16 اور 17 جون کی درمیانی رات 1200 پولیس والے خود نیند سے اٹھے تھانوں میں گئے وہاں سے بندوقیں لیں اور ماڈل ٹائون پہنچ گئے عوامی تحریک کے کارکنوں کو جگایا ،کارکنوں نے پولیس سے بندوقیں چھینیں اور اپنے ہی چودہ لوگوں کو قتل کر دیا حاملہ عورتوں کے منہ پر گولیاں ماریں سفید ریش بوڑھوں کو بھی نہ بخشا 100لوگ کو زخمی کر دیا ،پولیس نے واپس آ کر ان کارکنوں پر ایف آئی آر کاٹ دی اس میں شہباز شریف وغیرہ کیسے ملوث ہو گئے ؟انہیں باعزت بری کیا جاتا ہے ، یہ ایک طنزیہ پوسٹ ہے جو سوشل میڈیا پر وائرل ہے لیکن جس طرح تمام بالادست طبقات نے قانون کو اپنے گھر کی باندی بنا لیا ہے اس میں یہ سچ ہی لگتا ہے اگر یہ لوگ پکڑے بھی جائیں تو جیلیں ان کے لیے عیش کدے بن جاتی ہیں قانون کی بالا دستی مجبور و مہقور غریب لوگوں کو سزا دلوانے سے قائم نہیں ہو سکتی جو بعض اوقات حالات یا معاشرے کی ناانصافیوں سے مجبور ہو کر جرم کا ارتکاب کر بیٹھتے ہیں جنکو پکڑنا بھی آسان اور جرم ثابت کرنا بھی مشکل نہیں ہوتا بلکہ بعض اوقات تو غریب ناکردہ جرم کی سزا بھی بھگت لیتا ہے اکثر جیلوں میں ایسے لوگ نظر آتے ہیں جو اپنے مالکوں کے بدلے میں کچھ پیسوں کے عوض سزا کاٹتے ہیں غریب کا دل بڑا ہوتا ہے امیر اس کے پیروں پہ گر کر کہے خدا کے لیے میرے بیٹے کو بچا لو اس سے غلطی ہو گئی میں جلد تمہیں بھی باہر نکال لونگا غریب فورا تیار ہو جاتا ہے انصاف تو تب ہے جب اللہ کے خوف کو دل میں بسا کر پوری ایمانداری سے کیا جائے ورنہ ڈرامے بند کیے جائیں یہ کوئی انوکھا ملک نہیں یا انوکھا واقعہ نہیں جس میں ملک کے حاکموں نے خود کو بچایا ہے۔
ایسے واقعات ہمارے ملک میں اب معمول بن چکے ہیں مجرم بے خوف ہو چکے ہیں بڑے بڑے عہدوں پر براجمان یہ مجرم اپنی طرف اٹھنے والی ہر انگلی کاٹ دینے کے عادی ہو چکے ہیں لیکن کیا معلوم اللہ کی لاٹھی حرکت میں آچکی ہو اور یہ بھی بچ نہ پائیں کیونکہ اللہ کے ہاں بھی دیر ہے اندھیر نہیں میں ایک سچا واقعہ پڑھ رہی تھی ایسے ہی ایک دولت و اقتدار کے نشے میں مست خاندان کی کہانی ہے حالانکہ وہ ان سے چھوٹے مجرم تھے ۔۔۔۔ نیویارک شہر کے معروف حصہ مین ہٹن میں واقع عظیم الشان عمارت (helmsle palace hotel)کے مالک رئیل اسٹیٹ کی ایک بہت بڑی ایمپائر کے مالک مسٹر بیری ہلمسلے ہیں ثروت اور حیثیت میں ان کا شمار امریکہ کی صف اول کی پانچ اہم شخصیات میں ہوتا ہے یہ ہوٹل مسٹر ہلمسلے کی کاروباری کامیابی کا ایک نمونہ ہے کیونکہ 1989تک جب انکی حسین اور محبوب بیوی Leona Mindyلیونہ مینڈیکو ٹیکس چوری کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا ہلمسلے کی کل جائیداد کا تخمینہ پانچ ارب ڈالر تھا ہلمسلے کا کاروبار کئی شہروں پر محیط تھا جس میں 26دیگر ہوٹل اور کئی ٹریڈ سینٹر شامل تھے آج کے افراط زر اور شرح تبادلہ کی روشنی میں یہ کہنا درست ہوگا کہ ہمسلے کی کل جائیداد سو ارب روپے کے لگ بھگ کی تھی۔
جبکہ یہ گھرانہ پچاس ملین ڈالر سے زائد ٹیکس ادا کرتا تھا اور اس کے علاوہ کئی رفاحی کاموں میں معاونت بھی کرتا تھا لیونہ ہلمسلے خود بھی ایک مستعد اور کاروباری ذہن کی خاتون تھیں ازدواجی رشتہ میں منسلک ہونے کے کچھ ہی عرصہ بعد لیونہ نے ہلمسلے پیلس ہوٹل کا انتظام و انصرام اپنے ہاتھ میں لے لیا اور بہت کامیاب ثابت ہوئی کہ بورڈ آف ڈائیریکٹرزنے لیونہ کو تمام ہوٹلوں کا انتظامی سربراہ چن لیا لیونہ نے بھی اپنی صلاحیتوں کا بھرپور مظاہرہ کیا اور مسٹر ہلمسلے کے کاروبار نے بہت زیادہ ترقی پائی پھر یوں ہوا کہ مسٹر ہلمسلے نے اپنی باصلاحیت اور خوبصورت بیوی کو اس کی کامیابیوں پر امریکہ کے ایک حسین و دلکش علاقے میں چھبیس ایکڑ اراضی پر مشتمل رقبہ تحفے میں پیش کیا جس میں باغات اور ایک محل نما کوٹھی پہلے سے موجود تھی لیونہ جہاں ایک ماہر منتظم تھی وہاں اپنے جاہ و جلال اور حیثیت کا بھی ادراک رکھتی تھی اور اس ضمن میں خاصی شاہ خرچ بھی تھی قیمتی اور نایاب اشیا حاصل کرنا اس کا جنون تھا اور یہی شاہانہ شوق ہی محترمہ کو عدالت تک لے گئے لیونہ نے اپنے اس محل کو اپنے مزاج اور اٹھان کے مطابق تعمیر نو اور تزائین و ارائش کا کام اپنی نگرانی میں شروع کروایا ڈانس ہال کے لیے قیمتی ترین سنگ مرمر خریدا گیا پھول اور پھلدار پودے دنیا کے مختلف حصوں سے منگوائے گئے سرد اور گرم پانیوں کے سوئمنگ پولز بنوائے گئے ایران پاکستان اور چین سے اعلی قسم کے قالین منگوا کر فرش ڈھانپے گئے آنے والے مہمانوں کی جمالیاتی تسکین کے لیے رنگا رنگ روشنیوں سے منور فانوس لگائے گئے اور مشہور زمانہ مصوروں کی تخلیق آرٹ کے ہر ممکن حصول کو یقینی بنایا گیا۔
اس کے علاوہ ماہر مجسمہ سازوں نے محل کے مختلف حصوں کی مناسبت سے اعلی مجسمہ سازی کے مظاہرے میں بھی کوئی کسر نہ اٹھا رکھی تھی تزائین و ارائش کے ان مظاہروں پر اخراجات بھی اندازوں سے کہیں زیادہ نکلے جن پر متوقع ٹیکسوں سے بچنے کے لیے لیونہ نے بعض اشیا پر اٹھنے والے اخراجات کو ان ہوٹلوں کے کھانوں میں دکھانے کا انتظام کیا جو اس کی نگرانی میں چل رہے تھے اس طرح ان رقوم کو وہ کاروباری خرچ ،بزنس ایکسپینس کی مد میں دکھا کر ٹیکس میں چھوٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئی جن فرموں سے یہ قیمتی اشیاء خریدی گئی تھیں ان کو طاقتور لیونہ کے کارندوں نے رسیدیں بھی لیونہ کے ذاتی اکائونٹ کی بجائے مختلف ہوٹلوں کے اکائونٹس اور مصرف میں یہ کہہ کر دکھانے پر مجبور کیا کہ ،آئیندہ کے بزنس کا خیال کرو ”(ابھی ابھی خبر ملی ہے شریف برادران کا ایک اور مالیاتی اسکینڈل سامنے آگیا ہے شہباز شریف کی ملکیت رمضان شوگر مل کے ڈرین نالے کی تعمیر پر سرکاری فنڈ کا استعمال ہوا اس پچیس کلو میٹر نالے کی تعمیر پر بلدیہ چنیوٹ کا ساٹھ کروڑ روپیہ خرچ ہو گیا لیکن ہم تو ایسے کئی اسکینڈل تکیے تلے دبائے بیٹھے ہیں ) لیکن کونسا لمحہ مکافات عمل کے سفر کا آغاذ بن جائے کچھ نہیں کہا جا سکتا کسی طرح اس وائٹ کالر گھپلے کی خبر ایک غیر معروف اور لوکل جریدہ کو ہو گئی اور اس کے تحقیقاتی سیل نے بڑی کاوش اور سراغ رسانی کے بعد کچھ معلومات حاصل کر لیں ایک کمزور اور مقامی سطع کے اخبار کے لیے طاقتور ہمسلے خاندان پر ہاتھ ڈالنا قطعی آسان نہیں تھا (اس لیے شریف خاندان کی میڈیا پر عنایات جاری رہتی ہیں اور ملک ریاض کی طرف سے پلاٹ اور لاکھوں روپے ملتے رہتے ہیں )بڑی بحث و تمحیص کے بعد نیویارک پوسٹ نامی اخبار نے ایک آرٹیکل کے زریعے اس انکم ٹیکس دھاندلی کا انکشاف کیا جسے شروع میں ہمسلے خاندان سے متعلق اسکینڈل سے زیادہ اہمیت نہ دی گئی حکومتی اداروں نے تو برعکس اس معاملہ کو تحقیر کی نظر سے دیکھا کہ یہ کوئی پانچ ہزار ٹیکس دینے والا شرافت کے لبادے میں ملبوس خائن خاندان نہیں بلکہ یہ تو پچاس ملین ڈالرسالانہ ٹیکس ادا کرنے والا معزز خاندان ہے جس کو چند ملین کی ٹیکس چوری میں کیسے معتوب کیا جا سکتا ہے۔
جیمز آرڈی ویٹا اس وقت کے اٹارنی جنرل تھے ان کے کسی اسسٹنٹ نے اس آرٹیکل کی کاپی ان کی معمول کی فائلوں میں رکھ دی جو فائلوں سے ہوتی ہوئی جیمز کی ٹیبل پر پہنچ گئی اس ”عمومی سوچ ” کے برعکس کہ ایسے امیر کبیر طاقتور لوگ کہاں پکڑے جا سکتے ہیں اس نے الزامات کی تہہ تک جانے کا فیصلہ کیا قانون اور عدالت کا امتحان اس وقت ہوتا ہے جب اس کا سامنا کسی بڑے اور طاقتور سے ہوتا ہے اور یہ امتحان اس وقت اور بھی مشکل ہو جاتا ہے جب یہ بڑا آدمی کوئی گھاگ سوداگر بھی ہو اٹارنی جنرل جیمز آر ڈی ویٹا نے اس بڑے گھرانے پر ہاتھ ڈالنے کا بڑا فیصلہ کر لیا جس کا اثر رسوخ اور رعب و دبدبہ نیویارک کے حلقوں میں خصوصا اور پورے امریکہ میں عموما مانا جاتا تھا اگلے تین سال پبلک پراسکیوٹر اور اٹارنی جنرل کے عملے نے کئی ہوٹلوں اور فرموں کے اکائونٹس چیک کرتے ان فائلوں اور کاغذات کی نقول حاصل کرتے اور شہر شہر جا کر گواہوں سے گھنٹوں سوال جواب کرنے میں سرف کیے (ہماری بے صبری قوم کہتی ہے یہ ان کو پکڑتے کیوں نہیں مہینہ ہو گیا ہے اس بک بک کو )اس کہنہ مشق تحقیق اور مکمل چھان بین کے بعد با لاخر ایک دن انہوں نے حکم جاری کر دیا کہ ”لیونہ مینڈی ہلمسلے کے خلاف ٹیکس چوری کا مقدمہ درج کیا جائے ” آگ کی طرح پھیلتی اور پورے نیو یارک میں سنسنی پھیلاتی اس خبر پر ہمارے بڑے اور شریف خاندانوں کی طرح جو کہ نہ قانون کی پکڑ میں آتے ہیں نہ ثابت شدہ جرم کا اعتراف کرتے ہیں بلکہ اپنے خلاف لگنے والے الزامات کو بدنیتی پر مبنی انتقام قرار دیتے ہیں۔
ہملسلے فیملی نے بھی اسی طرح محض اسکینڈل قرار دے کر رد کر دیا پراسکیوٹر نے لیونہ پر چار ملین ڈالر کا ٹیکس چوری کا مقدمہ پیش کیا جسے لیونہ کے گھریلو اخراجات کا ایک معمولی حصہ کہا جا سکتا تھا استغاثہ کی جانب سے اٹارنی جنرل کی معاونت کے لیے روڈلف کیومانی پیش ہوئے یہ وہ روڈلف کیومانی ہیں جو اس وقت نیویارک کے میئر تھے جب نیویارک میں 11ستمبر کا واقعہ پیش آیا اس وقت ان کے انتظامات اور حادثہ کو بھرپور ریسکیو کرنے پر ان کو بہت سراہا گیا )گیو مانی نے یہ مقدمہ بہت محنت سے پیش کیا گواہان کے بیانات کا استغاثہ کے الزامات سے تعلق کسی بھی مقدمے میں بہت اہم ہوتا ہے اور گیومانی اسے ایک بہترین ترتیب سے پیش کر رہے تھے لیونہ کی جانب سے فوجداری قانون کے صف اول کے وکیل جیرالڈ ایک پوری ٹیم کے ساتھ پیش ہوئے لیکن تین سال کی اٹارنی جنرل اور پراسکیوٹر کی JITکی تفتیش اور گواہان کی شہادتیں دستاویزی شواہد سے ایسی مطابقت رکھتی تھیں کہ جیرالڈ لیونہ کو اس مقدمہ میں بے گناہ ثابت نہ کر سکے بلکہ ایک بہترین شفاف تحقیقات کے نتیجے میں جیوری نے ایک متفقہ فیصلہ سنا دیا کہ لیونہ کے خلاف جرم ثابت ہو گیا ہے جیوری کے فیصلے کا اعلان ایک جیوری ممبر کرتا ہے جو صاحب جج کو فیصلہ سنانے کے لیے کھڑے ہوئے تھے ان کا لہجہ اس قومی چوری کی ملزمہ جو کہ اب ثابت شدہ مجرمہ تھی کے لیے انتہائی سخت اور تحقیر آمیز تھا انہوں نے ایک ایک لفظ چبا کر کہا کہا لیونہ مجرم ہے امریکی قانون کے مطابق جرم ثابت ہونے کا فیصلہ تو جیوری کرتی ہے لیکن سزا کا تعین جیوری کے اعلان کی روشنی میں مقدمہ پر مامور جج نے کرنا ہوتا ہے چنانچہ فیڈرل جج جان ایم واکر جو سابق صدر جارج بش کے کزن بھی تھے نے لیونہ کو چار سال کی سزا اور ٹیکس چوری کی مد میں بچائی گئی رقم کی ادائیگی کے علاوہ ستر لاکھ ڈالر جرمانہ کی سزا بھی سنائی بحر حال اعتراف جرم اور اس پر ندامت بھی ایک اخلاقی صفت ہے سزا ملنے پر لیونہ ہلمسلے کا بیان تھا میں اپنا جرم تسلیم کرتی ہوں میں خود کو بہت چھوٹا محسوس کر رہی ہوں دل چاہتا ہے زمین پھٹے اور میں اس میں سما جائوں میں محسوس کرتی ہوں جیسے ایک ڈرائونا خواب دیکھ رہی ہوں۔
لیونہ ہلمسلے کا انٹرویو اور ندامت بھرے جملے آج بھی یوٹیوب پر دیکھے جا سکتے ہیں اصل سزا انسان کی عزت اور وقار کا کھو جانا ہے نہ کہ دولت و اقتدار؟ہم ایک اخلاقی پستیوں میں ڈوبی قوم ۔۔۔جو صرف مجھے کیوں نکالا ہی گا سکتے ہیں۔