ریاض (جیوڈیسک) سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے کہا ہے کہ ہم سعودی قوم کے دفاع اور اس کی حفاظت کے لیے کسی سے مفت میں کچھ نہیں لیتے اور اپنے دفاع کے بدلے میں کسی کو کچھ دیں گے بھی نہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ امریکا اور صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ ہمارے تعلقات مثالی ہیں۔ سعودی عرب امریکا سے اسلحہ مفت میں نہیں لیتا بلکہ اپنے پیسوں سے خریدتا ہے۔
امریکی ٹی وی چینل ‘بلومبرگ’ کو دیے گئے ایک انٹرویو میں محمد بن سلمان نے کہا کہ 2021ء تک سعودی عرب کی تیل کمپنی ‘ارامکو’ کے اثاثے ایک ٹریلین ڈالر تک پہنچ جائیں گے۔
سعودی ولی عہد کے امریکی خبر رساں ایجنسی کو دیے گئے انٹرویو کے اہم نکات درج ذیل ہیں۔
امریکا کے ساتھ تعلقات حال ہی میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے سعودی عرب کے حوالے سے ایک متنازع بیان سامنے آیا جس میں انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ سعودی عرب کی بادشاہت ان کے دم سے قائم ہے اور امریکا اپنا ہاتھ کھینچ لے تو سعودی بادشاہت دو ہفتے بھی نہ نکال سکے۔ اسی حوالے سے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں سعودی ولی عہد نے کہا کہ سعودی عرب اور امریکا کے بامی تعلقات برسوں پر محیط ہیں۔ سعودی عرب 1744ء یعنی امریکا کے قیام سے بھی 30 سال پہلے موجود تھا۔
انہوں نے کہا کہ سابق امریکی صدر باراک اوباما 8 سال تک اقتدار پر فائز رہے اور انہوں نے نہ صرف سعودی عرب بلکہ پورے مشرق وسطیٰ میں ہمارے ایجنڈے کے خلاف کام کیا۔ امریکا نے ہمارے ایجنڈے کے خلاف کام کیا اس کے باوجود ہم نے اپنے مفادات کا تحفظ کیا۔ نتیجتاً ہم کامیاب رہے اور امریکا ناکام ہوا۔ اس کی مثال مصر میں دیکھی جاسکتی ہے۔
صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے بیان کے بارے میں انہوں نے کہا کہ غلط فہمیاں ہر جگہ پیدا ہوتی ہیں۔ ایک گھر میں بھی خانگی امور پر تمام افراد کا 100 فی صد اتفاق نہیں ہوتا۔ دوستوں کے درمیان بھی اختلاف رائے ہوسکتا ہے۔ ماضی کی نسبت سعودی عرب اور امریکا کے باہمی تعلقات بہتر اور خوش گوار ہیں۔
کینیڈا کی مداخلت جرمنی اور کینیڈا کے سعودی عرب کے ساتھ تعلقات میں اتارو چڑھائو کے حوالے سے پوچھ گئے ایک سوال کے جواب میں سعودی ولی عہد نے واضح کیا کہ کینیڈا نے سعودی عرب کے اندرونی معاملات میں مداخلت کی کوشش کی اور ہم پر اپنا حکم چلانے کی کوشش کی گئی۔
یہ صرف کینیڈا کا معاملہ نہیں۔ سعودی عرب کے حوالے سے کئی دوسرے ممالک کے ایسے خیالات ہوسکتے ہیں۔ ہمیں ایک دوسرے کے اندرونی معاملات میں مداخلت سے سختی کے ساتھ گریز کرنا چاہیے۔ اگر ڈونلڈ ٹرمپ امریکی قوم کے حوالے سے کوئی فیصلہ کریں تو ہمیں اس میں مداخلت کا کوئی حق نہیں۔
ایک سوال کے جواب میں شہزادہ محمد بن سلمان نے کہا کہ سعودی عرب اپنے دفاع کے بدلے میں کسی کوکچھ نہیں دے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم امریکا سے مفت میں کچھ نہیں لیتے۔ امریکا سے اسلحہ پیسوں سے خریدا جاتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ سعودی عرب اور امریکا کے باہمی تعلقات صرف اسلحہ کی خریداری تک محدود نہیں۔
دو سال قبل سعودی عرب دوسرے ممالک سے اسلحہ خریدتا تھا۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے صدر منتخب ہونے کے بعد ہم نے اپنی اسلحہ پالیسی پر نظرثانی کی۔ آئندہ 10 سال تک ہم سعودی عرب کی ضرورت کا60 فی صد اسلحہ امریکا سے خرید کریں گے۔ اسی لیے ہم نے 400 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کے مواقع پیدا کیے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جب 99 فی صد امور درست ہوں اور فی صد پر آپ کو اعتراض ہو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔
دہشت گردی کے خلاف جنگ امریکی خبر رساں ایجنسی کو دیےگئے انٹرویو میں شہزادہ محمد بن سلمان نے کہا کہ ہم نے مشرق وسطیٰ میں بہت سے اہم مقاصد حاصل کیے ہیں۔ انتہا پسندانہ نظریات کو شکست دینے کے لیے ہماری کوششوںکامیابی حاصل ہوئی اور دہشت گردی کو شکست کا سامنا ہے۔ ‘داعش’ جیسا خون خوار بھیڑیا بھی تھوڑے ہی عرصے میں شام اور عراق سے غائب ہوگیا۔ دہشت گردی کی حمایت کرنے والے کئی ممالک دو سال میں تباہ ہوگئے۔ ہم دہشت گردوں کو ختم کرنے کے ساتھ مشرق وسطیٰ میں ایرانی مداخلت کی روک تھام کررہے ہیں۔ امریکا اور سعودی عرب نے ایران کو خطے سے بے دخل کرنے کے لیے کئی منصوبوں پر سرمایہ کاری کی ہے۔ مشرق وسطیٰ میں ایرانی مداخلت کی روک تھام کے لیے 50 ممالک نے مشترکہ اسٹریٹجی اختیار کی۔
تیل کی قیمتیں ‘بلومبرگ’ سے بات کرتے ہوئے سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے کہا کہ تاریخ گواہ ہے کہ سعودی عرب نے کبھی بھی عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں کے تعین میں مداخلت نہیں کی۔ تیل کی قیمتیں اس کی طلب اور رسد کے مطابق خود بدلتی رہتی ہیں۔ ہم نے اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر یہ فیصلہ کیا ہے کہ ہم عالمی منڈی میں تیل کی سپلائی کم نہیں ہونے دیں گے اور ایران کو تیل کی منڈی تک رسائی سے روکیں گے۔
اسی حوالے سے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ امریکا نے سعودی عرب اور ‘اوپیک’ کے دوسرے رکن ممالک سے درخواست کی تھی کہ وہ تیل کی رسد کمی نہ آنے دیں۔ سعودی عرب کی طرف سے یہ یقین دہانی کرائی گئی ہے کہ ایران کے عالمی منڈی سے باہر ہونے کے بعد تیل کی پیداوار میں ہونے والی کمی کو پوری کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ یہی وجہ ہے کہ سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں نے یومیہ 15 لاکھ بیرل تیل کا اضافہ کیا گیاہے۔
انہوں نے کہا کہ سعودی عرب کی آئل کمپنی ‘ارامکو’ کے وسائل محدود اور اس کے منصوبوں کی تعداد کم تھی۔ خام خوردنی تیل اور پٹرولیم مصنوعات کے میدان میںہم نے اسے ایک ترقی یافتہ ادارہ بنا دیا۔ ہم نے ارامکو کے لیے20، 30 اور 40 سال کی منصوبہ بندی کی۔ 2021ء تک ارامکو ایک کھرب ڈالرمالیت کے اثاثوں کے ساتھ سب سے بڑی آئل کمپنی بن کر ابھرے گی۔
جرمنی اور کینیڈا کے ساتھ تعلقات بلومبرگ کو دیئے گئے طویل انٹرویو میں سعودی ولی عہد نے جرمنی اور کینیڈا کے ساتھ سفارتی تعلقات کے حوالے سے بھی وضاحت کی۔ انہوں نے کہا کہ عن قریب سعودی عرب کا سفیر دوبارہ برلن میں اپنی ذمہ داریاں سنھبالے گا۔ فی الحال سابق سفیر ہی جرمنی جائیں گے تاہم بعد ازاں نیا سفیر بھی تعینات کیا جائے گا۔
کینیڈا کے بارے میں بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ کینیڈا کے معاملے میں ہم جلد بازی نہیں کریں گے بلکہ معاملہ ان ہی پر چھوڑ دیتے ہیں۔ کینیڈا کی حکومت نے اقوام متحدہ کے قانون کی خلاف ورزی کی۔ انہوں نے ایک ایسے مسئلے کو چھیڑا جس کا کینیڈا کے ساتھ کوئی تعلق نہیں تھا۔ جن لوگوں کے بارے میں کینیڈا کی طرف سے احتجاج کیا گیا وہ کینیڈا کے شہری نہیں۔ ایسا کرنا کینیڈا کے مفاد میں نہیں ہے۔ یہ سعودی عرب کا اندرونی معاملہ ہے اور ہم کسی کو اپنے اندرونی امور میں مداخلت کی اجازت نہیں دیں گے۔
کینیڈا معافی مانگے شہزادہ محمد بن سلمان نے کہا کہ کینیڈا کے ساتھ تنازع کا سادہ حل صرف معذرت اور آئندہ کے لیے مداخلت سے باز رہنے کی یقین دہانی ہے۔ کینیڈا سعودی عرب سے عدم مداخلت کا عہد کرے اور سابقہ مداخلت پر معذرت کرے تو معاملات ٹھیک ہوسکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ میرا خیال ہے کہ کینیڈا کی حکومت کو اپنی غلطی کا اندازہ ہوگیا ہے مگر ہم کینیڈا کی طرف سے تعلقات بہتر بنانے کے اقدامات کے منتظر ہیں۔
سعودی ولی عہد نے کہا کہ دنیا میں کئی طرح کے نظام ہیں اور لوگ ان نظاموں کے بارے میں اعتراض بھی کر سکتے ہیں۔ خواتین کے حوالے سے دنیا میں کئی پالیسیاں رائج ہیں۔ معاشروں میں ارتقاء اور تبدیلی کا عمل بھی جاری رہتا ہے۔ سعودی عرب کینیڈا کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کے اقدامات کرے گا مگر ہم اپنے مفادات پر کوئی سمجھوتا نہیں کریں گے۔
ترکی میں صحافی کی گرفتاری ترکی میں حال ہی میں صحافی جمال خاشقجی کی گرفتاری کے بارے میں پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں شہزادہ محمد بن سلمان نے کہا کہ خاشقجی ہمارے شہری ہیں۔ ہم ان کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں کہ آیا انہیں کیوں پکڑا گیا۔ اس حوالے سے ترکی کی حکومت کے ساتھ ہماری بات چیت جاری ہے۔
محمد بن سلمان نے کہا کہ مجھے بتایا گیا ہے کہ خاشقجی کی گرفتاری استنبول میں سعودی سفارت خانے میں داخل ہونے اور کچھ دیر بعد باہر نکلنے کے بعد عمل میں لائی گئی مگر ہم یہ سب کچھ یقین سے نہیں کہہ سکتے۔ ہم وزارت خارجہ کی سطح پر اس معاملے کو دیکھ رہے ہیں۔
یمن کی جنگ سعودی ولی عہد سے یمن میں جاری جنگ میں پیش رفت اور اس کے ممکنہ خاتمے کے بارے میں پوچھا گیا۔ انہوں نے جواب میں کہا کہ مجھے امید ہے کہ یمن جنگ بہت جلد اختتام پذیر ہوگی۔ ہم نہیں چاہتے کہ ہماری سرحد پر جنگ چھڑی رہے مگر ہم جزیرۃ العریب میں ایک نیا حزب اللہ نہیں دیکھنا چاہتے۔ یمن کی جنگ سعودی عرب کے لیے سرخ لکیر ہے۔ صرف سعودی عرب ہی نہیں بلکہ پوری دنیا حزب اللہ کے وجود کے خلاف ہے۔ ہم آبنائے ہرمز پر حزب اللہ اور ایران کا کنٹرول گوارانہیں کریںگے۔ یہ گذرگاہ 15 فی صد عالمی تجارتی جہازوں کی گذرگاہ ہے۔ ہم یمن میں آئینی حکومت کی بحالی کی جنگ منطقی انجام تک پہنچائیں گے۔
انہوں نے کہا کہ ہر جنگ میں غلطیاں ہوتی ہیں۔ المناک واقعات کا جلد حل نکالا جائے گا۔ یمن کی جنگ درصل قومی سلامتی کی جنگ ہے۔ توقع ہے ہمارے اس خیال کو سمجھ پائیں گے۔ ہم انہیں قائل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ عرب ممالک کی قومی سلامتی کے لیے خطرات پیدا نہ کیے جائیں مگر جب ایسا ہوتو ان خطرات کو دور کرنے اور اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے ہمارے پاس پاس جنگ کے سوا کوئی چارہ نہیں رہتا۔