سیانوں کا قول ہے کہ دوستی ہمیشہ برابر والو ں سے ہوتی ہے۔ہمارے ہاں تو علاقے کا چھوٹا سا چوہدری بھی اپنے ہاں انسان دوستی ،مساوات اور برابری کی سوچ کو جگہ دینے اور کمزوروں، مجبوروں اور مہقوروں کو قفسِ جبر سے آزاد کرنے کا سزاوار نہیں ہوتا۔وہ ہمہ وقت ذاتی تفوق اور تفاخر کا طرہ سجائے رکھتا ہے اور اپنے ہم نفسوں کو غلامی اور ذاتی اطاعت پر مجبور کرتارہتا ہے۔ جس کسی نے بھی اس کی اس روش سے سرِ مو انحراف کیا اس کا کھلے عام ایسا حشر کیا گیا کہ دنیا یاد رکھے ۔سچ تو یہ ہے کہ اس کی چھوٹی سی بادشاہی میں کسی کو مداخلت اور من مانی کا یارا نہیں ہوتا۔وہ تنِ تنہا فیصلہ کرنے کااذن چاہتا ہے اور جوکوئی بھی اس کی فکری برتری کے زعم میں سدِ راہ بنتا ہے اسے بے دردی سے جھٹک دیا جاتا ہے۔
میں کوئی الف لیلوی داستان کا راگ نہیں الاپ رہا بلکہ یہ ہمارا روزمرہ کا مشاہدہ ہے جسے میں قرطاس پر سپردِ قلم کر رہا ہوں ۔ ہمارے ہاں اقتدار کی جتنی بھی جنگیں لڑی گئی ہیںان کا نقطہ ماسکہ بھی اختیارات کا کنٹرول و تفوق تھا جب ایک ادارہ دوسرے ادارے کی برتری کو تسلیم نہیں کرتاتو پورا نظامِ حکومت ہی تلپٹ ہو جاتا ہے۔ منتخب آئینی حکمران جیلوں کی ہوا کھاتے ہیں اور ماتحت شب خون مار کر حکمران بن کر قوم کے فیصلے صادر کرنے لگ جاتے ہیں۔یورپ میں ایسا نہیں ہوتا وہاں پر سب ادا روں کی حدود و قیود متعین ہیں اور کوئی اپنی حدود سے تجاوز نہیں کرتا۔وہاں پر منتخب قیادت کو وسیع اختیارات حاصل ہوتے ہیں اور کوئی انھیں سیکورٹی رسک قرار نہیں دیتااور نہ ہی کوئی بنیادی حقوق کی آئینی شق کا سہارا لے کر منتخب نمائندوں کی تضحیک کرتا ہے ۔ ہمارے ہاں تو اس آئینی شق کا سہارا لے کر سیاستدانوں اور بیوو کریسی کو خوب رگیدا جاتا ہے۔معاشرے میں کون ساایسا فعل ہے جو بنیادی حقوق کے زمرے میں نہیں آتا لہذا وزیرِ اعظم سے لے کر ادنی ملازم تک ہر کوئی اس شق کا شکار ہے۔ ہمارے سیاستدان بھی کوئی اعلی کردار کے نمونے پیش نہیں کرتے بلکہ اقربا ء پر وری اورکرپشن کی کئی اچھوتی کہانیاں تخلیق کرتے ہیں۔
گویا کہ پورا معاشرہ ہی بگاڑ کا شاہکار بنا ہوا ہے لیکن پھر بھی مہم جوئی،طالع آزمائی اور شب خون کی حمائت نہیں کی جا سکتی کیونکہ یہ آئین سے انحراف ہے۔احتساب کے کڑے قوانین سے معاشرے کو بہتر بنایا جا سکتا ہے لیکن کچھ اداروں کی طرف سے منتخب قیادت کے ساتھ جس طرح کا ناروا سلوک کیا جا تا ہے اس پرنظر ثانی کی ضرورت ہے کیونکہ اس سے پوری دنیا میں پاکستان بدنام ہو رہا ہے ۔سیاسی اختلافات جب اداروں کے درمیان رسہ کشی کا باعث بن جاتے ہیں تو پھر سارا جمہوری کلچر کمزور ہوجا تا ہے۔،جب تک انسانی نفسیات کو نہیں سمجھا جاتا پاک امریکی دوستی کی روح کو بھی نہیں سمجھا جا سکتا ۔امریکہ اس وقت پوری دنیا کا چوہدری ہے ۔ چھوٹے بڑے چوہدری اس کی چوکھٹ سے مفادات کی بھیک مانگتے ہیں اور وہ ہر ملک کو اس کی اوقات کے مطابق نوازتا رہتا ہے۔اسے علم ہے کہ اس نے کس سے کیا مفاد حاصل کرنا ہے، کہاں پر دبائو بڑھانا ہے اور کہاں پر گلے لگا نا ہے۔وہ میڈیا کی طاقت سے ایسے حالات پیدا کر دیتا ہے کہ متعلقہ قوم خود بخود اس کے جال میں پھنستی چلی جاتی ہے۔
جب اس نے اس بات کی منصوبہ بندی کر لی تھی کہ اس نے مسلم امہ کو نشانہ بنانا ہے تو اس نے نائن الیون کا ڈرامہ رچایا اور پوری مسلم امہ کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا۔اس وقت کا مضبوط آمر بھی ایک فون کال پر ڈھیر ہو گیا تھا حالانکہ وہ مکوں سے ہمیں روز ڈرایا کرتا تھا اور بات بات پر بر ملا کہا کرتا تھا کہ میں کسی سے ڈرتا ورتا نہیں ہوں ۔وہ ڈرتا تھا یا نہیں لیکن وہ امریکی وزیرِ خارجہ کے فون پر ضرور سرنگوں ہو گیا تھا۔یہ اسی خوف کا اثر تھا کہ ہمیں ا فغان جنگ میں بلا وجہ کودنا پڑا ۔کل تک جو اتحادی تھے اب ایک دوسرے کے خون کے پیاسے بن گے ۔افغان جنگ میں ہماری شرکت نے ہمیں دھشت گردی کے ایسے آسیب کے حوالے کر دیا جس سے ابھی تک ہماری جان نہیں چھوٹ رہی۔ہزار ہا جانوں کے نذرانے دینے کے بعد بھی ہم اس جنگ سے نکل نہیں پارہے ۔یہ تو ہماری مسلح افواج کی قربانیوں اور ان کے تنظیمی ڈھانچے کا کمال ہے جس نے ہمیں انتشار سے بچایا ہوا ہے وگرنہ وہ اقوام جن کی افواج میں نظم و نسق اور اتحادکا فقدان تھا وہ خانہ جنگی میں ایسی الجھیں کہ ان کے ہاں آگ اور خون کا کھیل معمول بن گیا۔کیا لیبیا شروع سے ایسا تھا؟ کیا شام شروع سے ایسا تھا؟ کیا عراق شروع سے ایسا تھا؟ کیا یمن شروع سے ایسا تھا؟ کیا افغانستان شروع سے ایسا تھا۔نہیں بالکل نہیں ،یہ سارے ممالک بڑے پر امن تھے لیکن امریکی سازش کا ایسے شکار ہوئے کہ تباہی او بربادی ان کا مقدر بن گئی۔،۔
پاک امریکی تعلقات کبھی بھی ہموار نہیں رہے بلکہ ان میں سدا اتار چڑھائو دیکھنے کوملا۔کمزور وکٹ پر ہونے کی وجہ سے ہمیں امریکہ کے جائز و ناجائز مطالبات پرسرِ تسلیم خم کرنا پڑا۔وہ ہماری کمزوری کا فائدہ اٹھا تا رہا اور ہم اس کیلئے تر نوالہ ثابت ہو تے رہے۔ہمارے ہاں سیاسی عدمِ استحکام بھی اس کی بڑی وجہ تھی ۔منتخب قومی قیادت کی عدم موجودگی میں امریکہ کو دبا ئو بڑھانے کے مواقع نصیب ہو جاتے تھے اور شائد یہی وجہ تھی کہ امریکہ نے ہمیشہ غیر منتخب حکومتوں کی حوصلہ افزائی کی اور فوجی آمروں کو مضبوط کیا۔جنرل محمد ایوب خان،جنرل ضیا الحق،جنرل پرویز مشرف اس کی واضح مثالیں ہیں۔سیٹو اور سینٹو جیسے معاہدے انہی فوجی ادوار کی نشانی تھے جسے ذولفقار علی بھٹو کی باجرات قیادت نے ردی کی ٹوکری میں پھینک دیاتھاجو امریکہ کو ایک آنکھ نہ بھایالہذا ایک عالمی سازش کے تحت اس عظیم قائد کو راستے سے ہٹا دیا گیا۔جنرل ضیا لحق پر اس سازش کو کامیابی سے ہمکنار کرنے پراربوں ڈالڑوں کی بارش کی گئی اورپاکستان ایک بار پھر اسی گرداب میں پھنس گیاجس سے ذولفقار علی بھٹو نے اسے نکالا تھا۔سچ تو یہ ہے کہ ہمارے پڑوسی کی فوجی قوت اور پھر اس کے توسیع پسندانہ عزائم نے ہمیں ہمیشہ امریکی چوکھٹ پر جھکنے پر مجبور کیا حالانکہ امریکہ نے ہم سے ہمیشہ سوتیلی ماں جیسا سلوک کیا۔ایک زمانہ تھا کہ روس بھارت گٹھ جوڑ سے ہم سخت دبائو میں تھے اور امریکہ کو نجات دہندہ سمجھ رہے تھے ۔
مشرقی پاکستان کا المیہ روس بھارت گٹھ جوڑکا شا خسانہ تھا ۔کشمیر کا مسئلہ اسی گٹھ جوڑ کی وجہ سے سرد خانے میں پڑا رہتا تھا کیونکہ روس سلامتی کونسل میں کشمیرکی آزادی کی ہر قرار داد کو ویٹو کر دیتا تھاجس سے کشمیریوں کی استصوابِ رائے کی خواہش حقیقت کا جامہ پہننے سے قاصر رہتی تھی۔جدید ٹیکنالوجی اور چین کی ابھرتی ہوئی معیشت نے جب دنیا بھر میں اپنے قدم جمانا شروع کر دئے تو بھارت روس کی بجائے امریکی کیمپ میں چلا گیااور یوں پاک چین دوستی کے خلاف ایک نیا اتحاد معرضِ وجود میں آگیا ۔بھارت کا ہدف پاکستان تھا جبکہ امریکہ کا ہدف چین تھا لہذا ان کی یہ دوستی دن بدن مضبوط ہو تی گئی جس سے ہمارے مسائل میں مزید اضافہ ہو تا چلا گیا ۔ چین تو کسی حد تک امریکہ اور بھارت کا دبائو سہہ جائیگا لیکن ہماارا کیا ہو گا؟ایک طرف امریکی دشمنی اور دوسری طرف بھارتی جارحیت ہمارے وجود کیلئے مسلسل خطرہ بنی ہوئی ہے۔
امریکہ اپنے قومی مفاد کی خاطر ہمیں سدا قربان کرتا آیا ہے اور ہم بھی اربوں ڈالروں کے چکر میں اس قربانی کیلئے تیار رہتے ہیں۔روس کے خلاف ١٩٧٩ کی جس افغان جنگ میں جنرل ضیا الحق نے اربوں ڈالر ہتھیائے تھے ۔ امریکہ نے اس وقت بھی ہمیں دھکا دے کر میدانِ کارزار میں پھینک دیا تھا اور ہم نے اس جنگ کو جہاد کا نام دے کر شہادتوں کے تمغے سجائے تھے لیکن جیسے ہی روس کو شکست سے ہمکنار ہو نا پڑا تواس جہاد کو بھی لپیٹ دیا گیا ۔امریکہ بہادر نے تو واشنگٹن کی راہ لی اورہمارے حصے میں ٣٥لاکھ افغانی آئے جھنوں نے اپنی متشدد سرگرمیوں سے پاکستان کو کلاشنکوف کلچر کا گھڑھ بنا دیا۔اس زمانے سے تشدد آمیز کاروائیوں کا جو دریچیہ کھلا تھا وہ کبھی بھی بند نہ ہو سکا۔بد امنی کے یہ سائے ابھی موجود تھے کہ دنیا نائن الیون کی گرفت میں چلی گئی اور مریکہ نے اایک دفعہ پھر ہمارے مقدر میں دھشت گردی کا ناسور بھر دیا ۔یہ تھا دوستی کا وہ صلہ جس کا ہم دم بھرتے رہے ۔سچ تو یہ ہے کہ یاری کی اساس مضبوط نہ ہو تو ایسے ہی ہوا کرتا ہے ۔،۔
Tariq Hussain Butt Shan
تحریر : طارق حسین بٹ شان (چیرمین) مجلسِ قلندرانِ اقبال