5 اکتوبر کو نَیب لاہور نے قائدِحزبِ اختلاف، نواز لیگ کے صدر اور سابق وزیرِاعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کو صاف پانی سکینڈل میں طلب کیا اور نَیب آفس پہنچنے پر آشیانہ ہاؤسنگ سکیم سکینڈل میں گرفتار کر لیا۔ اِسی سکینڈل میں سابق ڈی جی ایل ڈی اے احدچیمہ گزشتہ آٹھ ماہ سے گرفتار ہے لیکن تاحال اُس کے خلاف احتساب عدالت میں کوئی ریفرنس نہیں بھیجا گیا۔سابق وزیرِاعظم میاں نواز شریف کے سابق پرنسپل سیکرٹری فوادحسن فواد بھی اِسی سکینڈل میں نیب کے پنجۂ استبداد میں ہیں اور اب میاں شہبازشریف بھی گرفتار ہوگئے۔
جب تاریخِ پاکستان میں پہلی بار تیسرے لگاتار اور بروقت عام انتخابات کا انعقاد ہوا تو ہم سمجھے کہ جمہوری تواتر شروع ہوچکا اوراب جمہوریت کا نخلِ نوخیز ووٹ کی آبیاری سے تن آور پیڑ میں ڈھلنے کو ہے مگر ”خواب تھا جو کچھ کہ دیکھا، جو سنا افسانہ تھا”۔ کڑوا سچ یہی کہ ”جمہور” کو نہ پہلے کبھی کوئی حیثیت دی گئی نہ اب جمہوری نقارخانے میںاُس کی کوئی آواز۔ بیچاری ”بی بی جمہوریت” پکار پکار کے تھک چکی کہ
نا حق ہم مجبوروں پر تہمت ہے مختاری کی چاہتے ہیں سو آپ کریں ہیں ، ہم کو عبث بدنام کیا
مسندِاقتدار کی کشمکش نے جمہوریت کا حلیہ بگاڑ کے رکھ دیا۔ اگر جمہور کے نمائندوں کو جمہوریت کی پرکاہ برابر پرواہ بھی ہوتی تو وہ آئین میں آمروں کی لائی ترامیم کو بیک قلم مسترد کر دیتے لیکن ایسا ہوا نہیں اور نہ ہونے کی کوئی توقع۔ جب آئین میں اٹھارویں ترمیم کا ڈول ڈالا گیاتب آمر ضیاء الحق کے لائے ہوئے آرٹیکلز 62 اور 63 کو ختم کیا جا سکتا تھا لیکن اُس وقت نوازلیگ نہیں مانی۔ پھر چشمِ فلک نے دیکھا کہ میاں نوازشریف اُسی آرٹیکل 62 کا شکار بنے۔ نیب کا قانون آمر پرویز مشرف نے تخلیق کیا، مقصد احتساب نہ کرپشن کا خاتمہ بلکہ اپنے مخالفین کے گرد گھیرا تنگ کرنا تھا۔ میاں نوازشریف، مریم نواز اور کیپٹن (ر) صفدر اِسی نیب کے قانون کے تحت اڈیالہ جیل پہنچے۔ پیپلزپارٹی پر بھی ہر وقت نیب کی تلوار لٹکتی رہتی ہے۔
سعید غنی کہتے ہیں کہ نیب کا قانون بہت بھیانک ہے۔ حقیقت یہ کہ نیب کے خاتمے کے لیے کئی بار آوازیں اُٹھیں لیکن جمہوری رہنماء اِس پر کبھی متفق نہیں ہوسکے۔ وجہ صرف یہ کہ جو بھی مسندِ اقتدار پر براجماں ہوتا ہے، احتساب کے نام پر ہی تو اپنے مخالفین کو ”رَگڑا” دیتا ہے۔ پیپلزپارٹی اور نوازلیگ اپنے ادوارِ حکومت میں احتساب کے نام پر ہی باہم برسرِپیکار رہیں لیکن پرویز مشرف کے مارشل لاء کے بعد اُنہیں سمجھ آگئی اور ”میثاقِ جمہوریت” پر متفق ہونا پڑا۔ اب حصولِ حکومت میں نَووارد”تبدیلی” کے علم برداروں نے نئے پاکستان کی بنیاد ”احتساب” کے نعرے پر ہی رکھی جس کا پہلا شکارمیاں شہبازشریف بنے۔ تحریکِ انصاف کو بھی احتساب کے نام پر انتقام کی سیاست جیسی غلطی کا بہرحال ادراک ہوگا لیکن اُس وقت تک شاید بہت دیر ہو چکی ہوگی۔
میاں شہبازشریف کی گرفتاری کے بعدوفاقی وزیرِاطلاعات ونشریات فوادچودھری نے کہا ”عوام کو خوشخبریاں سنانے کا موسم شروع ہوگیا”۔ اُس کے خیال میں میاں صاحب کی گرفتاری بارش کا پہلا قطرہ ہے،ابھی اور بہت سی گرفتاریاں ہونے والی ہیں۔کہا تو یہی جاتا ہے کہ نیب آزاد وخودمختار ادارہ ہے لیکن فوادچودھری کی بڑھکوں کے بعد تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے نیب حکومت کا ”ذیلی ادارہ” ہے جو حکومت کے حکم پر ہی ”اِن ایکشن” ہوتا ہے۔ کیونکہ بجائے اِس کے کہ نیب کسی کی گرفتاری کا جواز پیش کرے، یہ فریضہ تحریکِ انصاف سرانجام دیتی نظر آتی ہے۔ میاں نوازشریف کی گرفتاری سے بہت پہلے کپتان نے بار بار کہا کہ اڈیالہ جیل نوازشریف کی منتظر ہے اور بالآخر وہ اڈیالہ جیل پہنچ ہی گئے۔
شہباز شریف کے بارے میںبھی فوادچودھری نے متعدد بار کہا کہ وہ بھی اڈیالہ جیل جائیں گے اور اب نیب نے فوادچودھری کے ”حکم” پر عمل درآمد کر دکھایا۔ فوادچودھری کہتے ہیں ”چور کو چور اور ڈاکو کو ڈاکو نہ کہوں تو اور کیا کہوں؟”۔ بجا مگر احتساب کی تلوار صرف نوازلیگ اور پیپلزپارٹی کے لیے ہی کیوں، تحریکِ انصاف کے لیے کیوں نہیں؟۔ خود وزیرِاعظم عمران خاں ہیلی کاپٹر کے غلط استعمال پر نیب کے ملزم ہیں لیکن طرفہ تماشہ یہ کہ خاںصاحب اُسی ادارے کے چیئرمین سے ”بطور وزیرِاعظم” ملاقات بھی کرتے ہیں جس کے وہ ملزم ہیں۔ اب وزیرِاعظم اور چیئرمین نیب کے درمیان کیا ”رازونیاز” ہوئے؟، یہ وزیرِاعظم جانیں یا چیئرمین نیب۔ سپریم کورٹ بابراعوان کے خلاف نندی پور کیس میں باقاعدہ انکوائری کا حکم دے چکی، وہ نیب میں پیشیاں بھی بھگت رہا ہے لیکن اُس کی گرفتاری کا تصور کرتے ہوئے بھی نیب پر کپکپی طاری ہو جاتی ہے۔ پنجاب کے سینئر وزیر علیم خاں کے خلاف تو نیب میں پرویز مشرف دَور سے کیسز کھلے ہوئے ہیں لیکن وہاں بھی نیب کے پَر جلتے ہیں۔ وزیرِاعظم عمران خاں کا معاونِ خصوصی زُلفی بخاری (جو غیرملکی شہری ہے) پر بھی نیب کیسز ہیں لیکن وہ بھی کسی گرفتاری کے خوف سے بے نیاز دندناتا پھرتا ہے۔ ایک طرف تو خواجہ سعدرفیق اور سلیمان رفیق کا نام ای سی ایل پر ڈال دیا جاتا ہے جبکہ دوسری طرف عمران خاں نے خود فون کرکے زلفی بخاری کا نام ای سی ایل سے نکلوایا۔ چودھری برادران (چودھری شجاعت حسین، چودھری پرویز الٰہی) بھی نیب کی انکوائریاں بھگت رہے ہیںلیکن اُنہیں بھی گرفتار نہیں کیا جاتا۔ یہ ساری ”مہربانیاں” شریف برادران ہی کے لیے کیوں؟۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ حکومت ضمنی انتخابات کی آمد پر بوکھلاہٹوں کا شکار ہو گئی ہے؟ کیونکہ تحریکِ انصاف کی ”حکومتی عمارت” تو محض تین چار ارکانِ اسمبلی کے سہارے پر کھڑی ہے۔ اگر ضمنی انتخابات میں 11 ارکانِ قومی اسمبلی اپوزیشن کے کھاتے میں چلے گئے تو یہ ”عمارت” دھڑام سے گِر جائے گی۔
عام انتخابات سے پہلے میاں نوازشریف کو گرفتار کیا جاتا ہے اور ضمنی انتخابات سے پہلے میاں شہبازشریف پا بہ زنجیر۔ ایسے میں قوم یہ سوچنے پر مجبور کیوں نہ ہو کہ یہ سب سیاسی انتقام اور کرسی سے چمٹے رہنے کی تگ ودَو ہے۔ سچ کہا میاں نوازشریف نے کہ شہبازشریف کی گرفتاری ”مضحکہ خیز” ہے۔ میاں نوازشریف ایک ”اقامے” کی بنیاد پر گھر سدھارے اور اب میاں شہبازشریف اُس آشیانہ سکینڈل کیس میں گرفتار ہوئے جس میں نہ سرکاری خزانے سے حکومت کا ایک پیسہ صرف ہوا اور نہ ہی حکومت کی ایک انچ زمین گئی۔ نیب کا الزام یہ کہ آشیانہ ہاؤسنگ سکیم کا منصوبہ پہلے پی ایل ڈی سی سے لے کر ایل ڈی اے اور پھر ایل ڈی اے سے واپس پی ایل ڈی سی کو کیوں دیا گیا۔ لیکن اصل الزام یہ کہ 2013ء میں لطیف سنز کے ساتھ کیے گئے معاہدے کو کیوں منسوخ کیا گیا۔
حمزہ شہباز نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے بتایا کہ چودھری لطیف نیب ہی کا مجرم تھا جہاں سے اُس نے ”پلی بارگین” میں اصل سے 10 گُنا زیادہ دے کر جان چھڑائی۔ وہ محکمہ اینٹی کرپشن کا بھی ”مفرور” ہے لیکن اِس کے باوجود اُسے پشاور میٹرو بس کا ٹھیکہ دے دیا گیا۔ اگر حمزہ شہباز کا کہا سچ ہے تو پھر میاں شہباز شریف نے لطیف سنز کے ساتھ آشیانہ ہاؤسنگ سکیم کا ٹھیکہ منسوخ کرکے کوئی غلط کام نہیں کیا ۔ اب نیب کو چاہیے کہ اگر اُس کے پاس کوئی ٹھوس ثبوت ہے تو احتساب عدالت میں پیش کرے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ ایون فیلڈ ریفرنس کی طرح اُسے ایک دفعہ پھر بُری ہزیمت کا سامنا کرنا پڑے۔