جرمنی (جیوڈیسک) ترک صدر رجب طیب ایردوآن کو اپنے دورہ جرمنی کے دوران چانسلر انگیلا میرکل کی جانب سے ترکی میں انسانی حقوق اور آزادی اظہار کی وجہ سے تنقید کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
جرمن چانسلر انگیلا میرکل اور ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے جمعے کو اپنی ملاقات کے دوران اس عزم کا اعادہ کیا کہ تناؤ کے شکار باہمی روابط کو بہتر کیا جائے گا۔ جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے صدر ایردوآن کے ساتھ پریس کانفرنس میں دونوں ممالک کے مشترکہ مفادات اور مہاجرین کے موضوع کا بھی ذکر کیا۔ چانسلر نے اس موقع پر ترکی کے ساتھ بہتر تعلقات کی اہمیت بھی اجاگر کی اور کہا کہ اقتصادی طور پر مضبوط ترکی جرمنی کے مفاد میں ہے۔
میرکل کے بقول، ’’مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کی دونوں رکن ریاستیں اس بات پر متفق ہیں کہ اگلے مہینے روسی اور فرانسیسی صدور کے ساتھ ہونے والی ملاقات میں شامی بحران پر بات کی جائے گی۔ دونوں رہنماؤں کی اس ملاقات میں تاہم آزادی اظہار سے لے کر دوہری شہریت رکھنے والے ان جرمن شہریوں کے حوالے سے کوئی بھی اتفاق رائے سامنے نہیں آیا، جو ترک جیلوں میں قید ہیں۔ ساتھ ہی یہ معاملہ بھی طے نہیں ہو سکا کہ کیا جرمنی کو ان افراد کو ملک بدر کر دینا چاہیے جنہیں صدر ایردوآن اپنا اور ترک ریاست کا دشمن قرار دیتے ہیں۔
صدر ایردوآن نے اس موقع پر جرمنی سے مطالبہ کیا کہ دہشت گردی کے خلاف کارروائیوں میں باہمی تعاون بڑھانے کی ضرورت ہے۔ ایردوآن کے مطابق برلن حکومت ’پی کے کے‘ کے ان ہزاروں کارکنوں کو گرفتار کرنے کے لیے خاطر خواہ اقدامات نہیں کر رہی، جو جرمنی میں رہ رہے ہیں۔ پی کے کے کو امریکا اور یورپ نے دہشت گرد تنظیموں کی فہرست میں شامل کیا ہوا ہے۔
جرمن صوبے نارتھ رائن ویسٹ فیلیا میں شام اور عراق کے کرد علاقوں سے تعلق رکھنے والے افراد کرد فورسز کے خلاف ترکی کے عسکری آپریشن پر سراپا احتجاج ہیں۔ مظاہرین میں کردوں کی اپنی ایک علیحدہ ریاست کا مطالبہ کرنے والے بھی شامل ہیں۔
جرمنی میں ایردوآن مخالف گولن تحریک اور کالعدم کردستان ورکرز پارٹی ( پی کے کے) کے کارکن بڑی تعداد میں رہائش پذیر ہیں۔ ایردوآن کا الزام ہے کہ 2016ء کی ناکام فوجی بغاوت میں جلا وطن مبلغ فتح اللہ گولن ملوث تھے۔
جرمنی میں تیس لاکھ ترک نژاد افراد آباد ہیں۔ ترک صدر کا یہ دورہ تین روزہ ہے اور وہ ہفتے کے روز کولون شہر میں ترک اسلامی تنظیم دیتب کی ایک جامع مسجد کا افتتاح بھی کریں گے۔
صدر ایردوآن کے اس دورے کے موقع پر مختلف شہروں میں مظاہرے بھی کیے گئے اور اسی وجہ سے برلن اور کولون میں خاص طور پر حفاظتی انتظامات انتہائی سخت رکھے گئے ہیں۔