیا لیکن اتنی گذارش ضرور کی کہ قوم کی توقعات کو اتنی بلندی پر نہ لے جائیں کہ کل کو پوری نہ ہوسکیں تو مایوسی کے سائے گہرے ہوجائیں۔
میڈیا پرسنز سے وزیر اعظم نے بھی اپیل کی ان پر تین مہینے تنقید نہ کی جائے تاکہ وہ اپنے پروگرامز پر یکسوئی کے ساتھ کام کرسکیں۔یہ ایک مثبت پہلواور وقت کا تقاضا تھا کہ نان ایشوز پر جانے کے بجائے میڈیا کو اپنی ذمے داری کا درست ادارک کرنا چاہیے ۔ لیکن بدقسمتی سے وزیر اعظم اور ان کی کابینہ کے اراکین کی جانب سے نان ایشوز پر سیاست نے مایوس کیا۔ وزیر اعظم کی حیثیت سے انہوں نے پہلا سرکاری دورہ سعودی عرب کا بھی کرلیا ہے ۔ لیکن یہاں موضوع یہ ہے کہ عمران احمد خان نیازی نے قوم سے خطاب میں وعدہ کیا تھا کہ وہ سادگی اختیار کریں اور وہ عوامل نہیں کریں گے جو ماضی میں حکمرانوں نے کئے ۔ تین مہینے تک کسی بھی ملک کا دورہ نہ کرنے اور وزرا ء کے دورے کو بھی وزیر اعظم کی منظوری سے مشروط کردیا گیا تھا۔ وفاقی وزیر اطلاعات نے دعویٰ کیا تھا کہ خصوصی طیارے میں سفر نہیں کریں گے لیکن کراچی اور سعودیہ یاترا خصوصی طیارے میں سفر کرکے کی گئی ۔ وزیر اعظم نے قوم کو یقین دلایا تھا کہ کرپشن ، نیب زدہ اور متنازعہ افراد کو وزرات نہیں دیں گے ۔لیکن اپنے عزیز ترین دوست کو معاون خصوصی برائے اوور سیز پاکستانی بنا کر اس دعوی کو بھی سبوتاژ کردیا۔غیر ملکی قرضے نہ لینے اور کچکول توڑنے کے بڑے بڑے بلند بانگ دعوے اور اربوں ڈالر زپاکستانیوں کی جانب سے پہلے مہینے میں ہی آنے کے دعوی بھی زمین بوس ہوچکے تھے ۔
گورنر ہائوسز کو بامقصد امور کے بجائے غیر ضروری طور پرتفریح گاہوں میں تبدیل کردیا گیا ۔ ضروری تھاکہ ان قیمتی عمارتوں کو تعلیمی یا طبی ضررویات کے لئے استعمال کیا جاتا۔ خاص طور پر اسپتال بنائے جائیں کیونکہ اچھے اسپتالوں کی اشدکمی ہے۔ وزیر اعظم ہائوس کو اعلیٰ درجے کی تعلیمی درس گاہ میں تبدیل کرنے کا فیصلہ اچھا ہے ۔ اپنی انتخابی مہم میں وزیر اعظم نے قادیانی میاں عاطف کو مالیاتی مشیر بنانے کا عندیہ دیا تھا ۔ جب وزیر اعظم بننے کے بعد قادیانی میاں عاطف کو شامل کیا تو عوامی ردعمل کا سامنا نہ کرسکے پہلے تو وزیر اعظم کی کابینہ دفاع کرتی رہی او ر احتجاج کرنے والوں کو انتہا پسند قرار دیتی رہی۔ لیکن عوامی احتجاج ہر قادیانی میاں عاطف کو فارغ کردیا تو اس کا بھی کریڈٹ خود لینے لگے ۔ وزیر اعظم ہائوس کے گاڑیوں کی نیلامی ناکامی کا شکار ہوچکی ہے۔ 18کروڑ روپے میں نصف گاڑیاں ہی نیلام ہوسکیں ۔ ذرائع کے مطابق اشتہارات کی مد میں 8کروڑ روپے کے اخراجات بتائے جا رہے ہیں ۔ اب غیر ملکی مہمانوں کو لانے کے لئے کرائے پر حاصل کرنے والی ٹرانسپورٹ پر کتنے اخراجات آئیں گے یہ آنے والا وقت بتائے گا ۔
کراچی کے پہلا ماسٹر پلان بنانے کا اعلان کیا ۔ لیکن شائدکسی نے وزیر اعظم کو بتایا نہیں کہ کراچی کا ماسٹر پلان موجود ہے ۔ بس اس پر عمل درآمد کی ضرورت ہے(کراچی کا پہلا ماسٹر پلان2007میں بن چکا ہے)۔ وزیر اعظم نے کراچی میں بنگالی اور افغان مہاجرین کو پاکستانی شہریت دینے کا ” سیاسی ‘متنازع بیان بھی دے دیا ۔ جس پر سندھ کی قوم پرست جماعتوں نے شدید احتجاج کیا۔(اگر یہ بیان خیبر پختونخوا میں دیتے تو زیادہ مناسب ہوتا)۔ تاہم یہ اعلان سابق حکومتوں اور عسکری ڈاکٹرئن کے برخلاف ہے کیونکہ افغان مہاجرین کی باعزت واپسی کے لئے ریاست اقوام متحدہ کو قائل کرنے کی کئی برسوں سے کوشش کررہا تھا ۔علاوہ ازیں اس ” سیاسی ” بیان سے سول ،ملٹری کا ایک صفحہ پر ہونے کا تاثر ختم ہواہے۔ سندھ قوم پرست جماعتوں کے مطابق اگر بنگالی اور افغان مہاجرین کو پاکستانی شہریت مل جاتی ہے تو خدشہ ہے کہ اس کے بعد 15/16قومی اسمبلی کی ، 30/35صوبائی اسمبلی نشستیں انہیں مل سکتی ہیں ۔
قانونی دستاویزات ملنے کے بعد سرکاری ملازمتوں میںنوکریاں و پارلیمان کی رکنیت ملنے پر قومی راز کی حفاظت پر سوال اٹھے گا اور سب بڑھ کر سندھ ، بلوچستان میں مستقل آباد کار مقامی اقلیت میں تبدیل ہوجائیں گے ۔ اس فیصلے کیبعد عمل درآمد سے نہ ختم ہونے والی پیچیدگیاں پیدا ہونگی۔سندھ ، خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں تو افغان مہاجرین اور مقامی افراد کے درمیان کئی بار تصادم ہوچکے ہیں اور افغان مہاجرین کو مقامی صنعت پر بوجھ ، اسمگلنگ کے فروغ کا ذریعہ اور دہشت گردی ، طالبان کوئٹہ شوریٰ جیسے معاملات میں سنگین نوعیت کے تحفظات پائے جاتے ہیں۔مشیر تجارت رازق دائود نے سی پیک پر ایک متنازعہ انٹرویو دے کر بے یقینی کی فضا پیدا کی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ چینی وزارت خارجہ کو پاکستان آنا پڑا ، نیا ورکنگ گروپ بنانا پڑگیا۔ رسمی طور پر مبہم سی تردید جاری کی اور سب سے بڑھ کر چیف آف آرمی اسٹاف کو چین جانا پڑا ۔بار بار دونوں حکومتوں و عسکری قیدت کو سی پیک کو ایک سال کے لئے منجمند کرنے کے حوالے سے تردید اور مختلف وضاحتیں دینا پڑیں۔
عوام کو بے روزگاری ، مہنگائی سے ریلیف دینے کے وعدے بھی پہلے قدم پر ناکام ہوئے۔ تجارتی اور گھریلو سطح پر قدرتی گیس کے نرخوں میں ہوش ربا اضافوں کی منظوری، واپسی اور پھر منظوری دی گئی جس سے صارفین پر150ارب روپے کا اضافی بوجھ آنے کا امکان ہے ۔ یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ روپے کی قدر کم ہونے سے پٹرول کی قیمتیں بھی بڑھ سکتی ہیں جس میں 20روپے فی لیٹر اضافے کا امکان ظاہر کیا۔تھر میں غذائی قلت سے معصوم بچے کئی برسوں سے جاں بحق ہو رہے ہیں ۔ کئی حلقوں نے افغانستان کو40ہزار ٹن گندم کا تحفہ دینے کے اعلان پر حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے کہ تھر میں غذائی قلت کے شکار خاندانوں کو بھی گندم فراہم کردیں تو زچہ کمزور نہ ہوں اور بچوں کا غذائی قلت سے مرنے کا سلسلہ کم ہوسکے۔رواں ماہ29جبکہ رواں برس455بچے غذائی قلت کے سبب انتقال کرگئے ہیں ۔ یہ بہت افسوس ناک صورتحال ہے۔
پروکوٹول کے خاتمے ، وی وی آئی پی کلچر اور روڈ بند کرنے کے حوالے سے بھی تحریک انصاف کے دعوے قلابے ثابت ہوئے۔ کراچی میں صدر پاکستان کی آمد کے موقع پر وی وی آئی پی موومنٹ میں پچاس کے قریب گاڑیاں ، روڈ بند کرنا ، اسی طرح وزیر اعظم کی کراچی یاترا پر عوام کو روڈ کھلنے کے طویل انتظار نے شدید پریشان کیا۔سرکاری زمینوں کی فروخت کا پلان اور مستقبل میں دوبارہ قیمتی زمینوں اور عمارتوں کے حصول کے لئے مربوط منصوبہ بندی کا فقدان ہے۔ موجودہ حکومت مختلف ٹاسک فورس بنا چکی ہے اور دعویٰ ہے کہ اس سے بیرون ملک لوٹی ہوئی رقم سمیت کئی بڑی کامیابیاں ملیں گی ۔ برطانیہ کے ساتھ مجرموں کے تبادلے ، اور اثاثوں کے معاہدہ ایک اچھا اقدام ہے( اگر ایسا ہی ہے تو) ۔ ڈیمز کے حوالے سے کالا باغ ڈیم کا ایشو دوبارہ اٹھا کر صوبوں کے درمیان تلخیاں بڑھنے کا شدید امکان ہے۔ چیف جسٹس آف پاکستان کی جانب سے ڈیمز ( بھاشا اور دیا مر) کے خلاف بیان بازی کو سنگین غداری کی شق آرٹیکل6سے جوڑ ا گیا ہے ۔ جس کا فائدہ اٹھا کر بعض عناصر کالا باغ ڈیم جیسے حساس موضوع کو بھی منصف اعلیٰ کے بیان سے جوڑ رہے ہیں۔
تحریک انصاف اپنے 100روزہ پلان میں جنوبی پنجاب صوبے کے عمل درآمد کی حکمت عملی میں مکمل ناکام نظر آتی ہے۔ خاص طور پر فاٹا اور پختون قوم کے اقدار کے خلاف انتہائی متنازعہ اشتہار کے جاری و پھر احتجاج پر روکے جانے پر کئی تحفظات و خدشات جنم لے رہے ہیں۔ کراچی کے لئے کئے جانے والے دعوے وعدہ فردا ثابت ہو رہے ہیں۔ پہلے30 دن جس طرح تحریک انصاف اور اتحادی جماعتوں نے اپنی حکومت ا کی ہے وہ ابتدائی طور پرحوصلہ افزا قرار نہیں دی جاسکتی۔چونکہ عمران احمد خان نیازی کئی معاملات میں اپنے دعوئوں سے پلٹ گئے ہیں اس لئے اب ان پر مثبت تنقید کرنے کا استحقاق بھی مل چکا ہے کیونکہ یہ ہمارے فرائض میں شامل ہے کہ مثبت و حقیقی تنقید برائے اصلاح کرتے رہیں کیونکہ یہ ہم سب کے حق میں بہتر ہے۔