وعدے کی اہمیت

Promise

Promise

تحریر : بائو اصغر علی

رب کائنات کا فرمان مبارک ہے ” بے شک انسان گھاٹے میں ہے ”آیت نمبر 2سورة العصر،اس دنیا میں یہ شان و شوکت ،دولت و جاگیر یں سب فریب ہے اس میں خود کو تباہ نہ کیجئے ،آپ اس بات پر غور کریں کہ آپ چار دن منظر سے غائب ہو کر دیکھیں لوگ آپ کا نام تک بھول جائیں گے،انسان ساری زندگی اس فریب میں گزار دیتا ہے کہ وہ دوسروں کیلئے اہم ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہمارے ہونے نا ہونے سے کسی کو کوئی فرق نہیں پڑتا، یہا ں تک کہ مر جانے سے بھی کسی کی زندگی پر کوئی فرق نہیں آئے گا یہی لوگ ریسٹ ان پیس اور فیلنگ سیڈ یا برون کا سٹیٹس دے کر اپنی اپنی زندگی کی رعنائیوں میں گم ہو جائیں گے ،یہا ں لوگ کئی قسم کے وعدے کرتے ہیں اور اپنا مطلب نکال کر وعدے بھول جا تے ہیں ہم اس وقت بے سمجھی میں بے مقصد وعدے کرتے ہیں جب ہم کہی جذباتی ہوتے ہیں اس وقت ہمیں وعدے کی اہمیت کا احساس نہیں ہوتا جب ہم کسی جذبات متلاہوتے ہیں ذرا غور کیجئے کہ وعدے کی اہمیت کیا ہے۔

قرآن مجید کی سورة الاحزاب کی آیت نمبر 15میں اللہ رب اعزت فرماتے ہیں ”اللہ سے عہد کرنے کی باز پرس ہوگی ”یہ بھی حقیقت ہے کہ آپ کسی سے کوئی وعدہ کر کے اپنے وعدے سے مکر جاتے ہیں وعدہ نہیں نبھاتے تو آپ کا شمار منکروں میں ہوتا۔ وعدے کے متعلق حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” جو وعدہ وفا نہیں کرتا وہ ہم میں سے نہیں ہے ”کتنا واضح اور شفاف بتا دیا گیا ہے کہ وعدہے کی کتنی اہمیت ہے اور وعدہ خلافی کے نتیجہ میں ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”وہ ہم میں سے نہیں ہے ”ارے نادان دنیا والوں ۔۔ ذرا غور کرو اگر ہم وعدہ وفا نہیں کرتے تو پھر اس پیاری ہستی سے تعلق قائم رکھنے سے بھی قاصر ہیں پھر غور کیجئے ”وہ ہم میں سے نہیں ہے ” اللہ اللہ ۔۔۔ ”وہ ہم میں سے نہیں ہے۔

ہمارے پیار محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ پاک کے پیارے محبوب سے جہل منگرلوگ وعدہ کرتے تھے کہ آپ فلاںکام کر کے دیکھائے تو ہم آپ پر پھر یقین کریں گے اور دین اسلام پر ایمان لائے گے جب ان کا کہا کام ہو جاتا تھا تو اپنے وعدے سے مکر جاتے تھے اور آج بھی جو اپنے وعدے سے مکر جاتے ہیں ان کا شمار آخرت میں منکروں میں ہی ہو گا یہ وہ تلخ خقیقت ہے جسے ہم جانتے بوجھتے نظر انداز کرتے ہیں۔

آئو لوگوں ابھی بھی وقت ہے اللہ پاک کے حضور توبہ کا دروازہ کھولا ہے توبہ کر لواور اپنی زندگی کو اللہ پاک کے راستے میں وقف کیجئے کیونکہ اسلام کے اسول سنہری اور لازوال ہیں جب تک ہم اسلام کے ان سنہری اصولوں کو اپنا نصب العین نہیں بناتے تب تک ہم دین کے ہیں نہ دنیا ہے اور آخرت جو ایک ایک اٹل حقیقت ہے وہاں بھی ہمارا ٹھکانہ جہنم کے سوا کیا ہو سکتا ہے رب کائنات سورة النصر کی آیت نمبر تین میں فرماتے ہیں ”اپنے رب کی حمد کے ساتھ تسبیح کیجئے اور اس سے معافی مانگئے بیشک وہ بڑا توبہ قبول کرنے والا ہے”یعنی اپنے خالق کی حمد بیان کریں اس سے معافی کی درخواست کریں کیونکہ رب کائنات توبہ قبول کرنے والا ہے۔

اللہ پاک کیلئے خود کو جہالت سے نکال کر حق اور سچ کی طرف لوٹ آیئے یہ دنیا ایک فریب ہے اس میں خود کو تباہ نہ کیجئے ،سورة لقمان میں اللہ تعالی فرماتے ہیں ”پھر دنیا کی زندگی تمہیں دھوکے میں نہ ڈال دے ” آیت نمبر 33،سبحان اللہ ہمیں بتا دیا گیا ہے کہ دنیا کی جو عارضی زندگی ہے یہ ہمیں دھوکے میں ڈال سکتی ہے اس دھوکے سے بچنے کا یہی ایک طریقہ ہے کہ ہم صراط مستقیم پہ چلیںیہاں اپنی جھو ٹی شان و شوکت کیلئے کتنے کتنے جھوٹ بولے جاتے ہیں، کیاکیا بیس بنائے جاتے ہیں ۔کئی تنظیمیں بنی ہیں جن کو چلانے والوں کا کہنا ہوتا ہے کہ اہم غریبوں کیلئے یہ سب کر رہیں ہیں مگر غریبوں کے حصے چوتھائی بھی نہیں آتا بس سب اپنے بیٹ بھر رہے ہیں اور غریبوں کا مال کھا کر آخرت میں ذلت و رسوائی کا سامان بنا رہے ہیں یہ سب ہوس ،لالچ اور فریب ہے یہ سب آخرت میں ذلت و رسوائی کا سامان ہے ابھی بھی وقت ہے توبہ کیجئے اور اللہ پاک کے حضور مافی مانگ لیجئے۔آقا جی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث پاک کا مفہوم ہے ” جو وعدہ وفا نہیں کرتا وہ ہم میں سے نہیں ہے ”اگر صرف اسی ایک حدیث پاک کو سامنے رکھ لیا جائے اور اس پہ خلوص نیت سے عمل پیرا ہو جائیں تو اس سے سب مسلمان دنیا اور آخرت میں کامیابی حاصل کر سکتے ہیں۔

Bao Asghar Ali

Bao Asghar Ali

تحریر : بائو اصغر علی