لاہور (جیوڈیسک) لاہور ہائیکورٹ نے سابق وزرائے اعظم نواز شریف اور شاہد خاقان عباسی کے خلاف غداری کے الزام میں کارروائی کی درخواست پر سماعت 22 اکتوبر تک ملتوی کر دی۔
سابق وزرائے اعظم نواز شریف اور شاہد خاقان عباسی جسٹس مظاہر نقوی کی سربراہی میں 3 رکنی فل بینچ کے روبرو پیش ہوئے، بینچ کے دیگر اراکین میں جسٹس عاطر محمود اور جسٹس مسعود جہانگیر شامل تھے۔
عدالتی کارروائی شروع ہوئی تو کمرہ عدالت میں شدید رش کے باعث دونوں وزرائے اعظم کو روسٹرم پر نہیں بلایا گیا اور صرف چہرہ دیکھنے کے بعد کارروائی کا آغاز کیا۔
عدالت نے ڈپٹی اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ متنازع انٹرویو پر کارروائی کے لیے وفاقی حکومت نے کیا فیصلہ کیا جس پر عدالت کو بتایا گیا کہ یہ معاملہ پیمرا سے متعلق ہے، اسی نے کارروائی کرنی ہے۔
جسٹس مظاہر نقوی نے سوال کیا، یہ پیمرا کا معاملہ کیسے ہوا، لگتا ہے آپ نے درخواستوں کو پڑھا ہی نہیں، یہ حساس نوعیت کا معاملہ ہے اس لیے اٹارنی جنرل کو حاضری یقینی بنانی چاہیے تھی۔
عدالت نے آئندہ سماعت پر اٹارنی جنرل کو حاضری ہر ممکن یقینی بنانے کا حکم دیا اور درخواست گزار اظہر صدیق کی درخواست کے قابل سماعت ہونے پر دلائل دیں۔
سماعت کے دوران شاہد خاقان عباسی کے وکیل نے استدعا کی کہ 14 اکتوبر کو ضمنی انتخاب ہے اس لیے کارروائی انتخابات کے بعد تک ملتوی کی جائے، عدالت نے سابق وزیراعظم کی استدعا منظور کرتے ہوئے سماعت 22 اکتوبر تک کے لیے ملتوی کردی۔
یاد رہے کہ ہائیکورٹ نے میڈیا انٹرویو کی بنیاد پر دونوں رہنماؤں کے خلاف حلف کی پاسداری نہ کرنے کے الزام میں بغاوت کی کارروائی کرنے کی درخواست پر طلب کیا تھا۔
سابق وزیراعظم نواز شریف عدالتی احاطے میں پہنچے تو لیگی کارکنان کی بڑی تعداد نے ان کے گرد حصار بنایا اور انہیں کمرہ عدالت میں پہنچنے میں بھی مشکلات کا سامنا رہا۔
انتظامیہ کی جانب سے ہائیکورٹ اور اطراف میں سیکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے جب کہ پولیس کی اضافی نفری بھی تعینات رہی۔
شہری درخواست گزار آمنہ ملک نے سابق وزیراعظم نواز شریف کے انگریزی اخبار کو دیے گئے متنازع انٹرویو کو بنیاد بناتے ہوئے لاہور ہائیکورٹ میں درخواست دائر کی جس میں استدعا کی ہے کہ نواز شریف اور شاہد خاقان عباسی نے وزارت عظمیٰ کے حلف کی پاسداری نہیں کی اس لیے دونوں کے خلاف بغاوت کی کارروائی کی جائے۔
سابق وزیراعظم نواز شریف کا اپنے متنازع بیان میں کہنا تھا کہ عسکری تنظیمیں نان اسٹیٹ ایکٹرز ہیں اور ممبئی حملوں کے لیے پاکستان سے غیر ریاستی عناصر گئے، کیا یہ اجازت دینی چاہیے کہ نان اسٹیٹ ایکٹرز ممبئی جا کر 150 افراد کو ہلاک کردیں، بتایا جائے ہم ممبئی حملہ کیس کا ٹرائل مکمل کیوں نہیں کرسکے۔
نواز شریف کے بیان پر بھارتی میڈیا نے اسے پاکستان کے خلاف استعمال کیا جب کہ ملکی سیاسی رہنماؤں کی جانب سے نواز شریف کے بیان کی شدید مذمت کی گئی۔
نواز شریف کے ممبئی حملوں سے متعلق متنازع بیان پر پاک فوج کی تجویز پر قومی سلامتی کمیٹی کا ہنگامی اجلاس اس وقت کے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی زیرصدارت ہوا جس میں نواز شریف کے بیان کو بے بنیاد قرار دیا گیا اور اس کی مذمت بھی کی گئی۔
نواز شریف کے بیان کے بعد شاہد خاقان عباسی نے وزیراعظم کی حیثیت سے سابق وزیراعظم نواز شریف سے ملاقات کی اور انٹرویو کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال سے آگاہ کیا۔
درخواست گزار نے اپنی درخواست میں مؤقف بھی اختیار کیا کہ نواز شریف نے متنازعہ انٹرویو دے کر ملک و قوم سے غداری کی جب کہ شاہد خاقان عباسی نے قومی سلامتی کمیٹی کی کارروائی سابق وزیراعظم کو بتا کر حلف کی پاسداری نہیں کی اس لیے دونوں کے خلاف بغاوت کی کارروائی کی جائے۔