اسلام آباد (جیوڈیسک) سعودی عرب کو بلوچستان میں ممکنہ طور پر اہم منصوبے دیے جانے کی خبروں کے سبب پاکستان کے کئی سیاسی اور سماجی حلقوں کو تشویش ہے کہ اس فیصلے سے خطے میں کئی ’جیو اسٹریجک‘ مسائل جنم لیں گے اور فرقہ پرست تنظیمیں مضبوط ہوں گی۔
پاکستان کے وفاقی وزیرِ اطلاعات فواد چوہدری نے کل بروز جمعرات ایک پریس کانفرنس میں بتایا تھا کہ حکومت نے سعودی عرب کے ساتھ تین اہم معاہدے کیے ہیں جو سڑکوں کی تعمیر اور توانائی کے حوالے سے ہیں۔ یہ منصوبے سی پیک کا حصہ ہیں۔ انہوں نے یہ بھی بتایا تھا کہ ایک اعلیٰ سعودی وفد اتوار کو پاکستان پہنچے گا اور اگلے ہفتے سعودی عرب کے ساتھ سرمایہ کاری کے معاہدے کیے جائیں گے۔ یہ معاہدے ریکوڈک، کاپر مائننگ اور گوادر میں آئل ریفائنیری بنانے کے حوالے سے ہیں۔
پاکستان کے ایک انگریزی روزنامہ ایکسپریس ٹر یبیون کے مطابق جمعرات کو ہی سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے انتہائی قریبی معتمد احمد الخطیب نے، جو سعودی ‘فنڈ فارانویسٹمنٹ‘ کے سربراہ بھی ہیں، اسلام آباد کا غیر اعلانیہ دورہ کیا۔ اس مختصر قیام کی وجہ سے بھی کئی حلقوں میں چہ مگوئیاں شروع ہوگئیں ہیں۔ لیکن کئی ماہرین کا خیال ہے کہ بڑھتے ہوئے سعودی اثر و رسوخ سے سب سے سنجیدہ مسائل بلوچستان، پاکستانی معاشرے اور خطے پر پڑیں گے۔
سن 2010 سے 2015 تک کے پانچ برسوں کے دوران پاکستان کو سب سے زیادہ ترقیاتی امداد امریکا نے دی۔ ترقیاتی منصوبوں کے لیے ان پانچ برسوں میں امریکا نے پاکستان کو 3935 ملین ڈالر فراہم کیے۔
بلوچستان سے تعلق رکھنے والے نیشنل پارٹی کے سربراہ اور سابق وزیر برائے جہاز رانی و بندرگاہ میر حاصل خان بزنجو نے اس ساری صورتِ حال پر حیرت کا اظہار کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا، ’’نہ ہی سینیٹ کو اور نہ بلوچستان حکومت کو اس بات کا علم ہے کہ وفاقی حکومت اتنے اہم فیصلے کرنے جارہی ہے، جس کے نہ صرف بلوچستان بلکہ پورے ملک پر اثرات مرتب ہوں گے۔ گوادر میں سعودی ریفائنری لگا کر سعودیوں کو بٹھانے کا مطلب یہ ہے کہ آپ نے ایران کے دشمن کو اس کی سرحد پر لا کر بٹھا دیا ہے۔ یہ سمجھ سے باہر ہے کہ پہلے یہ ریفائنری چین کو دینے کی بات ہورہی تھی اور اب اچانک یہ سعودی عرب کو دی جارہی ہے۔ سعودی موجودگی سے نہ صرف خطے میں کشیدگی بڑھے گی بلکہ پاکستان اور بلوچستان میں کام کرنے والی فرقہ پرست تنظیموں کے حوصلے بھی بڑھیں گے، جس سے ملک میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو بھی نقصان پہنچ سکتا ہے۔‘‘
واضح رہے کہ ماضی میں ریکوڈک کے معاہدے انتہائی متنازعے رہے ہیں اورسپریم کورٹ نے ایک کمپنی کا معاہدہ بھی منسوخ کیا تھا۔ حاصل بزنجو اس بات پر حیران ہیں کہ ریکوڈک سعودیوں کو کیسے دیا جا سکتا ہے۔’’ریکوڈک کے مسئلے پر تو ہم مصالحت میں گئے ہوئے، ہیں جہاں ہم پر جرمانہ ہوا ہے۔ تو میری سمجھ سے باہر ہے کہ ہم یہ معاہدہ اب سعودی عرب سے کیسے کر سکتے ہیں۔ سعودی عرب کا مائننگ میں کوئی تجربہ بھی نہیں ہے۔ دوسرا یہ کہ اس طرح کے معاہدے اتنی جلدی نہیں ہوتے۔ وفاقی حکومت جو پھرتی دکھا رہی رہے، اس سے شکوک و شہبات جنم لیں گے۔‘‘
کئی تجزیہ نگاروں کے خیال میں ایک ایسے وقت میں، جب امریکا، اسرائیل اور سعودی عرب نے ایران کے خلاف پہلے ہی محاذ کھولا ہوا ہے، اسلام آباد کی ریاض کے ساتھ قربت بڑی معنی خیز ہے۔ ایران میں حال ہی میں ایک دہشت گردانہ حملہ ہوا ہے۔ تہران حکومت نے اس کا الزام ریاض اور واشنگٹن حکومت پر عائد کیا ہے۔ ایسی صورت میں پاک سعودی قربت تہران میں خطرے کی گھنٹیاں بجا دے گی۔
اسلام آباد کی پریسٹن یونیورسٹی کے شعبہء بین الاقوامی تعلقات سے وابستہ ڈاکڑ پروفیسر امان میمن کے خیال میں اس فیصلے سے نہ صرف تہران ناراض ہوگا بلکہ چین بھی اس پر چراغ پا ہوگا۔ پروفیسر میمن نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ’’حالیہ عشروں میں پہلی بار محسوس ہورہا تھا کہ پاکستان امریکی حلقہِ اثر سے نکل رہا ہے اور خطے میں پاکستان، روس، ایران اور چین کے درمیان تعاون بڑھ رہا تھا۔ لیکن اسلام آباد کی ایک بار پھر ریاض سے قربت اس بات کی غماز ہے کہ امریکا خطے میں دوبارہ قدم جمانے جارہا ہے کیونکہ سعودی عرب کا مطلب امریکا ہے۔ وہ امریکا کا قریبی اتحادی ہے اور اس کے تل ابیب سے بھی خفیہ مراسم ہیں۔ اور تینوں کا ہدف ایک ہے، یعنی تہران۔ پاکستان کی سعودی عرب سے قربت اس کو ایران اور چین سے دور کر سکتی ہے، جس کے خطے پر شدید اثرات مرتب ہوں گے۔‘‘
امان میمن کا مزید کہنا تھا، ’’ہم نے بڑی مشکل سے دہشت گردی سے جان چھڑائی تھی لیکن اب سعودی اثر ورسوخ بڑھے گا، جس کا مطلب یہ ہے کہ پورے ملک میں بالعموم اور بلوچستان میں بالخصوص فرقہ وارانہ تنظیمیں آزادانہ سرگرم ہوں گی۔ بلوچستان میں فرقہ واریت کی ایک تازہ لہر اٹھ سکتی ہے، جس سے نہ صرف صوبے بلکہ ملک کو بھی نقصان ہو سکتا ہے۔‘‘