قیافہ شناس کہاں ہو؟

Qayafa Shanas kahan Ho

Qayafa Shanas kahan Ho

تحریر : شاہ بانو میر

“”سورت مائدہ کی ابتدائی آیات کا ترجمہ “”

“”ایمان والو !!

اللہ کی نشانیوں کی بے حرمتی نہ کرو

نہ ادب والے مہینوں کی””

حالیہ دنوں میں ہوا ایک مقامی پروگرام بہت نیک مقصد کیلئے کیا گیا

مگر

“”انما الاعمال بالنیات””

“”اعمال کا دارو مدار نیت پر ہے””

آپﷺ نے فرمایا کہ

“”جتنے ثواب کے کام ہیں وہ نیت سے ہی ٹھیک ہوتے ہیں

اور

ہر آدمی کو وہی ملے گا جس کی وہ نیت کرے گا””

حال ہی میں ایک کمیونٹی پروگرام منعقد کیا گیا

جس کی غرض و غایت بہت اچھی تھی

مگر

حسب معمول موجودہ حکومت کی طرح طریقہ کار نا مناسب

وہ کیسے؟

اس طرح سے کہ

جس مہینے کا احترام اللہ نے واجب کیا اس مہینے کا تقدس ختم کر دیا گیا

حرمت کے 4 مہینوں ذی القعد ذی الحج محرم رجب ہیں

یہ وہ مہینے ہیں

جن کو عرب جاہلوں نے بھی ان کے تقدس حرمت کی وجہ سے مانا تھا

اہل عرب میں قتل و غارت ا عام بات تھی اور قزاقی لوٹ مار کسی بھی وقت کہیں بھی کی جا سکتی تھی

کوئی حد کوئی قید نہیں تھی

ماسوا 4 مہینوں کے جس میں اہل عرب سکون کا سانس لیتے

اور

گزر بسر کیلئے تجارتی قافلے بحفاظت ایک جگہ سے دوسری جگہ جاتے

سال کے 8 مہینے وہ لوگ گھروں میں رہتے

اور

ان چار مہینوں میں بلا خوف و خطر تجارت کرتے ہوئے ایک جگہ سے دوسری جگہ جاتے

حرمت والے مہینوں کی فضیلت اس قدر ہے کہ

“” سامنے باپ کا قاتل بھی آجاتا تو اسے بھی نظر انداز کیا جاتا””

آج ہم نے کیا کیا؟

ریاست مدینہ کا نعرہ لگانے کر ریاست مدینہ کی بنیاد کیا ڈالتے

ہم نے تو اسلام کی بنیاد کو ہی ہلا دیا

ڈیم کیلئے ایک پروگرام کا انعقاد ہوتا ہے

پہلے تو ضرور سوچنا چاہیے تھا کہ تاریخ کونسی ہے اور کس مہینے کی ہے

بطور مسلمان جو لوگ کرتا دھرتا ہیں دین کا اتنا شعور ان پر لازم ہے

کوئی غیر مسلم یہ پروگرام محرم میں کرتا تو ہم سب لکھتے اور خوب لعن طعن کرتے

مگر

دکھ کی بات تو یہ ہے کہ

اللہ کی مقرر کردہ حد کو خود ہم ہی توڑ رہے ہیں

اور

کوئی تاسف نہیں؟

اتنی بے خوفی ؟

یہ پروگرام اگر کسی مجبوری کی وجہ سے کرنا ضروری بھی تھا تو اس میں احترام محرم کیلئے گانا بجانا نہیں ہونا چاہیے تھا

کچھ رہنماؤں نے اس قوم کو اس قدر بودا سمجھ لیا کہ جسے جس طرف لگاؤ لگ جاتی ہے

جبکہ

بطور مسلمان غور و فکر تدبر اور تفکر اہل عقل کیلئے قرآن لازم قرار دیتا ہے

محرم کو ہم نے کربلا سے منسوب کر کے اس کی حرمت کو ہمیشہ نظر انداز کرنے کی کوشش کی ہے

جبکہ

اس مہینے کی فضیلت پر مہر کربلا نے لگا دی

اللہ کیلئے کیا مشکل تھا کہ کربلا کا واقعہ کسی اور مہینے میں ہو جاتا

محرم کی حرمت کو کربلا نے عروج دیا ہے

بیرون ملک قیام پزیر پاکستانی عرصہ دراز کے بعد خوشگوار انداز میں وطن عزیز کو سپورٹ کرنے نکلے تھے

ان کے لئے گانا بجانا اہم نہیں تھا

مقصد اہم تھا

مگر ہمارے اوپر موجود اداروں کے سربراہان بدنصیبی سے اسلامی مہینوں کی حرمت سے بے خبر ہیں

ایسے ہی دل خوف خُدا سے عاری ہوتے ہوئے ایسے سخت ہو جاتے ہیں جیسے پتھر یا اس سے بھی سخت

کیونکہ

پتھروں میں تو کچھ ایسے ہیں جن سے چشمے پھوٹ نکلتے ہیں

اور

کچھ اللہ کی خشیعت سے جھک جاتے ہیں

کہیں پتھر اسود بن کر عظمت پا جاتا ہے

سوچیں

ایک گروہ انسانی جو صحرا میں بدو بن کر جانوروں سے بد تر زندگی گزارتی ہے

جب اللہ انہیں پسند کرتا ہے تو انہیں تراش خراش کر دنیا کیلئے باعث مثال بنا دیتا ہے

ایسی بگڑی ہوئی قوم جیسے ہی وحی کا نزول ہوتا ہے تو گزشتہ زندگی کی ہر برائی سے فورا یوں توبہ کرتی ہے

اور

ان کی عبادت کی بلندیاں کیا معراج پا لیتی ہیں

کہ

وہ دنیا میں ہی جنت کی خوشخبری پالیتے ہیں

سبحان اللہ

ہر برائی نیکیوں سے مٹتی چلی جاتی ہے

جہالت کا تاریک دور قرآن کے نور سے روشن صبح میں تبدیل ہوتا ہے

زندگیاں بدلتی ہیں

دلوں کے بت کدے ڈھ جاتے ہیں اور دن رات چڑہاوے چڑہانے والے ان سے بیزار ہو کر اپنے رب کو پہچان لیتے ہیں

یوں جس کعبہ کی عبادت سے محروم کئے جاتے ہیں

وہاں اس شان سے داخل ہوتے ہیں کہ سبحان اللہ

ان تیرہ سالوں میں کتنی گردنیں کٹیں کتنے جوان لاشے دیکھے

کتنے گھر اجڑے

اور

آخر میں اللہ کا گھر آباد ہوا

یہ تھی وہ شاندار امت جو کبھی بدو تھے

ان پڑھ بد تہذیب بے وقوف ہر حد سے قید سے آزاد جاہلانہ رسوم میں جکڑے ہوئے

اللہ اکبر

آج چودہ سو سال بعد امت کہاں ہے؟

جس کے وہ لوگ ضامن تھے جو اپنی جانوں پر کھیل کر ان کیلئے دین کو بچا گئے

مکہ سے مدینہ سے نکلتا ہوا دین پوری دنیا میں یوں پھیلا کہ

آج ان کی قربانیاں ہیں جو ہم سب نسلا مسلمان ہیں

وہ ہماری پہچان تھے مگر آج خود کو دیکھ کر حیرت ہوتی ہے

کیا نسبت ہے ہمیں ان سے

جنہوں نے ڈھول تاشوں سے عبادت کو محفوظ کیا

اور

خالص سنجیدہ محترم انداز عطا کیا

دنیا کی رنگینیوں سے بچا کر امت کو صراط المستقیم کی طرف لے گئے

دنیا کا واحد راستہ جو کہنے کو سیدھا ہے مگر اس سے زیادہ پیچیدہ راستہ کوئی اور نہیں

اس سیدھے راستے پر چلنے کیلئے تقویٰ ہونا لازم ہے

وجود کیسے چھلنی ہوتا ہے اور قدم کیسے من من وزنی ہوتے ہیں

جن کو اٹھا کر چلنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں

آج اپنے اسلاف کی قربانیوں کو ہم نے یوں روند ڈالا کہ

احترام کا مہینہ سوچ سے نکل گیا اور ہم نے زمانہ جاہلیت کی طرح خوب سج دھج کے

ایک نیک کام کو کرنے کی بھارتی روایت اپنا لی

پروگرام ہونے کا صبر سے انتظار کیا کیونکہ پہلے آگاہی دیتی تو

وہم میں مبتلا ذہن نجانے کن وسوسوں کا شکار ہو کر بات کا بتنگڑ بنا ڈالتے

ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ملک فارس میں ایک بادشاہ رہتا تھا

جس کو ایک قیافہ شناس ملا

اس کی باتوں سے متاثر ہو کر بادشاہ نے عزت سے دربار میں جگہ دی

ایک دن اس کی صلاحیت کو جانچنے کیلئے بادشاہ نے ملکہ اور اپنے بارے میں پوچھا

جان کی امان پا کر اس نے راز منکشف کیا

کہ

ملکہ اور بادشاہ دونوں ہی شاہی خاندان سے نہیں ہو سکتے

بادشاہ نے وجہ پوچھی کہ اسے کیسے پتہ چلا

اس نے جواب دیا

اعلیٰ شاہی لوگ اعلیٰ انعام و اکرام دیتے ہیں

تم لوگ گیہوں چاول اور جانور دیتے ہو

بادشاہ وقت تو اشرفیوں کے منہ کھول دیتے ہیں

ہیرے موتی عطا کرتے ہیں

تحقیق کی گئی تو واقعی نہ ملکہ شاہی خاندان سے نکلی

اور نہ بادشاہ

آج اس قیافہ شناس کی تلاش ہے کہ وہ آئے

اور

آکر اس قوم کو بتائے کہ یہ تو اب پست ہو رہی ہے

لاغر نحیف بیچاری

اس کے آباء و اجداد تو ایسے نہ تھے

قیافہ شناس آؤ

بیان کرو اس قوم سے کہ

بہت ہی شاندار روایات کے حامل بزرگوں کی نشانیاں ہیں

یہ تو لہو سے تر اسلامی تاریخ کے مالک ہیں

شعائر اللہ کیلئے جانوں کو قربان کر کے اسلام کو قیامت تک محفوظ کیا تھا

کہ ہم پیچھے آنے والے جہنم سے بچ سکیں

پھر

آج ہم کہاں پہنچ گئے

کہاں آگئے

کہ

ہمیںہ ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا دیا گیا؟

اور

اتنی سیدھی قوم ہے کہ

جو لوگ کہیں غلطی محسوس کرتے ہیں

وہ اس ڈر سے کہنے سے قاصر ہیں کہ ان کی بات کو سمجھا نہیں جائے گا

کیونکہ

سامنے ایک بڑی سوچ ایسی ہے جس کا مقصد صرف دنیا کی چمک دمک اور دکھاوا ہے

لہٰذا

خاموشی بہتر ہے

مگر

خاموشی ہر جگہ بہتر نہیں کہیں یہ خاموش امت کی موت ہے

انہی کے بارے میں کہا گیا

کہ یہ لوگ اپنا کام محنت متضاد سمت کرتے ہیں جس کا فائدہ نہیں ہے

آج ہمیں برداشت کے ساتھ جائزہ لینا ہوگا

کمیوینٹی پروگرام کا ہونا خوش آئیند ہے

مگر

حرمت کا تقدس پائمال کر کے ہم نے کس کو خوش کیا؟

کوئی ہماری سادگی سے اسلام سے دوری سے کتنا ہی خوش کیوں نہ ہو گیا ہو

یہ طے ہے

کہ ہمارا نامہ اعمال ہمارے سچے رب کے پاس جانا ہے

وہاں کسی کی سفارش بدلہ قبول نہیں؟

کیا حاصل کیا ہم نے ؟

اگر ہو سکے تو آئیندہ ممکنہ غلطیوں سے بچنے کیلئے

اسلامی تعلیمات سے آراستہ کچھ لوگوں کو ساتھ شامل کیا جائے

تا کہ

صرف ایک ہی سوچ جو اسلام اور حساس نوعیت کے نازک معاملات سے آگاہ نہیں

انہیں درست راستے کی نشاندہی کر کے

پروگرامز کو بہترین انداز میں پیش کیا جا سکے

“” اسلامی مشاورتی کمیٹی کا قیام عمل میں لائے جائے

جو ہر بڑے پروگرام کے لوازمات کو دیکھے

اور

اس میں سے غیر اسلامی انداز کو بہتر کرے اور سمت کو متعین کرے””

“” اسلامی سوچ کے ساتھ کسی پروگرام کو ڈیزائین کرے

یقین رکھیں بد مزگی پیدا نہیں ہوگی””

ماحول زیادہ خوشگوار اور لوگوں کی آمد زیادہ متوقع ہے

برکت اللہ کی رضا میں ہے نا کہ ناراضگی میں

پروگرام ہوگیا

اس بار اللہ پاک معاف کر دے سب سے جو بھول چوک ہوئی

مگر

آئیندہ کیلئے احتیاط لازم ہے

سوچ یہی ابھرتی ہے بار بار

اے قیافہ شناس!! تو کہاں ہے

آکر ذرا بتا اس امت کو بھی کہ

یہ کس شاندار ماضی اور روایات کی حامل ہے

اپنی ثقافت کی حفاظت اور اپنے دینی ملکی وقار کے ساتھ

قوم کو دعوت دی جائے تو آنے والے بہت کچھ سیکھ کر جائیں گے

صرف شور شرابہ ہنسی کھیل ہماری ضرورت نہیں

علم کی تقسیم کسی نہ کسی بہانے قوم میں پھیلانی وقت کی اہم ترین ضرورت ہے

یہ وہ قوم ہے جس کو اپنا اصل ساتھ لے کر چلنا ہے

تبھی برکت ہے کامیابی ہے

قوم کی عظمت ہے

اے قیافہ شناس کہاں ہو ؟

Shah Bano Mir

Shah Bano Mir

تحریر : شاہ بانو میر