اسلام آباد (جیوڈیسک) پاکستانی وزیراعظم عمران خان کے مطابق خطے میں پائیدار امن اور سیکیورٹی چیلنجز سے نمٹنے کے لیے تمام ہمسایہ ممالک کو مل کر اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔
ہفتہ 6 اکتوبر کے روز وزیراعظم عمران خان نے ملکی فوجی سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ کے ہمراہ جنوب مغربی صوبہ بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ کا ایک اہم دورہ کیا۔ دورے کے دوران وزیراعظم کو ملک میں قیام امن کی مجموعی صورتحال، سی پیک کی سیکیورٹی، غیر ملکی سرمایہ کاری اور پاک افغان بارڈر پر باڑ لگانے کے کام کی پیش رفت سے آگاہ کیا گیا۔
وزیراعظم کی صدارت میں کوئٹہ میں منعقدہ اعلیٰ سطحی اجلاس میں فوجی سربراہ سمیت وزیراعلیٰ بلوچستان، صوبائی اور وفاقی وزراء نے بھی شرکت کی۔
اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ پاکستان ہمسایہ ممالک کے ساتھ بہترین تعلقات کے فروغ پر خصوصی توجہ دے رہا ہے۔ انہوں نے کہا، ’’موجودہ حکومت زمینی حقائق کو دیکھتے ہوئے تمام معاملات پر توجہ دے رہی ہے۔ بدلتے ہوئے سیاسی اور دفاعی چیلنجز سے نمٹنے کے لیے ہماری پالیسی بہت واضح ہے۔ ہم نے دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ میں بہت نقصان اٹھایا ہے۔ پائیدار امن کا خواب شرمندہ تعبیر کرنا ہماری داخلہ اور خارجہ پالیسی کا اولین حصہ ہے۔‘‘
ذرائع کے مطابق اعلیٰ سطحی اجلاس کے موقع پروزیر اعظم نے ملک بھر اور بالخصوص شورش زدہ بلوچستان میں قیام امن کے لیے کیے گئے اقدامات پر اطمیان کا اظہار کیا۔ عمران خان نے واضح کیا کہ موجودہ حکومت کو عوام نے جو مینڈیٹ دیا ہے، اس پر کسی بھی صورت کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا اورملک میں معاشی استحکام اور پائیدار امن کا قیام حکومت کی اولین ترجیح ہے ۔
اجلاس کے دوران فوجی سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا کہ پاک چائنا اقتصادی راہداری منصوبہ (سی پیک) کی کامیابی کے لیے ‘سیکیورٹی کا خصوصی نظام مرتب کیا گیا ہے۔ ان کے بقول پاکستان خطے میں قیام امن کے لیے اپنا بھر پور کردار ادا کر رہا ہے اور خیبر پختونخوا کے بعد بلوچستان کے شورش زدہ علاقوں میں بھی قیام امن کے لیے جو اقدامات کیے گئے ہیں ان کے انتہائی مثبت اثرات مرتب ہوئے ہیں‘۔
صوبائی حکومت کے ایک بیان کے مطابق وزیراعظم نے دورے کے دوران کوئٹہ میں صوبائی کابینہ کے اجلاس کی صدارت بھی کی۔ اس اجلاس میں وزیراعظم کو بلوچستان کے ترقیاتی منصوبوں، چین ،سعودی عرب اور دیگر ممالک کی سرمایہ کاری اور دیگر امور کے حوالے سے بریفنگ دی گئی۔
پاکستان کے دفاعی امور کے سینیئر تجزیہ کار ڈاکٹر راشد احمد کے بقول ملکی سربراہان کا کوئٹہ کا آج کا دورہ کئی حوالوں سے بہت اہم ہے۔
ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا ، ”بیک وقت وزیراعظم اور آرمی چیف نے بلوچستان کےاس نوعیت کے بہت کم دورے کیے ہیں۔ آج کے دورے کے حوالے سے جو تفصیلات سامنے آئی ہیں، ان سے پتا چلتا ہے کہ ملکی سربراہان خطےمیں رونما ہونے والی تبدیلیوں کا بہت سنجیدگی سے جائزہ لے رہے ہیں۔ اجلاسوں میں وزراعظم اور فوجی سربراہ کو جو بریفنگ دی گئی ہے، اس کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ بلوچستان اس خطے کا ایک اہم ترین اسٹریٹیجک حصہ ہے اور یہاں کے حالات سے پاکستان کی داخلی اور خارجہ پالیسی براہ راست متاثر ہوتی ہے۔ دو یوم قبل ایرانی سفیر نے بھی اسی وجہ سے یہاں کا دورہ کیا تھا۔ میرے خیال میں موجودہ حالات کے تناظر میں پاکستان کی نئی حکومت جو بھی فیصلے کرے گی ان کا وزن اس لیے بھی زیادہ ہو گا کہ یہاں اب کئی دہائیوں بعد حکومت اور فوج ایک واضح طور پر ایک ہی صفحے پر دکھائی دے رہے ہیں۔‘‘
ڈاکٹر راشد نے بتایا کہ بلوچستان میں غیرملکی سرمایہ کاری کا پہلو بہت اہم ہے اور سی پیک منصوبے کی سیکیورٹی کے حوالے سے جو خدشات موجود ہیں ان پر حکومت کو تشویش لاحق ہے۔
ڈاکٹر راشد کے مطابق ، ’’غیرملکی سرمایہ کاری کے لیے حکومت تو پر عزم دکھائی دیتی ہے، لیکن یہاں جو لوگ سرمایہ کاری کے لیے آ رہے ہیں انہیں یہ تشویش لاحق ہے کہ ان کی سیکیورٹی کا معاملہ کس حد تک جامع ہو سکتا ہے۔ سی پیک منصوبے پر نہ صرف بلوچ اور پشتون سیاسی رہنماؤں نے کئی خدشات کا اظہار کیا ہے، بلکہ یہاں کے بلوچ علیحدگی پسند تنظیمیں اس منصوبے کو سرے سے بلوچوں کے مفادات کے بر خلاف سمجھتی ہیں۔ اس گھمبیر صورتحال کے تناظر میں حکومت ایسے اقدامات کرنا چاہتی ہے تاکہ یہاں کے خدشات بھی ختم ہوں اور سی پیک منصوبے کو بھی کامیابی سے ہمکنار کیا جا سکے۔‘‘
خطے کے بدلتے ہوئے حالات پر نظر رکھنے والے کوئٹہ میں مقیم سیاسی امور کے ماہر فرمان رحمٰن کہتے ہیں کہ پاکستان کی موجودہ حکومت کی خارجہ اور داخلہ پالیسوں کا محور ان بحرانوں سے نکلنا ہے جو کہ سابقہ حکومتوں کی ناکام خارجہ پالیسیوں کی وجہ سے ملک کو درپیش ہوئے تھے۔
ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ”سابقہ ادروار میں سول اور فوجی ادارے ہمیشہ اختلافات کا شکار رہے ہیں۔ ماضی کی حکومتیں اختیارات نہ ہونے کا رونا روتی رہی ہیں لیکن موجودہ جمہوری دور میں یہ توقع ضرور کی جا سکتی ہے کہ اگر حکومت کوئی فیصلہ کرے گی تو اس میں فوجی حمایت بھی شامل ہو گی۔‘‘
فرمان رحمٰن نے بتایا کہ ایران، افغانستان اور بالخصوص بھارت کے ساتھ بہتر تعلقات استوار کر کے موجودہ حکومت درپیش چیلنجز سے نکلنے میں کافی حد تک کامیاب ہو سکتی ہے۔ ان کے بقول ”جو ممالک بلوچستان میں سرمایہ کاری کرنا چاہتے ہیں انہیں اس بات کی گارنٹی ملنی چاہیے کہ ان کا سرمایہ یہاں ضائع نہیں ہو گا۔‘‘